کشمیر میں روشن پاکستان ۔ آخری قسط

جمعہ 12 مارچ 2021

Mian Habib

میاں حبیب

ہم نے نئے دن کا آغاز ایک خوبصورت آبشار سے شروع کیا کنڈل شاہی کے مقام پر اس آبشار نے دلفریب نظارہ پیدا کر رکھا اونچائی سے گرتا پانی جو پتھروں سے ٹکراتا ہے تو ایک شور پیدا ہوتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا آبشار کے حسن نے سب کو اپنے سحر میں قابو کر لیا سب نے یہاں خوب تصویریں بنائیں اس آبشار کے دوسرے کنارے پر مصطفائی پبلک سکول ہے جہاں پاکستان کا مستقبل پروان چڑھ رہا ہے مجھے یہاں کے ٹیلنٹ نے بہت متاثر کیا ایک بچی نے کشمیر کے حوالے سے ایک دعا سنائی جس نے سب کو آبدیدہ کر دیا اللہ نے بچی کو خداداد صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے اس نے جس ردھم کے ساتھ آغاز کیا لگتا تھا کہ وہ کسی گائیک گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اس کی دعا میں کشمیریوں کا نوحہ بھی تھا اور اللہ سے التجا بھی تھی یہیں ایک بچے نے کشمیر کے دوہڑے بھی سنائے سکول میں نہ صرف بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے بلکہ ان کی تربیت کا بھی بڑا خیال رکھا جاتا ہے ایثار وقربانی کی عملی تصویر وہاں کے اساتذہ تھے جن میں کافی تعداد خواتین کی تھی وہ یا تو اعلی تعلیم یافتہ تھے یا ابھی اعلی تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن انھوں نے اپنے آپ کو وہاں کے بچوں کے لیے وقف کر رکھا تھا یہاں پر فروغ تعلیم کے لیے یاسر رشید جو کہ cyte فاؤنڈیشن کے روح رواں ہیں کا بڑا اہم کردار ہے سائٹ فاونڈیشن  بے وسیلہ بچوں کی فیس، ان کے یونیفارم ان کی کتابوں کا بندوبست بھی کرتی ہے کچھ تعلیمی اداروں میں سولر پینل کے ذریعے لائیٹ کا بندوبست بھی کیا ہے کئی تعلیمی اداروں میں لیب بنوا کر دی ہیں جب انھیں ادراک ہوا کہ کئی بچے محض اس لیے تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے کہ ان کا یا تو کمانے والا کوئی نہیں یا پھر ان کے پاس وسائل نہیں تو انھوں نے اس کا ایک زبردست حل نکالا اور ہم اس فارمولے کو اپنا کر انقلاب لا سکتے ہیں فاونڈیشن نے ان لوگوں کو دو،دو تین تین بکریاں لے کر دیں اور کہا کہ آپ نے سال بعد بکری کا ایک بچہ انھیں واپس کرنا ہے تاکہ وہ بچہ آگے کسی کو دیا جاسکے اس طرح یہ سرکل بن جائے گا کنڈل شاہی آبشار پر صائم شہید پل بنایا گیا ہے اس پر ایک بورڈ نصب ہے ساتھ ہی ایک کیفے ٹیریا ہے جو اس شہید بچے کے نام سے منسلک ہے اسی سکول میں زیر تعلیم یہ بچہ پل ٹوٹنے کے باعث شہید ہو گیا تھا مجھے جس بات نے بہت زیادہ متاثر کیا وہ ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کا حوصلہ تھا ان کی مشقت والی زندگی تھی ہم اپنے بچوں کے ہزار نخرے اٹھاتے ہیں انھیں سکول بھیجنے کے کئی جتن کرتے ہیں روز ان کا استری کیا ہوا یونیفارم ان کے لنچ کا اہتمام ان کو سکول لانے لیجانے کے لیے کنوینس اس کے باوجود ہمارے بچے اس طرح توجہ نہیں دیتے وہاں بچوں نے بتایا کہ وہ صبح کا ناشتہ کر کے آتے ہیں اور پھر گھر جا کر کھانا کھاتے ہیں ان میں بعض بچے ایسے بھی تھے دوگھنٹے پیدل چل کر سکول آتے ہیں اور پھر یہ بچے گھروں میں جاکر والدین کے ساتھ کام بھی کرواتے ہیں کھیتی باڑی مال مویشیوں کو سنبھالتے ہیں کنڈل شاہی سے تھوڑا فاصلے پر ایک کالج اور سکول ہے جو فورسز میں سروس کرنے والے ایک خطیب صاحب نے ریٹائرمنٹ پر قائم کیا اور آج اس علاقے میں معیاری تعلیم کا مرکز بن چکا ہے یہاں بھی سائٹ فاؤنڈیشن اپنے حصے کا کام کر رہی ہے یہاں ہماری پاکستان کے اصل ہیرو سے ملاقات ہوئی یہ کراچی کے رہنے والے عزیز الرحمن ہیں جن کی تعلیم کے لیے قربانی بے مثل ہے جنھوں نے آئی ٹی میں بل گیٹس کے ہاتھوں سے ایوارڈ حاصل کر رکھا ہے اور ان کا شمار دنیا چند ایک لوگوں میں ہوتا ہے جن کی صلاحیتوں کے بل بوتے پر انھیں بل گیٹس نے ایوارڈ دیے عزیز الرحمن کے بچے کراچی میں رہتے ہیں اور وہ ایک سال سے اس پسماندہ علاقے کے بچوں کو کمپیوٹر اور سافٹ وئیر کی تعلیم دے رہے ہیں انھوں نے بتایا وہ سال میں صرف ایک ہفتے کے لیے کراچی گئے تھے اب انھوں نے اپنے بیوی بچوں کو بھی اس علاقے میں شفٹ ہونے کے لیے راضی کر لیا ہے اب وہ جلد یہاں شفٹ ہو جائیں گے شہر کی آسائشوں والی زندگی چھوڑ کر اپنے آپ کو تعلیم کے لئے وقف کر دینا کسی جہاد سے کم نہیں بلکہ یہ اصل جہاد ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :