الواداع‘ جناب منور حسن‘ نفس مطمئن

جمعہ 26 جون 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 اللہ رب العالمین نے قرآن مجید‘ فرقان حمید میں جن عباد الرحمن کی نشانیاں بیان کی ہیں‘ قبلہ منور حسن‘ ان نشانیوں کی تلاش میں صدق دل سے اپنی شعوری زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کرکے اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہوگئے ہیں‘ اللہ تعالی ان کے ہر احسن عمل کے بدلے انہیں بے شمار رحمتیں عطاء کرے‘ اور حقوق العباد کا معاملہ چونکہ بندے کا بندے کے ساتھ ہے‘ کامل یقین ہے ان کے تمام عزیز‘ دوست‘ احباب اور وہ تمام لوگ ان کے حلقہ احباب میں رہے وہ سب انہیں دنیا سے عزت‘ احترام کے ساتھ رخصت کرنا خود اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں‘ سید منور حسن کا اعزاز ہے انہیں سید مودودی جیسے کامل ولی کو دیکھنے‘ ملنے‘ اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا‘ سید مودودی کا جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے صرف یہی پیغام تھا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنا‘ اس جدوجہد میں وہ لوگوں کا عملی ساتھ چاہتے تھے اور جو ساتھ نہ دے اس کے لیے یہی الفاظ تھے کہ وہ اللہ کے ہاں اپنا جواب سوچ لیں‘ جب انسان یہ کلمہ ادا کرے کہ الحمد اللہ رب العامین تو وہ اس کے بعد دنیا کے جہاں کے مال و متاع سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور پھر وہ سیاسی‘ معاشی‘ سماجی نظام میں کسی کو اپنا رب اور الہ نہیں مانتا ‘ زندگی بھر ہر کام کے لیے اس کی رائے” مالک یوم الدین“ کے حصار میں رہتی ہے بس پھر وہ صراط مستقیم کی پک ڈنڈی پر چلتا رہتا ہے اور آخر ایک روز وہ یہ اعزاز پالیتا ہے کہ کہ اللہ اسے ان لوگوں میں شامل کرلیتا ہے جن پر اس کا انعام ہوتا ہے… جناب قبلہ سید منور حسن نے جس طرح زندگی گزاری‘ اور جس جرائت کے ساتھ جیئے‘ یہ ان پر اللہ کے کرم کی زندہ مثال ہے‘ وہ سوائے اللہ کے‘ کسی کو جواب دہ نہیں تھے‘ تنظیم میں رہتے ہوئے اطاعت امر کی عمدہ مثال تھے‘ لوگ ڈرتے ہیں سوال کرنے سے مگر‘ جہاں سوال کرنا ضروری سمجھا وہ انہوں نے ڈٹ کر سوال کیا‘ اور پوری جرائت سے کہا کہ بیلنس شیٹ دکھاؤ‘ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں اسامہ بن لادن کو شہید قراردیا مگر چند لمحوں کے بعد ترجمان میدان میں اتر آئے کہ زبان پھسل گئی ہے‘ جناب سید منور حسن نے بھی اسامہ بن لادن کو شہید قرار دیا تھا‘ اور وہ اپنی بات پر قائم رہے‘ انہیں علم ہوتا تھا کہ وہ کیا بات کہہ رہے ہیں‘ لفظوں کا چناؤ بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے‘ تربیت گاہ ہو یا‘ عوامی جلسہ‘ انتخابی مہم ہو یا سیاسی تحریک‘ اہل پاکستان کو سید منور حسن جیسا مقرر اب نہیں ملے گا‘ وہ اپنی بات جڑ سے شروع کرتے اور کونپل تک پہنچادیتے‘ احد کی داستان چھیٹرتے ہوئے صلح حدیبیہ اور ریاست مدینہ کاسارا نقشہ ہی بیان کردیتے‘ ان کی گفتگو تھی کہ قوس و قزاح‘ جہاں لفظوں کے رنگ ہی رنگ تھے‘ وہ بلا کے مقرر اور اپنے نظریات سے مخلص انقلابی رہنماء تھے‘ مصلحت پسندی انہیں چھوکر بھی گزری‘ ہر معاملے میں بہت کلیئر رائے رکھتے تھے‘ وہ صادق امین دیکھنے کے لیے دستور پاکستان اور سپریم کورٹ کی گواہی کے محتاج نہیں تھے بلکہ وہ صادق امین کو مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں تلاش کرتے تھے انہیں ان کے معیار کا صادق اور امین بدر میں ملتا ہے‘ احد میں ملتا‘ غزوہ خندق میں اس سے ملاقات ہوتی‘ قبلہ منور حسن ایک سچے کھرے مسلمان‘ اور پاکستانی تھے وہ اعمال صالح اوراپنے لواحقین کے علاوہ احباب کے دعاؤں کا قیمتی اثاثہ لے کر اللہ کے حضور پیش ہوئے ہیں‘ محترمہ سیدہ عائشہ منور صاحبہ‘ اور ان کے بیٹی‘ اور بیٹے‘ بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ انہیں منور حسن جیسا شوہر اور باپ ملا‘ وہ اپنی صاحب زادی سے بہت ہی پیار کرتے تھے‘ ان کے اہل خانہ سب یہی گواہی دیں گے کہ وہ بہت ہی بااخلاق تھے‘ پوری زندگی اقامت دین کی جہدوجہد میں گزاری تحریک اسلامی بلکہ پوری دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لیے مصروف تحریکوں کے لیے راہ نما تھے جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کی ذمہ داری مارچ 2009 میں سنبھالی تھیں جس کے بعد وہ مارچ 2014 تک جماعت اسلامی کے امیر رہے تھے جماعت اسلامی کے رکن ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی فلاح وبہبود کے لئے خوب کام کیا ہے جس کا اندازہ ہر اس انسان کو آج بھی ہے جنہوں نے انہیں کام کرتے دیکھا ہے یا ان کے بارے میں پڑھا ہے ان کا شمار جماعت اسلامی کے ان ارکان میں ہوتا ہے جنہیں شاید کبھی بھولا نہیں جا سکتا ان کا طرز گفتگو ان کی پہچان تھا5 اگست 1941 کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے تقسیم ہند کے وقت، وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آئے اور پھر کراچی میں قیام پزیر ہوئے 1963 میں سوشیالوجی میں ماسٹر ڈگری حاصل کی، اور 1966 میں جامعہ کراچی سے اسلامک اسٹڈیز میں ڈگری حاصل کی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے بیزاری انہیں اسلامی جمعیت طلبہ میں لے آئی 1963 میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی اور بعد میں اسلامک یروشلم اسٹڈیز میں شمولیت اختیار کی وہ 1969 میں اس کے سکرٹری جنرل بن گئے۔

(جاری ہے)

ان کی نگرانی میں اکیڈمی نے 70 علمی کتابیں شائع کیں‘ انہوں نے دی کسوٹی اینڈ دی یونیورسل میسج، کراچی کے منیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں 1967 میں جماعت اسلامی پاکستان کے رکن بنے 1977 میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب کیا اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ 1992-93 میں وہ جماعت اسلامی پاکستان کے اسسٹنٹ سکرٹری جنرل رہے اور 1993 میں سیکرٹری جنرل بنے وہ اپنے معمولی طرز زندگی کے لئے مشہور تھے دوسری جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے ایک نظریہ پسند کی حیثیت رکھتے تھے جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد ادارہ معارف اسلامی سے وابستہ تھے‘ حق مغفرت کرے عجب آزاد آدمی تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :