الیگزینڈر دی گریٹ یا عمر رضی اللہ عنہ دی گریٹ

اتوار 23 اگست 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

خلیفہ حضرت دوئم امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے شاندار کردار اور کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے آپ رضی اللّٰہ عنہ کا دورِ خلافت اسلامی تاریخ کا درخشندہ اور بے مثال دور تھا، آپ رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں کئی شعبوں کی بنیاد رکھی جن سے رہتی دنیا تک انسانیت استفادہ کرتی رہے گی۔

خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں جن کی اسلام کی قبولیت کے لیے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا مانگی تھی آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کی قوت اور عظمت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22 لاکھ مربع میل تک پھیل گئی تھی آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں مصر، ایران، روم اور شام جیسے بڑے ممالک فتح ہوئے۔

(جاری ہے)

لیکن آج 2020میں پوری دنیا کے مورخین کے سامنے ہم یہ سوال رکھتے ہیں کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوئے الیگزینڈر کو سکندر اعظم کہلانے کا حق حاصل ہے؟ میں دنیا بھر کے مورخین کو سکندر اعظم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی فتوحات اور کارناموں کے موازنے کی دعوت دیتے ہیں آپ بھی سوچئے الیگزینڈر بادشاہ کا بیٹا تھا، اسے دنیا کے بہترین لوگوں نے گھڑ سواری سکھائی، اسے ارسطو جیسے استادوں کی صحبت ملی تھی اور جب وہ20 سال کا ہو گیا تو اسے تخت اور تاج پیش کر دیا گیا جبکہ اس کے مقابلے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سات پشتوں میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا تھا، آپ رضی اللہ عنہ بھیڑ بکریاں اور اونٹ چراتے چراتے بڑے ہوئے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ نے تلوار بازی اور تیر اندازی بھی کسی اکیڈمی سے نہیں سیکھی تھی، سکندراعظم نے آرگنائزڈ آرمی کے ساتھ دس برسوں میں 17 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا تھا جبکہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دس برسوں میں آرگنائزڈ آرمی کے بغیر 22 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا آپ رضی اللہ عنہ نے قیصر و کسریٰ کو پیوند خاک کرکے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، عجم، آرمینہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران فتح کئے۔

آج کے سیٹلائیٹ، میزائل اور آبدوزوں کے دور میں بھی دنیا کے کسی حکمران کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نہ صرف گھوڑوں کی پیٹھ پر فتح کرائی تھی بلکہ اس کا انتظام و انصرام بھی چلایا تھا، الیگزینڈر نے فتوحات کے دوران اپنے بے شمار جرنیل قتل کرائے، بے شمار جرنیلوں اور جوانوں نے اس کا ساتھ چھوڑا، اس کے خلاف بغاوتیں بھی ہوئیں اور ہندوستان میں اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار بھی کر دیا لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کسی ساتھی کو ان کے حکم سے سرتابی کی جرات نہ ہوئی، وہ ایسے کمانڈر تھے کہ آپ نے عین میدان جنگ میں عالم اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا اور کسی کو یہ حکم ٹالنے کی جرات نہ ہوئی، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کوفے کی گورنری سے ہٹا دیا، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت حارث بن کعب رضی اللہ عنہ سے گورنری واپس لے لی، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا مال ضبط کر لیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے حمص کے گورنر کو واپس بلا کر اونٹ چرانے پر لگا دیا لیکن کسی کو حکم عدولی کی جرات نہ ہوئی۔

الیگزینڈر نے 17 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا لیکن دنیا کو کوئی نظام، کوئی سسٹم نہ دے سکا جب کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا کو ایسے سسٹم دیے جو آج تک پوری دنیا میں رائج ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے نماز فجر میں الصلوٰة خیر من النوم کا اضافہ کرایا، آپ رضی اللہ عنہ کے عہد میں نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا، آپ رضی اللہ عنہ نے حکمرانوں‘سرکاری عہدیداروں اور اہلکاروں کو اثاثے ڈکلیئرکرنے کا تصور دیا، سن ہجری کا اجراء کیا، جیل کا تصور دیا، موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں، مسجدوں میں روشنی کا بندوبست کرایا، پولیس کا محکمہ بنایا، ایک مکمل عدالتی نظام کی بنیاد رکھی‘زمینوں کی پیمائش اور حد بندیوں کا نظام قائم کیا کہا جاتا ہے کہ عراق میں آج تک کچھ مقامات پر عہد فارقی رضی اللہ عنہ کے دور کے زمین کی حد بندی کے پتھر گڑے ہوئے ہیں، آب پاشی کا نظام قائم کرایا، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں ‘ڈاک کا نظام قائم کیااور فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا، آپ رضی اللہ عنہ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواؤں اور بے آسراؤں حتی کہ ذمیوں(غیرمسلم رعایا )کے لیے وظائف مقرر کیے۔

یہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا ہی بنایا ہے قانون ہے جو آج دنیا میں رائج ہے کہ حکمرانوں کو ملنے والے تخائف ذاتی نہیں ہوتے بلکہ ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں کیونکہ انہیں وہ تخائف بخثیت حکمران ملتے ہیں نہ کہ ذاتی حیثیت میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ قانون رائج ہے اہل مغرب جس ویلفیئرریاست کی بات کرتے ہیں اس کا نہ صرف تصور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیا بلکہ عملی طور پر بنا کر بھی دکھائی۔

آپ نے قافلوں کے لیے پوری ریاست میں سراؤں کا نظام قائم کیا جہاں انسانوں کے آرام اور کھانے پینے کے سامان کی دستیابی کے ساتھ جانوروں کے پینے کے پانی اور چارے کا بندوبست بھی ہوتا تھا‘آپ رضی اللہ عنہ نے دنیا میں پہلی بار حکمرانوں، سرکاری عہدیداروں اور والیوں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا، آپ رضی اللہ عنہ نے بے انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے دنیا میں پہلی بار حکمران اشرافیہ کے احتساب کا نظام قائم کیا اور حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کو شعبہ احتساب کے سربراہ مقررکیا، آپ رضی اللہ عنہ راتوں کو تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے جو حکمران عدل کرتے ہیں وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کا فرمان تھا ” قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہے،، آپ رضی اللہ عنہ کی مہر پر لکھا تھا ”عمر! نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے،، آپ رضی اللہ عنہ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں رکھے گئے۔

آپ رضی اللہ عنہ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سو جاتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ سفر کے دوران جہاں نیند آ جاتی تھی آپ رضی اللہ عنہ کسی درخت پر چادر تان کر سایہ کرتے تھے اور سو جاتے تھے اور رات کو ننگی زمین پر دراز ہو جاتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ کے کرتے پر چودہ پیوند تھے اور ان پیوندوں میں ایک سرخ چمڑے کا پیوند بھی تھا، آپ رضی اللہ عنہ موٹا کھردرا کپڑا پہنتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ کو نرم اور باریک کپڑے سے نفرت تھی، آپ رضی اللہ عنہ کسی کو جب سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تو اس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور اگر سرکاری عہدے کے دوران اس کے اثاثوں میں اضافہ ہو جاتا تو آپ رضی اللہ عنہ اس جواب طلب فرماتے۔

آپ رضی اللہ عنہ جب کسی کو گورنر بناتے تو اسے نصیحت فرماتے تھے، کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا، آپ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ظالم کو معاف کر دینا مظلوموں پر ظلم ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کا یہ فقرہ آج انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے ”مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں تم نے انھیں کب سے غلام بنا لیا ؟ “ فرمایا میں اکثر سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں ”عمر رضی اللہ عنہ بدل کیسے گیا“ آپ رضی اللہ عنہ اسلامی دنیا کے پہلے خلیفہ تھے جنھیں ”امیر المومنین“ کا خطاب دیا گیا، دنیا کے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہے اسلام کی سب سے بڑی خصوصیت عدل ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جو اس خصوصیت پر پورا اترتے ہیں۔

آپ رضی اللہ عنہ کے عدل کی وجہ سے عدل دنیا میں عدل فاروقی رضی اللہ عنہ ہو گیا، آپ شہادت کے وقت مقروض تھے چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق آپ کا واحد مکان بیچ کر آپ کا قرض ادا کر دیا گیا اور آپ رضی اللہ عنہ دنیا کے واحد حکمران تھے جو فرمایا کرتے تھے میرے دور میں اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کی سزا عمر (حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ) کو بھگتنا ہو گی’آج اہل مغرب جانوروں کے حقوق کی بات کرتے ہیں مغربی دنیا میں Animal Shelter (جانوروں کے لیے پناہ گاہیں)قائم ہیں تو یہ بھی ہمیں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد کی یاد دلاتی ہیں animal shelterkhکا تصور بھی آپ نے دنیا کو دیا، آپ رضی اللہ عنہ کے عدل کی یہ حالت تھی آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو آپ کی سلطنت کے دور دراز علاقے کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا ” لوگو! عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا“ لوگوں نے حیرت سے پوچھا تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں ہو تمہیں اس سانحے کی اطلاع کس نے دی چرواہا بولا جب تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر لے گیا، میں نے بھیڑیئے کی جرات سے جان لیا آج دنیا میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ موجود نہیں ہیں۔

میں دنیا بھر کے مورخین کو دعوت دیتا ہوں وہ الیگزینڈر کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ کر دیکھیں انھیں الیگزینڈر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حضور پہاڑ کے سامنے کنکر دکھائی دے گا کیونکہ الیگزینڈر کی بنائی سلطنت اس کی وفات کے پانچ سال بعد ختم ہو گئی جب کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں جس جس خطے میں اسلام کا جھنڈا بھجوایا وہاں سے آج بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں آتی ہیں، وہاں آج بھی لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں، دنیا میں الیگزینڈر کا نام صرف کتابوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے جب کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بنائے نظام دنیا کے 245 ممالک میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں، آج بھی جب کسی ڈاک خانے سے کوئی خط نکلتا ہے‘پولیس کا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، کوئی فوجی جوان6 ماہ بعد چھٹی پر جاتا ہے یا پھر حکومت کسی بچے، معذور، بیوہ یا بے آسرا شخص کو وظیفہ دیتی ہے تو وہ معاشرہ، وہ سوسائٹی بے اختیار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو گریٹ تسلیم کرتی ہے، وہ انہیں تاریخ کا سب سے بڑا سکندر مان لیتی ہے ماسوائے ان مسلمانوں کے جو آج احساس کمتری کے شدید احساس میں کلمہ تک پڑھنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھتے ہیں۔

لاہور کے مسلمانوں نے ایک بار انگریز سرکار کو دھمکی دی تھی اگر ہم گھروں سے نکل پڑے تو تمہیں چنگیز خان یاد آ جائے گا اس پر جواہر لال نہرو نے مسکرا کر کہا تھا افسوس آج چنگیز خان کی دھمکی دینے والے مسلمان یہ بھول گئے ان کی تاریخ میں ایک عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی تھایہ سچ ہے کہ ہم آج تک یہ بھولے ہوئے ہیں کہ ہم میں ایک عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی تھے جن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا تھا ” میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے یہ مرتبہ تھا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا وہ عمر جن کا نام سن قیصر وکسری کی سلطنتیں لرجاتی تھیں جو کی خشک روٹی نمک ملے پانی میں بھگو کر کھاتے تھے۔

سیرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پرمولانا شبلی نعمانی کی کتاب”الفاروق“ مستند ترین مانی جاتی ہے اس میں انہوں نے بڑی تفصیل اور مستند ترین حوالوں کے ساتھ عہد فاروقی رضی اللہ عنہ کے واقعات لکھے ہیں مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بازار میں ایک بوڑھے ذمی (غیرمسلم شہری)کو بھیک مانگتے دیکھااس سے پوچھا کہ بھیک کیوں مانگ رہے ہو اس نے عرض کیا کہ جزیہ(ٹیکس) اداکرنے کے لیے تو آپ نے وہیں بیت المال کے سربراہ(وزیرخزانہ)کو طلب کرلیا اور پوچھا کہ ایسے نادار ذمیوں کی مدد کیسے کی جائے اللہ کی قسم یہ انصاف نہیں کہ ہم ان کی جوانیوں سے فائدہ اٹھائیں اور بڑھاپے میں ایسے حالات میں چھوڑدیں۔

انہوں نے عرض کیا امیرالمومنین بیت المال پر صرف مسلمانوں کا حق ہے آپ رضی اللہ عنہ نے کچھ دیر سوچ کر پوچھا ذمیوں سے جو جزیہ وصول کیا جاتا ہے اس کو کہاں خرچ کیا جاتا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ وہ بھی بیت المال جمع ہوتا ہے جس پر عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ جزیہ کا الگ اکاؤنٹ بنایا جائے اور اس سے ناداراور حاجت مند ذمیوں کی مدد کی جائے‘بڑھاپے میں پینشن ‘ اولڈ ایج بینفیٹ اور سوشل سیکورٹی کا نظام جہاں جہاں رائج ہے وہ ہمیں اس عظیم شخصیت کی یاد دلاتا ہے کہ جس کے بارے میں اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس راستے پر عمر ہو شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے۔

26 ذوالحجہ کو فجر کی نمازمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سجدے کی حالت میں تھے جب فارسی النسل مجوسی غلام ابوالولوفیروزنے خنجر سے حملہ کر کے ان کو زخمی کر دیاچار دن تک موت وحیات کی کشمش میں مبتلا رہنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ یکم محرم الحرام کو شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگئے فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں ابدی نیند سونے کا اعزاز بھی حاصل ہے‘آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔

آپ رضی اللہ عنہ کا نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے آپ رضی اللہ عنہ سے قبل40 مرد اور11 عورتیں نور ایمان سے منور ہوچکی تھیں‘آپ رضی اللہ عنہ ”عام الفیل“ کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال35 سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام ہمارے لئے ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے پس جب وہ اسلام لائے تو آپ نے مشرکین مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ (Ten blessed companions) میں شامل ہیں یعنی آپ ان دس خوش نصیب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م میں شامل ہیں جن کے بارے میں حضور سرور کائنات فخرموجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت عطافرمائی چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم پر ایک شخص داخل ہوگا وہ جنتی ہے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس ایک اور جنتی آنے والا ہے پس اس مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے (جامع ترمذی3694)آپ رضی اللہ عنہ شجاعت، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں یکتائے زمانہ افراد میں سے تھے آپ رضی اللہ عنہ ادبیات میں ذوق لطیف کے حامل اور شعر کے اعلیٰ نقاد تھے ابتداء میں بلیغ شعر کہتے مگر دینی خدمت نے اتنا غلبہ پالیا کہ اس ذوق کے اظہار کا موقع نہیں ملتا تھا۔

حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رضوان اللہ عنہ م) جن تک آئمہ فقہ کے سلاسل جاکر ملتے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کے تربیت یافتہ تھے آپ کے تفقہ کی صداقت کی گواہی اس مشہور واقعہ سے ملتی ہے کہ ایک یہودی اور منافق مسلمان میں کسی بارے میں تنازعہ ہوا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیصلہ کروایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیانات کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں دیا۔

وہ منافق مسلمان حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کہ آپ حمیت دینی میں اس کا ساتھ دیں گے مگر جب آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقدمہ کا فیصلہ فرماچکے ہیں اور اب منافق مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے تو تلوار اٹھا کر منافق کا سرقلم کردیا قرآن کریم نے سورہ نسآء میں اس فیصلہ کی توثیق کی اور مستقل طور پر یہ اصول طے پایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کو آخری حیثیت حاصل ہے اور جو اس فیصلہ کو درست تسلیم نہ کرے وہ مومن نہیں ہے۔

اسلام کی آمد سے قبل عرب میں لکھنے اور پڑھنے کا کوئی خاص رواج نہ تھا جب حضور نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف 17آدمی ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا چنانچہ امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرامین، آپ کے خطوط، آپ کے خطبات اور توقیعات، اب تک سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں جن سے آپ رضی اللہ عنہ کی قوت تحریر، برجستگی کلام اور زور تحرو تقریر کا ایک اندازہ ہوتا ہے چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (بصرہ کے گورنر) کے نام آپ کے ایک خط کے چند کلمات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں”اما بعد (اے ابوموسیٰ!) عمل کی مضبوطی یہ ہے کہ آج کا کام، کل پر نہ اٹھاکر رکھیں، اگر ایسا کرو گے تو تمہارے پاس بہت سارے کام اکٹھے جمع ہوجائیں گے اور تم پریشان ہوجاؤگے، پہلے کس کام کو کریں اور کس کام کو چھوڑ دیں اس طرح کچھ کام نہیں ہوسکے گا“ فصاحت و بلاغت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے بہت سے مقولے عربی ضرب المثل بن گئے، جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں اسی طرح آپ کو علم الانساب میں بھی ید طولیٰ اور کمال حاصل تھا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :