صیح کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں اور پاکستانی سیاست تو ویسے ہی بڑی بے رحم ہے مطلب کے بغیر کوئی سلام بھی نہیں لیتا حال ہی میں لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخابات نے بہت کچھ آشکار کر دیا ہے ان انتخابات میں حکومت اپنی غلطی کی وجہ سے یا جان بوجھ کر الیکشن سے باہر ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومتی امیدوار کے بغیر الیکشن کا رنگ جم نہیں پایا پھیکا پھیکا سا الیکشن تھا اپوزیشن بمقابلہ اپوزیشن تھی نہ حکومت پر مداخلت کا کوئی الزام لگ سکا نہ اداروں کی مداخلت کا رونا رویا گیا پولیس اور انتظامیہ بھی شریف بنی رہی چارو ناچار میدان میں موجود اتحادی جماعتوں کو ایک دوسرے پر الزام لگا کر کام چلانا پڑا کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ حکومت شکست کے داغ سے بچنے کے لیے انتخابی عمل سے آؤٹ ہوئی ہمیں حکومتی امیدوار جمشید اقبال چیمہ کی وفاداری پر شک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز تحریک انصاف سے کیا اور آج تک اسی جماعت کے ساتھ وفاداری نبھا رہے ہیں وہ اچھے بھلے وزیراعظم کے مشیر تھے کہ الیکشن کے لیے وہاں سے بھی مستعفی ہوئے الیکشن بھی نہ لڑ سکے اس لیے ان کے بارے میں یہ سوچناکہ انہوں نے جان بوجھ کر اپنے کاغذات مسترد کروائے ہوں گے درست نہیں البتہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر یہ کہیں فیصلےکے نتیجے میں بھی ہوا ہے تو یہ حکومت کی زبردست چال ہے ویسے بھی یہ نشست مسلم لیگ نون کی تھی اگر حکومت یہ نشست جیت بھی جاتی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا لیکن حکومت نے الیکشن سے باہر ہوکر سیاسی طور پر اتنا کچھ حاصل کر لیا ہے کہ انہوں نے اپنے باقی مدت اقتدار کو محفوظ کر لیا ہے اس فیصلے کے ذریعے انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان ایک نئی محاذ آرائی پیدا کر کے انھیں آپس میں الجھا دیا ہے پی ڈی ایم جو کہ احتجاج کی نئی راہیں تلاش کر رہی تھی اب ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی پر اتری ہوئی ہے پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری نے لاہور میں بیٹھ کر اپنے ٹارگٹ کا اعلان کر دیا ہے وہ اگلے انتخابات میں پنجاب سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیےمسلم لیگ ن کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں انھیں پتہ ہے کہ پنجاب سے حصہ وصول کیے بغیر وہ وفاق میں حکومت نہیں بنا سکتے اس لیے انہوں نے ذہنی طور پر ن لیگ سے راہیں جدا کرلی ہیں وہ قومی سیاست میں اب صرف ن لیگ کو دباؤ کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ کسی ایسی سیاسی چال کا حصہ نہیں بنیں گے جس کا فائدہ ن لیگ کو پہنچتا ہو اوپر سے اس ضمنی الیکشن میں دونوں جماعتوں کے قائدین نے ایک دوسرے پر اس قسم کے الزامات عائد کیے ہیں کہ اگر وہاں سے واپسی ہوتی ہے تو دونوں کی سیاست متاثر ہو گی پیپلزپارٹی نے جیسے تیسے بھی ووٹ حاصل کیے ہیں 5ہزار سے 32 ہزار ووٹوں تک پہنچنا بہت بڑی کامیابی ہے یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہار کر بھی جشن منا رہی ہے اس الیکشن نے پیپلزپارٹی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے پارٹی کے ورکر متحرک ہو گئے ہیں انہیں امید ہوگئی ہے کہ کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ حکومت الیکشن نہ لڑکرخوش ہے مسلم لیگ ن اپنی سیٹ جیت کر خوش ہے اور پیپلز پارٹی الیکشن ہار کر بھی شادیانے بجا رہی ہے لیکن انتخابات نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ میلہ تحریک انصاف کے ساتھ ہی جچتا ہے تحریک انصاف کے بغیر انتخابات میں صرف 18 فیصد ووٹ پڑے ہیں اس کا مطلب ہے کہ لوگوں نے اس الیکشن سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے آپ کو یاد ہوگا 2013 کے انتخابات سے قبل بھی لوگوں کی انتخابات میں دلچسپی بہت کم رہ گئی تھی 1993 سے 2007 تک جب پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان مقابلہ تھا اور دونوں میں سے ایک کے چناو مقصود ہوتا تھا ان انتخابات میں ووٹ کاسٹ ہونے کا تناسب کم سے کم ترہوتا جا رہاتھا یہ تحریک انصاف ہی تھی کہ جس نے لوگوں کو سیاسی سسٹم کی طرف دوبارہ راغب کیا لوگوں کی انتخابی عمل میں دلچسپی بڑھائی یہ عمل اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ اگر تحریک انصاف بھی لوگوں کی توقعات پر پورا نہ اتری تو لوگوں کا اس سیاسی نظام سے اعتماد اٹھ جائے گا اگلے انتخابات میں اگر ووٹ کم پڑتے ہیں تو عوام کی پاکستان کے سیاسی نظام پر بداعتمادی ہو گی اگر تحریک انصاف لوگوں کی ہوپ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تو اگلے انتخابات میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رہے گی ورنہ کچھ اور سوچنا پڑے گا یہاں یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ کیا تحریک انصاف اور تحریک لبیک کو ضمنی الیکشن سے باہر رکھ کر پیپلزپارٹی کی استعداد چیک کرنے کا موقع تو فراہم نہیں کیا گیا اب تک کے سیاسی حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے تو سہولتیں پیدا کی جا سکتی ہیں لیکن ن لیگ کی دال نہیں گل پا رہی لہذا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سیاست اب نئی راہیں اختیار کرنے والی ہیں حقیقت یہ ہے کہ اب ساری سیاسی جماعتوں نے اگلے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ہر ایک کو آپو اپنی پڑ گئی ہے اس لیے اب کسی سیاسی تحریک کا کوئی امکان نہیں سیاسی پرندوں نے نئے سفر کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔