تبدیلی اسے کہتے ہیں

جمعہ 27 مارچ 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 آج سے پندرہ صدیاں قبل جب یثرب‘ مدینہ بنا تو دنیا میں انقلاب آگیا‘ پھر حکم ہوا کہ اگر فاطمہ بن محمدﷺ بھی ہو تو اسے بھی جرم کی وہی سزا ملے گی جو کسی دوسری فاطمہ کو مل رہی ہے‘ یہ کوئی تخیلاتی کہانی نہیں ہے‘ حقائق ہیں‘ تاریخ کے سنہرے باب ہیں‘ آج ہمارے وزیر اعظم ان دنوں چڑ کر کہہ رہے ہیں کہ ریاست مدینہ کوئی ایک دوسال میں نہیں بن گئی تھی‘ جناب ریاست مدینہ اسی وقت بن گئی تھی جب قدم مبارک اس سرزمین پر رکھ دیے گئے‘ جہاں کسوی بیٹھی وہیں مسجد بنائی گئی‘ اور تعمیر سے پہلے اس اراضی کی قیمت ادا کی گئی‘ یہی ریاست مدینہ کا آغاز تھا‘ جناب‘ کچھ پڑھیے ریاست مدینہ کے بارے میں‘ پھر دعوی کیا جائے ریاست مدینہ میں جن اصلوں کو متعارف کرایا گیا ان میں عدل‘ انصاف سب سے اہم تھا‘ اور ریاست مدینہ کی قیادت میں جرائت‘ ایمان داری‘ دیانت داری کا اظہار ریاست بنانے سے قبل ہی تھا اسی لیے تو امانتیں‘ سپرد کرنے کی ذمہ داری جناب حضرت علی حیدر کرار رضی اللہ تعالی کو دی گئی‘ اور پختہ ایمان اس قدر کہ جب گھر سے نکلے تو صرف یہی کلمہ زبان پر تھا کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

(جاری ہے)


ریاست مدینہ میں حکم تھا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘ آج کیا ہو رہا ہے‘ ذرا مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی اشیاء دیکھ لیں‘ دودھ کا جائزہ لیں‘ ادویات کا حال دیکھیں‘ سی ڈی اے‘ ایل ڈی اے‘ کے ڈی اے سمیت شہر کے ہر ترقیاتی ادارے کا حال دیکھ لیں… لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں‘ اسلام آباد میں بیس بیس تیس تیس سال ہوچکے ہیں‘ ایک نسل گزر گئی ہے مگر پلاٹوں کا قبضہ نہیں ملا‘ لوگوں نے دھوکے میں آکر تبدیلی کے لیے ووٹ دیا… 
سوال یہ ہے کہ ووٹ دیا بھی تھا یا نہیں‘ بہر حال یہ بات یہی چھوڑ دیتے ہیں کہ اصل بات کرتے ہوئے پر جلتے ہیں… بہر حال لوگوں کی امیدیں بر نہیں آئیں‘ مہنگائی نے ناک میں دم کر کھا ہے بجٹ ہر سال آتا ہے‘ اس سال بھی آئے گا‘ اسمبلی میں اپوزیشن شور شرابہ کرے گی اور بجٹ اس کے باوجود پاس ہوجائے گا کہ روائت یہی ہے بجٹ پاس ہوجانے کے بعد سارا سال وہی بات زیر بحث رہے گی کہ جو فیصلے ہوئے تھے ان پر عمل درآمد نہیں ہوا‘ اس سال بھی بجٹ آئے گا تو یہی ہوگا‘ یقیناً حکومت اور ایف بی آر سے بات چیت بھی ہوگی‘ مذاکرات بھی ہوں گے تجاویز دی جائیں گی‘ ان تجاویز پر واہ واہ بھی ہوگی‘ لیکن سوال پھر وہی رہے گا کہ فیصلوں پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا۔

پشاور‘ کوئٹہ‘ لاہور اور کراچی والے کہتے ہیں کہ انہیں ان کا حق نہیں ملا‘ اسلام آباد والے رو رہے ہیں کہ شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا‘ یہاں جس کا جو جی میں آئے کرتا چلا جارہاہے‘ اس شہر کے لیے ماسٹر پلان بنا تھا‘ نہ جانے وہ پلان اب کس کباڑ خانے میں پڑا‘ بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی تنظیم ہو یا کسی قومی الیکشن کی بات ہو‘ جس کو بھی یہ سمجھ کر ووٹ دیا کہ وہ ضرور کچھ کرے گا مگر اس نے کچھ نہیں کیا‘ ملک کی ہر سیاسی جماعت یہ چاہتی ہے کہ اسے بار بار باری ملتی رہے‘ اسی طرح ہر تنظیم میں عہدیدار یہی کہتا ہے کہ صرف اسے ہی ہی نجات دھندہ تصور کیا جائے اور بار بار منتخب کیا جائے چاہے تنظیم کا دستور کچھ بھی کہہ رہا ہو‘… ہر کوئی ووٹ مانگتا ہے لیکن کوئی کچھ کرکے کے دکھانے کو تیار نہیں‘ ہمیں بطور شہری اپنا ملک سجانا چاہیے‘ بطور مسلمان صرف رمضان میں ہی نہیں بلکہ سارا سال ہمیں اپنی مساجد آباد کرنی چاہیے‘ انتہاء پسندی کے رحجان کو ختم کرکے ہمیں بطور انسان‘ دوسروں کی فلاح کے لیے سوچنا چاہیے‘ اپنے ہمسایے کے لیے سوچنا چاہیے‘ لیکن ہم ہیں کہ یہی کہتے اور سمجھتے ہیں کہ اپنا پیٹ بھر لو‘ دوسرا کیوں بھرے کراچی والوں کا دعوی ہے کہ صرف وہ ہی ریونیو دے رہے ہیں تو ملک چل رہا ہے نہیں جناب ایسا نہیں ہے‘ کوئی صرف اپنے شہر کا نہ سوچے بلکہ سب کے لیے سوچے گا تو بات بنے گی…… صرف اپنے شہر کی بات کرنے والے یہ بھی سوچیں کہ صنعتوں کے لیے پانی ‘گیس بجلی اور ساز گار ماحول کی عدم فراہمی ہر صنعتی شہر کا مسئلہ ہے… 
کسی کو معلوم ہی نہیں کہ اسلام آباد میں پینے کے پانی کا کس قدر گہرا اور گھمبیر بحران سر اٹھائے کھڑا ہے‘ یہاں تیزی سے گھاس کی طرح اونچی عمارتیں سر اٹھا رہی ہیں‘ اسلام آباد کے نواح میں کیوں یہ کام نہیں کیا جاتا‘ جو بھی آتا ہے کہتا ہے کہ کہ بس اسی کی بات مانی جائے اگر یہی حالات رہے تو دس سال کے بعد یہاں اس شہر میں تازہ ہوا تک نہیں ملے گی اور اسلام آباد میں پانی پیٹرول سے مہنگا ملے گا… اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے کسی کو معلوم نہیں ہے‘ یہاں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے‘ راہ زنی بڑھ رہی ہے‘ چوریاں بڑھ رہی ہیں‘ یہ شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے۔

اس شہر کا کوئی والی وارث نہیں حتیٰ کہ لوگ مایوس ہو نے لگے ہیں ہر شہر پیکج مانگتا ہے‘ مگر قسم ہے کبھی اسلام آباد کو پیکج ملا ہو…… بس یہاں لوگوں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے‘ چیمبرآف کا مرس اینڈ انڈسٹری ہو یا کوئی ایسو سی ایشن‘ سب کے اپنے مطالبات ہیں‘ اس شہر میں صارفین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے‘ صارف پیسے اصل دیتا ہے اسے دودھ سمیت کھانے پینے کی اشیاء یہاں ہر چیز ناقص ملتی ہے‘ شہر میں مارکیٹیں موجود ہیں اس کے باوجود ہر سیکٹر میں پھیری والے آتے ہیں اور ناقص مال بیچ کر چلے جاتے ہیں‘ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے صرف ایک گزارش ہے کہ حکومت توجہ دے‘ شہر میں امن وامان،سیوریج کے مسائل، تمام تجارتی مارکیٹوں کے خستہ حال انفرااسٹرکچر پر توجہ دے اور، تجاوزات کے خلاف مہم چلائی جائے‘ اب تو فٹ پاتھ پر بھی چلنے کو جگہ نہیں مل رہی‘ یہاں بھی موٹر سائکلسٹ دندناتے رہتے ہیں‘ رہی سہی کسر تجاوزات نے پوری کردی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :