حافظ سلمان بٹ

ہفتہ 30 جنوری 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 کافی دیر تک سوچتا رہا کہ حافظ صاحب پر کیا لکھوں؟ پہلی بار جب وہ قومی اسمبلی کے لیے امیدوار بنے تو ان کے انتخابی پوسٹر پر ایک شعر لکھا گیا تھا
 وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
 شباب جس کا ہو بے داغ اور ضرب ہو کاری
 غالبا یہ شعر قبلہ حافظ صاحب کے لیے ہی کہا گیا تھا
 بے داغ شباب اور کاری ضرب کے ساتھ ہی انہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے یہ پہلا سیاسی معرکہ سر کیا تھا، اور ساری عمر انہوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیاجس سے ان کے نیک نام والد گرامی خواجہ طفیل کے نام آتا، ابھی کل کی بات لگتی ہے جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی، اس وقت وہ اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کے ناظم تھے، بہت ہی دبنگ، جوان اور جرائت مند وجہیہ شخصیت تھے، سادہ اس قدر کہ شاید ہی کوئی ایسا ہو، جن سسے بھی ملاقات ہوتی اسے پہلی ملاقات میں ہی اپنا گرویدہ بنالیتے، ان کی عادت تھی جس سے بھی ملتے، اس کی کسی نہ کسی اچھی عادت کی ضرورتعریف کرتے، ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملتے، ان کا مسکراتا ہو چہرہ آج بھی نظروں میں بسیرا کیے ہوئے ہے،1985 میں قومی اسمبلی کے لیے اپنے پہلے انتخاب میں لاہور کی نامی گرامی شخصیت شاعر مشرق علامہ اقبال کے داماد صلاح الدین (میاں صلی) کے مقابلے میں میدان میں اترے، غیر جماعتی انتخابات میں یہ لاہور نہائت دلچسپ سیاسی انتخابی مقابلہ تھا، لاہور میں میاں صلی کا ایک نام تھا، لوگ ان سے ڈرتے تھے، خوف اور دھشت بھی تھی مگر حافظ سلمان بٹ نے یہ انتخاب جیتا کہ آخری جلسہ میاں صلی کے گھرکے سامنے کیا،2002 میں جنرل مشرف کی بنائی ہوئی کنگ پارٹی مسلم لیگ(ق) کے صدر اور اس وقت کے وزارت عظمی کے متوقع امیدوار میاں اظہر کو ہرا کر دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، اسلامی جمیعت طلبہ کی جانب سے انہیں پنجاب یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے انتخاب میں سیکرٹری کے عہدے کے لیے امیدوار بنایا گیا، نوید چوہدری( پیپلزپارٹی کے رہنماء) ان کے مقابلے میں امیدوارتھے، یونیورسٹی کی تاریخ میں یہ بھی ایک بڑا انتخابی معرکہ تھا، بلاشبہ واقعی ایک تاریخی معرکہ تھا، یونیورسٹی کی فضا سخت کشیدہ تھی، مخالفین نے اپنے لیے طلبہ سے صرف ایک ووٹ مانگا، کہ نوید چوہدری کو ووٹ دیا جائے، اسلامی جمعیت طلبہ کا پورا پینل جیتا مگر حافظ صاحب کو اس معرکے میں شکست ہوئی، لیکن حافظ صاحب کی شخصیت ایسی، ہمت اور جرائت ایسی کہ مخالفین کو اپنی کامیابی کا یقین ہی تھا، قبلہ حافظ صاحب لاہور کی شان اور پہچان تھے، ان کے والد گرامی خواجہ طفیل، نہائت ایمان دار پولیس آفیسر تھے، انہوں نے بھٹو سے کئی بار ٹکر لی، جب تک پولیس میں رہے، جہاں بھی رہے، دیانت داری کا تمغہ ان کے سینے پر سجا رہا، حلال روزی کھلا کر انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش کی تھی اور یہی وجہ تھی کہ حافظ سلمان بٹ بے خوف اورجرائت مند نوجوان تھے، پڑھائی میں وہ واجبی سی دلچسپی رکھتے تھے مگر فٹ بال سے انہیں عشق تھا، لاہور سمیت ملک میں فٹ بال کے میدان میں ان کے تیار کردہ کھلاڑیوں کی تعداد ہزاروں میں ہوسکتی ہے، تعلیم سے فارغ ہوئے تو انہیں عباس باوزیر کی جگہ ریلوے میں پریم یونین میں کام کرنے کیے بھیجا گیا، جہاں خوب کام کیا، کئی برس قبل وہ ذیابیطس کے مرض کا شکار ہوئے،2002 کے عام انتخابات میں بھی وہ اسی مرض میں مبتلا تھے، اس کے باوجود ان کی آواز میں گھن گرج تھی، لاہور میں شریف فیملی کے لیے وہ ہمیشہ چیلنج رہے، اور شریف فیملی بھی ان سے خوف ذدہ رہی، حافظ صاحب کے انتقال کے بعد اب لاہور اور ملک کا مزدورطبقہ ایک جرائت مند رہنماء اور دل موہ لینے والے بے مثال مقرر سے بھی محروم ہوگیا ہے، ابھی ان کی عمر ہی کیا تھا، پینسٹھ برس، ہمارے ارد گرد بے شمار ایسے لوگ ہیں جو اسی عمر میں ابھی جوان لگتے ہیں، اللہ ان سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، ذیابیطس بہت ہی خطر ناک مرض ہے، یہ اندر ہی اندر انسان کو کھا جاتا ہے، اس کی وجہ جو بھی ہے، مگر ہمارے ملک میں آلودہ ماحول بھی امراض پیدا کرنے میں مدد گار بنا ہوا ہے، لاہور، فیصل آباد اور، کراچی اور تمام صنعتی شہر خشک سالی کے باعث دھند اور فضائی آلودگی کی وجہ سے سموگ کا شکار بنے ہوئے ہیں،موسم سرما میں فضا میں موجود نمی کے ساتھ جب آلودہ ذرات اور زہریلی گیسیں مل جائیں تو سموگ بنتی ہے۔

(جاری ہے)

اور ہر سو پھیلا یہ زہریلا دھواں اس خطرے کی گھنٹی ہے بلاشبہ ملک کے شہروں کی فضاء خطرناک حد تک آلودہ ہو چکی ہے آلودہ پانی اور آلودہ ہواانسانی زندگیوں کو کھا رہی ہے دور جدید میں انسان نے نت نئی سہولیات سے ہر شعبہ میں ترقی تو بڑے ٹھاٹ سے کر لی اور زندگی کو آسان بنا لیا، مگر قدرتی ماحول کو تباہ کر دیا ہے جس سے مہلک بیماریاں بڑھ رہی ہیں امریکی واچ ڈاگ کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے باعث سالانہ 70لاکھ افراد کی اموات ہوجاتی ہے، دنیا کی91فیصد آبادی ایسے مقامات پر رہتی ہے جہاں کا فضائی معیار عالمی ادارہ صحت کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق نہیں، ہر 10میں سے 9افراد آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں۔

قدرت نے اس دنیا میں انسانی بقاء کیلئے زبردست توازن رکھا تھا مگر انسان نے اپنے اردگرد کے ماحول پر یلغار کر کے اس توازن کوخراب کرکے اپنے لیے مسائل کے انبار لگا لیے ہیں، اسی موضوع پرجرمن واچ تھنک ٹینک کی سالانہ رپورٹ میں کہیں بڑے خطرے کی نشان دہی کی گئی ہے ”گلوبل کلائیمٹ رِسک انڈیکس“ کی مطابق پاکستان دنیا کے اْن 10 ممالک میں پانچویں نمبرپر ہے جنہیں اس وقت سخت ماحولیاتی تباہی کا سامنا ہے، پاکستان میں ماحولیاتی تباہی کی سب سے بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے ،امریکی ادارے ”ایئر کوالٹی انڈیکس“ کی نومبر 2020 رپورٹ میں فضائی لحاظ سے لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا لاہورکی فضا میں آلودہ ذرات کی مقدار 368 پرٹیکولیٹ میٹرز تک جا پہنچی ہے جس سے شہریوں کو سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا ہے اسی رپورٹ میں کراچی بھی دنیا کے بڑے آلودہ شہروں میں تیسرے نمبر پر تھا دیگر شہروں فیصل آباد، گوجرانوالہ، راولپنڈی، ملتان اور پشاور کے بعد اب اسلام آباد بھی بڑھتی ہوئی ٹریفک کے باعث اس کا شکارہے ایئر کوالٹی اینڈکس کی رپورٹ 2019 ء کے مطابق فضائی آلودگی کی بڑھتی سطح پاکستانیوں کی صحت کو کمزور بنا رہی ہے جس سے اوسط متوقع زندگی میں 7.2 سال تک کمی واقع ہوئی ہے ماہرین کہتے ہیں کہ طویل عرصے تک فضائی آلودگی سے متاثر رہنے کی صورت میں لوگوں کی ذہنی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور دماغی امراض بڑھتے ہیں جس میں میں دمہ، ٹی بی اور الرجی کے امراض عام ہو رہے ہیں مصنوعی کھادوں اور ادویات کے بڑھتے ہوئے استعمال سے زیرِ زمین پانی میں کیمیائی مادوں کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے آبی آلودگی کی وجہ سے گندے پانی کے استعمال سے معدے اور جگر کی بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ اور کینسر جیسے امراض بھی جنم لے سکتے ہیں، قبلہ حافظ صاحب لاہور کے باسی تھے اور مزدور رہنماء بھی تھے، ہمارے ملک کامزدور اور ہمارے شہری جس ماحول میں رہ رہے ہیں کہ یہ ہر حکومتکے لیے بہت بڑا سوال ہے، تحریک انصاف نے دعوی کیا تھا کہ ایک ارب درخت لگائے ہیں، یہ دعوی اب سپریم کورٹ میں کٹہرے میں کھڑا ہے اور اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے آلودہ ماحول سے آزادی حاصل کرنے کیلئے قومی سیاسی جماعتوں کو سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی، زندگی موت تو اللہ کے اختیار ہے، وہ جسے چاہے زندگی دے اور جسے چاہے اپنے پاس بلالے مگر کچھ ذمہ داری انسانوں کی بھی ہے کہ وہ خود موت کیوں خرید رہے ہیں، جن کے پاس اقتدار ہے اور اختیار ہے انہیں چاہیے کہ وہ آلودگی سے نجات کے لیے کام کریں ہمیں اپنی نسلوں کی بقاء کیلئے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا آلودگی کا مسئلہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مشترکہ ہے ہم کب تک حافظ صاحب جیسے قیمتی انسان آلودہ ماحول کے باعث پھیلتی ہوئی بیماریوں کی نذر کرتے رہیں گے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :