متفرقات

جمعہ 24 ستمبر 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

حاضری کچھ زیادہ طویل ہوچلی تھی لہذا آج کا ”بنیادی ہدف“ کئی دنوں سے ادھوری اس تحریر کو مکمل کرنا رکھا ایک حادثے سے دائیں کندھے اور ہاتھ سمیت جسم کے کچھ عضو متاثر ہوئے لہذا لکھنے سے قاصر ہوگیا اس دوران یو م آزادی ‘اردوپوائنٹ کی سالگرہ ‘مینار پاکستان واقعہ ‘افغانستان سمیت بہت سارے ایشوز آئے مگر نہ چاہتے ہوئے بھی ان پر قلم نہ اٹھا سکا- اب ڈاکٹروں کے پاس دردکش دواؤں کے علاوہ کچھ ہے نہیں لہذا انتظارکے علاوہ کچھ چارہ نہیں تھا احباب کی محبتیں اور دعائیں کہ کچھ ہاتھ ‘پیر ہلانے کے قابل ہوا ہوں مگر ہاتھ کندھے اور ہاتھ کے درد کی وجہ سے یہ مضمون بھی کئی نشستوں میں مکمل کرسکا ہوں - سب سے پہلے اردو پوائنٹ کی سالگرہ کا تذکرہ کہ سب رب کائنات کی رحمتیں اور فضل وکرم ہے کہ2021میں ”اردوپوائنٹ“کئی نئے سنگ میل عبور کرچکا ہے برادرم علی چوہدری اور اردوپوائنٹ کی پوری ٹیم یقینی طور پر مبارکباد کی مستحق ہے ادارے کے مدیر اعلی کی حیثیت سے میں اردوپوائنٹ سے محبت کرنے والے دنیا بھر میں پھیلے قارئین کا شکریہ اداکرتا ہوں کہ آپ کی محبتوں سے ہی یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے- پچھلے سال کے دوران بھی کئی امتحان آئے مگر”اردوپوائنٹ“حسب سابق ثابت قدم رہا اگرچہ ہر آنے والا دن سخت سے سخت ترین ہے تاہم ہماری کوشش ہے کہ سچ ہمارے قارئین تک پہنچے کیونکہ انفارمیشن کے سیلاب میں سے سچائی کو ڈھونڈنا بھوسے کے ڈھیرمیں سے سوئی ڈھونڈنے جتنا ہی مشکل ہوچکا ہے- ا نفارمیشن بلکہ ڈس انفارمیشن کا یہ سیلاب بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے ایک زمانے میں نیوزروم کو ”وارزون“کہا جاتا تھا جہاں ہر وقت ایک افراتفری مچی ہوتی تھی کہ چند خبررساں اداروں اور ریڈیوسے آنے والی انفارمیشن میں سے سچائی پر مبنی خبروں کی چھانٹی خاصا محنت طلب کام ہوتا تھا یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی تک سوشل میڈیا یا ٹیلی ویژن چینلوں کی بھرمار نہیں ہوئی تھی مگر جتنی تبدیلیاں پچھلے بیس سالوں میں آئی ہیں انہوں نے صحافت کو یکسربدل کررکھ دیا ہے -ساری مشکلات کے باوجود ”اردوپوائنٹ” کی ٹیم کی برادرم علی چوہدری کی سربراہی میں سچائی کی تلاش کے لیے دن رات سرگرم عمل رہتی ہے کہ صحافت کی ضروریات اور اندازیکسربدل چکے ہیں اگرچہ ہم جیسے ”بڈھے“خود کو مس فٹ سمجھتے ہیں مگر یہ علی چوہدری کی ہی حوصلہ افزائی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کی رفتار کے مطابق آگے بڑھنے کی جہد مسلسل میں سرگرداں رہتے ہیں - اصل میں جنریشنل گیپ کا مسلہ ہر ددور میں رہا ہے مگر ٹیکنالوجی نے جس برق رفتاری سے معاشروں اور انسانی زندگی کو بدلا ہے اس نے جنریشنل گیپ صدیوں جیسا طویل کردیا کہ توازن قائم کرنے کی تمام تر کوششیں بے سود نظرآتی ہیں ہم درمیان میں جھولنے والی نسل کے نمائندے ہیں ہم نے 30سال پہلے کا وہ دور بھی دیکھا ہے جب ریڈیو اور پی ٹی وی ‘فیکس مشین اور ٹیلی پرنٹرزکو ٹیکنالوجی کی معراج مانا جاتا تھا پچاس سال کی عمر تک کے کروڑوں لوگ ہونگے جنہیں پاکستان ٹیلی ویژن کی تین سے چار گھنٹے صبح اور تقریبا اتنا ہی وقت شام کی نشریات یاد ہونگی خیر وہ زمانے گزرگئے آج نہ جوانی کے وہ دن رہے نہ وہ مزے کی صحافت اب نیوزروم کی افراتفری کا ماحول پورے جرنلزم پر چھایا محسوس ہوتا ہے میری بات کا بخوبی اندازہ صرف وہی احباب لگا سکتے ہیں جو ہمارے ہم عصر ہیں آج کے بچوں کے لیے اس ”عیاشی“کا تصور ممکن نہیں -امیر مینائی نے کیا خوب کہا تھا
امیرجمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے
پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے
توہم بھی اس بزم میں حال دل ہی سنانے آتے ہیں کہ اب چراغ نیم شب ہیں ہمارے ساتھی جارہے ہیں نجانے کس دن ہمارا بلاوا آجائے بات کہاں سے کہاں جاپہنچی ”جنریشنل گیپ“ایک وسیع موضوع ہے لہذا اس پر تفصیل سے بحث کسی اور مضمون کے لیے اٹھا رکھتے ہیں یہ مضمون اس سے زیادہ افسردگی کا متحمل نہیں ہوسکتا اور پھر کچھ ناں کچھ بات دوسرے موضوعات پر بھی کرنا ہے -اسی دوران ایک طرف امریکا بہادر نے جس اندازمیں کابل چھوڑا اس پر چھ مضامین پر مشتمل ایک سیریزحال ہی میں لکھ چکا ہوں مگر یہ سب اتنی جلدی ہوگا اس کا یقین خود امریکیوں کو نہیں آرہا تو ہم کون ہیں ہیں جی! بطور صحافی ہم تجربات‘مشاہدات اور معلومات کی بنا پر ایک خاکہ کھینچتے ہیں لازم نہیں ہوتا کہ سب کچھ بالکل اس کے مطابق ہو جیسا کہ لکھا جاچکا ہے ایسا دعوی تو سکہ بند علم نجوم کے ماہربھی نہیں کرسکتے ہم کس کھیت کی مولی ہیں اور ہمیں اپنی کم علمی کا بھی اعتراف ہے -دوحہ مذکرات کے دورا ن سوچا ہمیں قطرہونا چاہیے تھا مگر حالات سازگار نظرناں آئے اب بات کابل تک پہنچ گئی ہے مگر ہمارے حالات ہیں کہ”سازگار“ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے اس شخص کی طرح جو نجومی کے پاس گیا تو زائچہ کھینچنے کے بعد نجومی نے پیشن گوئی کی کہ چند سال تمہارے حالات سازگار ہوتے نظرنہیں آرہے اس کے بعد ؟سائل نے پریشانی میں نجومی سے پوچھا تو نجومی نے کہا اس کے بعد تم اس کے عادی ہوجاؤ گے خیر ہم ابھی تک ”عادی“تو نہیں ہوئے مگر حالات بھی سازگار نظرنہیں آرہے لہذا لگتا ہے نجومی کی بات ماننا ہی پڑے گی-تو ”انکل سام“بڑے بے آبرو ہوکرتیرے کوچے سے ہم نکلے کے مصداق افغانستان سے جاچکا ہے اور اب چاک قبا کو رفو کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے ادھر ”شریکا“ہے کہ اس کے سینے پر مونگ دل رہا ہے روزکبھی چین تو کبھی روس کی جانب سے اب اتحادی فرانس کی منتیں ترلے کیئے جارہے ہیں کہ وہ غصہ تھوک دے مگر فرانس ہے کہ بپھرے ہوئے سانڈھ کی طرح پھنکاریں مار رہا ہے پیرس کی جانب سے آسٹریلیا کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اربوں ڈالر کے بل کا انتظام رکھے اسے آبدوزوں کا بل بجھوایا جارہا ہے کیونکہ آسٹریلیا نے سودا فرانس سے کرکے اسے یکطرفہ طور پر منسوخ کرکے امریکا سے آبدوزیں خریدنے کا معاہدہ تو کرلیا ہے مگر پورے یورپ کو واشنگٹن نے اپنا مخالف بنا لیا ہے اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا- ابھی اتنا ہی باقی زندگی رہی تو پھر سہی ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :