فلسفہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ

بدھ 26 اگست 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

تاریخ انسانی کی دو قربانیاں پوری تاریخ میں منفرد مقام اور نہایت عظمت و اہمیت کی حامل ہیں، ایک امام الانبیاء، سیّدالمرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰﷺ کے جداعلیٰ، حضرت ابراہیم علیہ اسلام و اسماعیل علیہ اسلام کی قربانی اور دوسری نواسہ رسولﷺ، جگر گوشہ علی و بتول رضوان اللہ وتعالی شہید کربلا حضرت امام حسن رضی اللہ وتعالی عنہ کی قربانی۔

دونوں قربانیوں کا پس منظر غیبی اشارہ اور ایک خواب تھا، دونوں نے سرتسلیم خم کیا اور یوں خواب کی تعبیر میں ایک عظیم قربانی وجود میں آئی حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے خواب کی تعبیر دس ذی الحجہ کو پوری ہوئی اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا خواب دس محرم 61ھ کو تعبیر آشنا ہوا، دونوں خوابوں کی تعبیر قربانی تھی، دس ذی الحجہ کو منیٰ میں یہ خواب اپنے ظاہر میں رونما ہوا اور دس محرم کو سرزمین کربلا پر اپنی باطنی حقیقت کے ساتھ جلوہ گر ہوا یوں باپ نے جس طرزِ قربانی کا آغاز کیا تھا، تسلیم و رضا اور صبر و وفا کے پیکر، فرزند نے پوری تابانیوں کے ساتھ اس عظیم سنّت کو مکمل کیا حضرت اسماعیل علیہ اسلام سے جس سنّت کی ابتدا ہیں سیّدنا حسین رضی اللہ وتعالی عنہ اس کی انتہا۔

(جاری ہے)

سیّدنا ابراہیم علیہ اسلام و اسماعیل علیہ اسلام اور حضرت حْسین رضی اللہ عنہ کی قربانیوں میں جذبہ عشق و محبت کارفرما تھا اسی لیے یہ قربانیاں آج تک زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گی نواسہ رسولﷺ، جگر گوشہ علی مرتضی و بتول رضوان اللہ عنہ‘ سیّد شباب اہل الجنّہ‘ریحان النّبیﷺ‘ شہید کربلا‘ سیّدنا حسین ابن ِ علی، ہاشمی و مطّلبی رضی اللہ وتعالی کی ذاتِ گرامی اسلامی تاریخ میں حق و صداقت‘ جرات و شجاعت‘ عزم و استقلال‘ ایمان و عمل‘ ایثار و قربانی، تسلیم و رضا‘ اطاعت ر بانی‘ عشق و وفا اور صبر و رضا کی وہ بے مثال داستان ہے، جو ایک منفرد مقام اور تاریخ ساز اہمیت کی حامل ہے۔

یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ حق اور باطل‘ اسلام اور کفرکی معرکہ آرائی روزِ اوّل سے جاری ہے اور روزِ آخر تک جاری رہے گی حق کی بقا‘ اسلام کی سربلندی اور دین کی بالادستی، قدرت کا اٹل اور ابدی فیصلہ ہے، جب کہ طاغوتی اور ابلیسی قوّتوں کی سرکوبی اور ان کا زوال آئین فطرت ۔ حق کی سربلندی اور دین کی عظمت و بقا کے لیے جدوجہد اور جہاد اسوہ پیمبریﷺ اور انسانی ضمیر کے زندہ ہونے کی علامت ہے سرکارِ دوجہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے”سلطانِ جائر(ظالم و جابر بادشاہ اوران اوصاف کے حامل حاکم وقت) کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا سب سے بڑا جہاد ہے“ جس کا عملی نمونہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذاتی گرامی ہیں۔

مستند تاریخی روایات کے مطابق رجب 60ھ/ 680 ء میں یزید نے اسلامی اقدار اور دین کی روح کے منافی ظلم و جبر اور استبداد پر مبنی اپنی حکومت کا اعلان کیا بالجبر عام مسلمانوں کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا گیا مدینہ منورہ میں ایک مختصر حکم نامہ ارسال کیا گیا، جس میں تحریر تھا”حسین رضی اللہ عنہ ‘ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا جائے‘ اس معاملے میں پوری سختی سے کام لیا جائے، یہاں تک کہ یہ لوگ بیعت کرلیں۔

اس سے قبل امیر شام کے حکم پر امیر المومنین ‘خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مقرر کرہ گورنر مصرحضرت خلیفہ الرسول ﷺابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزاے محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر شام کے دور میں اس طریقے سے شہید کیا گیا کہ کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا انہیں شہید کرکے جسد مبارک کے ٹکڑے کیئے گئے اور پھر گدھے کی لاش میں سی کر آگ لگادی گئی‘حضرت عبدالرحمان بن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو ”لاپتہ“کرکے شہید کیا گیا ان کا جسد مبارک ایک ویرانے سے ملا ظلم وجبر کا دور شروع ہوچکا تھا ۔

تمام مسالک آئیں اور ساری کتابوں کو ایک طرف رکھ کر مسلم و بخاری کو پڑھیں جن پر سارے متفق ہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے امام حافظ ابن حجر اور امام بخاری کے استاد اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں کہ  ”معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا صحابی ہونے کے علاوہ کوئی شرف ثابت نہیں جبکہ ان کے مقابلے میں امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں سینکڑوں احادیث موجود ہیں لہذا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے برابر رکھنا ظلم عظیم ہے“ (ابن اثیر/ الکامل 3/ 263) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کا خاندان فتح مکہ پر اسلام لانے والوں میں سے تھا جبکہ جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ د س سال کی عمر میں آپ ﷺ کے ساتھ تھے امیرالمومنین علی رضی اللہ وتعالی عنہ کے بارے میں نبی رحمت ﷺ نے فرمایا تھا”جس کا میں مولا اس کا علی مولا“ پھر ایک موقع پر فرمایا ”جس نے علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھے گا مگر مومن اور علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھے گا مگر کافر“ خلیفہ راشد امیر المومنین حضرت علی مرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ مشرکین مکہ کے مظالم سے لے سفر وحضرمیں اورتمام غزوات میں نبی رحمت ﷺ کے ساتھ رہے جبکہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور ان کا خاندان فتح مکہ کے بعد اس وقت ایمان لائے جبکہ مکہ والوں کے پاس کوئی اور چارہ نہیں بچا تھا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب تلوار یں گردنوں پر رکھ کر امیر معاویہ کی بیت لی جارہی تھی اور امیر شام نے اللہ کے گھر(کعبہ شریف)میں کھڑے ہوکر کہا تھا ”جس کے دماغ میں خلافت سوار ہے وہ جان لے کہ میں ان کے باپوں سے زیادہ اس کا حق دار ہوں (ان کا اشارہ حضرت ابوبکر‘عمر‘علی رضوان اللہ عنہ کے صاحبزادوں اور بزرگ صحابہ کی جانب تھا)جس پر فرزند ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عبدالرحمان بن ابو بکر رضی اللہ عنہ خاموش نہ رہ سکے اور فریا کہ ”تم وہی ہو جسے ہمارے بزرگوں نے مار مار کر اسلام میں داخل کیا تھا“ مولانا موددی کی ”خلافت اور ملوکیت “ہو یا مفتی اسحاق مدنی کے خطبات کسی میں جرات نہیں کہ ان کے احادیث کے حوالوں کو جھٹلا سکے‘مفتی اسحاق مدنی زندگی بھر احادیث کے دفتر کھول کھول کر بیان کرتے رہے مگر کسی کو جرات نہیں ہوئی ان کے رد کی مولانا مودودی نے ”خلافت وملوکیت“پر اعتراضات کے جواب میں مقدمہ لکھا جو آج تک ان کی کتاب کا حصہ ہے کسی کے پاس ان عملی دلائل اور احادیث نبویﷺ کے حوالوں کا جواب نہیں کیا نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں حضرت عمر‘علی‘عثمان رضوان اللہ تعالی کو شہادت کی بشارت نہیں دی تھی؟کیا آپ نے اپنے جگر گوشوں امام حسن و حسین رضوان اللہ وتعالی عنہ کی شہادت کی خبر نہیں دی تھی؟کیا آپ ﷺنے اسلا م کی پہلی شہید حضرت سمیع کے فرزند حضرت عمار بن یاسرکو یہ بشارت نہیں دی تھی کہ ”اے یاسر تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرئے گا“یہ حدیث مواتر ہے لہذا اسے رد کرنا کسی کے بس میں نہیں پہلی بار آپﷺ نے یاسر بن عمار کے بارے میں مسجد نبویﷺ کی تعمیر کے دوران فرمایا تھا ”اے عمار تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرئے گا اور پھر اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عمار لوگوں جنت کی طرف بلا رہا ہوگا اور جس طرف قاتل بلارہے ہونگے ادھر جہنم ہے“ پھر فرمایا”یاسر کا قاتل جہنمی ہے“ یہ وہ حدیث ہے جس کے روایوں میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ابوہرہیرہ ‘حضرت ابوسلمی رضی اللہ عنہ اور خود امیر معاویہ سمیت سینکڑوں جید صحابہ میں شامل ہیں۔

حضرت یاسر بن عمار کے بارے میں امام بخاری حدیث لاتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ”عمار سر کی چوٹی اور پاؤں تک ایمان سے بھرا ہے اور ایک اور حدیث امام بخاری کی ہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شیطان عمار بن یاسر کے پاس نہیں آئے گا“ کے اور جنگ صفین میں ایک لاکھ کا لشکر لے کر امیر معاویہ آگئے تو حضرت یاسر بن عمار رضی اللہ عنہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے نکلے تو امیر شام کے لشکر میں شامل کئی صحابہ‘تابعین اور کئی دیگر جو ان حدیث کے بارے میں جانتے تھے ان کے دل ڈولنے لگے (مسلم اور بخاری کے دفتر نہیں بھرے ان احادیث سے؟ )یسار ابن سبوع(ابوالغادیہ کنیت) نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جسے بنو امیہ کے دبار میں خصوصی پروٹوکول ان الفاظ میں دیا جاتا تھاکہ”قاتل عمار حاضر ہے“لہذا جو بنوامیہ کا نمک حلا ل کرنے کے لیے یہ کہتے ہیں کہ قاتل کا پتہ نہیں چلا کہ کس لشکر کا تھا وہ مکر وفریب سے کام لیتے ہیں بنو امیہ کی طرح اس کا نام ”مسند احمد “میں موجود ہے۔

آج بنوامیہ کا دفاع کرنے والے امام ابن قیمجو کہ اہل حدیث کا سب سے بڑا سہارا ہیں ان کی کتابیں پڑھ لیں کہ وہ کیا فرماتے ہیں اس مسلہ میں؟ یہ موضوع بہت وسیع ہے یہ کالم اس کی تفصیل کا متحمل نہیں ہوسکتا انشاء اللہ بشرط زندگی پھر کبھی اس کی تفصیلات لکھنے کی کوشش کرونگا۔
 بعد ازاں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ سرکارِ دوجہاںﷺ کے نورِ نظر، سیّدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اپنے جداعلیٰ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ اسلام اور اپنے نانا سیّد الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کی اتباع میں سلطانِ جائر‘ یزید کے خلاف جرات اظہار اور علم جہاد بلند کرتے ہوئے اسوہ پیمبریﷺ پر عمل پیرا ہوتے ہیں امت مسلمہ کو حق و صداقت اور دین پر مر مٹنے کا درس دیتے ہیں۔

خلق خدا کو اپنے ظالمانہ قوانین کا نشانہ بنانے والی اور محرّمات الٰہی کو توڑنے والی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ببانگ دہل فرماتے ہیں”لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم‘ محرّمات الٰہی کو حلال کرنے والے خدا کے عہد کو توڑنے والے خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاً و عملاً اسے بدلنے کی کوشش نہ کی، تو خدا کو حق ہے کہ اس شخص کو اس ظالم بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کردے آگاہ ہوجاؤان لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کرلی ہے‘ اور رحمان کی اطاعت چھوڑ دی ہے‘ ملک میں فساد پھیلایا ہے‘ حدود اللہ کو معطل کردیا ہے یہ مالِ غنیمت سے اپنا حصّہ زیادہ لیتے ہیں انہوں نے خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کردیا ہے اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کردیا ہے اس لیے مجھے اس کے بدلنے کا حق ہے“ ۔

(ابن اثیر / الکامل فی التّاریخ 4/ 40)
چنانچہ یہی وہ سب سے بڑا جہاد اور دینی فریضہ تھا، جس کی ادائیگی کے لیے نواسہ رسولﷺ‘ سیّدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ، اسوہ پیمبری کی پیروی میں وقت کے سلطانِ جائر‘ یزید کے خلاف ریگ زارِ کرب و بلا میں 72 نفوسِ قدسیہ کے ہمراہ وارد ہوئے اور حق و صداقت اور جرات و شجاعت کی وہ بے مثال تاریخ رقم کی‘ جس پر انسانیت ہمیشہ فخر کرتی رہے گی حق کے متوالے اور باطل اور ظالم و جابر قوّتوں کے خلاف صف آرا مردانِ حق اس راستے پر ہمیشہ چلتے رہیں گے شہدائے کربلا نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے جراتِ اظہار اور باطل کے خلاف احتجاج اور جہاد کا سلیقہ اور ولولہ عطا کیا سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کی صدائے حق نے مظلوم انسانیت کو ظالمانہ نظام کے خاتمے اور ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ اور حق نوائی کا درس دیا۔

حق کی آواز کو بلند کرنا‘ انسانی اقدار کا تحفّظ اور دین کی سربلندی، اسوہ پیمبری اور شیوہ شبّیری ہے شہدائے کربلا کا فلسفہ اور پیغام یہی ہے کہ حق کی سربلندی اور باطل کی سرکوبی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے شہیدِ کربلا نواسہ رسولﷺ‘حضرت امام حسین رضی اللہ وتعالی عنہ کی یہی وہ عظیم قربانی اور کعبہ اللہ کی عظمت و حْرمت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے کا عظیم جذبہ اور داستانِ حرم ہے‘ جس کے متعلق شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا :
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین رضی اللہ عنہ ، ابتدا ہے اسماعیل

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :