جمہوریت بے نقاب

پیر 15 مارچ 2021

Mian Habib

میاں حبیب

سینٹ کے انتخابات مکمل ہو گئے ہیں لیکن جمہوریت ننگی ہو گئی ہے سینٹ کے ہنگامہ خیز الیکشن نے سیاسی، اخلاقی اور جمہوری حوالوں سے خوفناک توڑ پھوڑ کی ہے جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے زوال کا شکار ہو گئی ہے اس کھلم کھلا جوڑ توڑ اور من مانی نے پاکستان کے نظام پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے سینٹ کے الیکشن میں حکومتی امیدوار صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی کی جیت کو حکومت کی آئینی مدت سے تشبیہ دی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب واضح ہو گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی لیکن اپوزیشن کو جتنے گھاو لگے ہیں اس کے بعد اپوزیشن سکون سے نہیں بیٹھے گی اگلے دو سال سیاسی لحاظ سے بڑے ہنگامہ خیز ہوں گے اپوزیشن حکومت کو سکھ کا سانس نہیں لینے دے گی جوں جوں عام انتخابات کا وقت قریب آتا جائے گا اپوزیشن کا دباو بڑھتا چلا جائے گا حکومت کو ایک طرف اپوزیشن کی احتجاجی سیاست کا سامنا ہو گا اور دوسری طرف عوام کو ریلیف دینے کا دباو ہو گا موجودہ کارکردگی کے ساتھ حکومت اگلے الیکشن میں عوام کے پاس نہیں جا پائے گی انھیں عوام میں جانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا لیکن سیاسی طور پر حکومت کے لیے پی ڈی ایم کے اختلافات تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو سکتے ہیں سینٹ کے انتخابات نے پیلز پارٹی مرکزی کردار کے ساتھ نمایاں رہی اور مسلم لیگ ن "جمعہ جنج نال" سے آگے نہ بڑھ سکی پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اپنے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو تو جتوا لیا لیکن ن لیگ کی خاتون امیدوار کو ہروا دیا جو ن لیگ کے لیے ایک سبق تھا اور شاید اسی سبق نے حکومت کے لیے چیرمین سینٹ کے الیکشن میں ن لیگ کے ارکان کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا سینٹ کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے اپنا ایمیج بہتر بنانے کی کوشش کی انھوں نے ثابت کیا کہ ان کے ارکان پارلیمنٹ ثابت قدم رہے جبکہ ساری توڑ پھوڑ ن لیگ اور تحریک انصاف میں ہوئی ہے پیپلز پارٹی کا یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں پہنچا کر مورال کافی ہائی ہے جبکہ ن لیگ کافی ڈی مورلائز ہوئی ہے سینٹ کے الیکشن میں جس طرح مینو فیکچرنگ کی گئی اس نے پاکستانی سیاست کو بہت نقصان پہنچایا ہے لوگ  یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدانوں کا کوئی دین مذہب نہیں ان میں زیادہ تر لوگ بکاو مال ہیں اور یہاں سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے ذرا سوچیں اگر سیاستدان عمران خان کے مشورہ سے اتفاق کرتے اور اوپن بیلٹ پر اتفاق رائے سے قانون سازی کر لیتے تو یوں سر بازار رسوا نہ ہوتے حالانکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں میثاق جمہوریت میں اس ایجنڈے پر متفق تھے اگر اوپن بیلٹ سے انتخاب ہوتا تو پنجاب کی طرح چاروں صوبوں میں عددی اعتبار سے جس کی جتنی نشستیں بنتئ تھیں انھیں مل جاتیں سارے لوگ بلا مقابلہ منتخب ہو جاتے اور آج چیرمین سینٹ اپوزیشن کا ہوتا حکومت نے اپنا چیرمین سینٹ تو م منتخب کروا لیا ہے لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا ہے پہلے قومی اسمبلی میں اپنے ارکان کی بے وفائی نے حکومت کو گہرا زخم دیا اور عمران خان کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر اس کا مدوا کرنا پڑا اب سینٹ میں مخالفین کی حمایت حاصل کر کے تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا نہ اپوزیشن نے صیح کیا نہ حکومت نے ،نانی نے خصم کیا برا کیا کرکے چھوڑ دیا اور برا کیا جو کچھ ہوا اس سے دنیا بھر میں ہماری سیاست جمہوریت اور اخلاقیات کا مذاق اڑایا گیا آئندہ کیا کرنا ہے اس بارے میں ہی سوچ لیا جائے ورنہ عوام کا سیاست سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے یہ نہ ہو عوام سیاست کو گالی سمجھ کر کسی اور طرف دیکھنا شروع کر دیں سیاست دانوں کو اپنا گند خود ہی صاف کر لینا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :