کروناکے باعث یوم تکبیر انتہائی سادگی سے منایا جا رہا ہے، مگر اہل پاکستان ،بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربھی کھڑے ہیں، بھارت دنیا جہاں کی قوت بھی اکٹھی کرلے، اقوام عالم کو اپنی کمر پر بھی لاد کر پھرتا رہے، پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا تو اسے دھول چاٹنا پڑے گی، جنگ اس کے بس میں نہیں،27 فروری اسے ہمیشہ یاد رہے گا، دنیا جانتی ہے کہ اگر اس خطہ میں جنگ ہوئی، جنگ کے سیاہ بادل مورکھ بھارت کے جارحانہ رویے اور عاجلانہ اقدامات پر تازیانے کی طرح چوٹ لگائیں گے ، سب کو علم ہے کہ جنگ اگر ہوتی ہے تو یہ دو ایٹمی ملکوں کے مابین ٹکراؤ ہوگا، اس کے بھیانک نتائج کا آسانی سے اندازہ ہوسکتا ہے یہ بھارت ہی ہے، جس نے پاکستان کو ایٹم بم بنانے پر مجبور کیا جس نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا،2دہائیاں بیت گئیں، اور تیسری دہائی شروع ہے پاکستان کی جوہری قوت بھارت کی آگ کے الاؤ میں جلتے ہوئے برصغیر میں امن کی ضامن بن کر اثر دکھارہی ہے بھارت پہلے ’مسکراتا بدھا‘ کے کندھے پر سوار ہوا، اور پھر ’شکتی‘ کے کوڈ ناموں کے خوال میں بند ہو کر سامنے آیا تھا، اسے پانچ کے مقابلے میں چھ دھماکوں سے جواب ملا اور بھارتی ’بدھا‘ کی ’مسکراہٹ‘ غائب ہوگئی اور ’شکتی‘ کا جواب ’مہاشکتی‘ سے مل گیا،11 مئی 1998 کو بھارت نے 43 کلوٹن کے پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو جیسے پاکستان کے طول وعرض میں آگ لگ گئی، عوام کے جذبات بپھرے ہوئے سمندر کا منظر پیش کررہے تھے، نواز شریف حکومت کے لیے جواب دینے کے سوا کوئی اور راستہ ہی نہیں تھا، پورا پاکستان متفق تھا کہ ایٹمی دھماکوں کا جواب جوہری دھماکوں سے دیا جائے، جی ڈی اے کی قیادت عوامی جلسوں میں مطالبہ کر رہی تھی، بے نظیر بھٹو نے حید آباد جلسے میں چوڑیاں پھینکیں، کہ دھماکہ نہیں کرنا تو چوڑیاں پہن لو، فیصلہ کن مرحلہ امتحان، آزمائش اور حکمت کی پگ ڈنڈیوں سے ہوتا ہوا،28 مئی کے مدار میں داخل ہوا، ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ان کی ٹیم نے پاکستان کو پوری دنیا میں ایٹمی قوت بنا دیا، ’ترقی پسندی‘ کے نام پر دشمنوں کی ’جگالی‘ کرنیوالوں نے بھی من مانے کی پوری کوشش کی کسی نے کہا کہ جوہری قوت سے کیا لینا دینا، بھوکی قوم کو روٹی دو، اسے بم سے کیالینا دینا؟ کسی نے مشورہ دیا کہ ’دھماکہ نہ کرو، پیسے لے لیں؟‘، کوئی دانشمندی کے نام پر یہ دانہ ڈال رہا تھا کہ ’دھماکوں سے پاکستان کو کیا ملے گا، الٹا پابندیاں لگ جائیں گی، بہتر ہے دھماکہ نہ کرنے کے بدلے امریکہ سے کہہ سن کر قرض معاف کرالیں،‘ کوئی یہ کہہ کر ڈرا رہا تھا کہ ’دھماکہ ہوتے ہی پاکستان پر حملہ ہوجائیگا اور پاکستان کا معاملہ دی اینڈ سمجھیں۔
(جاری ہے)
آج پلٹ کر دیکھیں تو واضح کردار اور ان کے اعمال نظر آتے ہیں کس نے پاکستان کے ساتھ اپنی وفا نبھائی، کس نے غداری کی، کس نے حوصلہ بندھایا تو کون دشمن کا آلہ کار بنا ہوا تھا؟ ’ بدھا کی مسکراہٹ‘ کے جواب میں ’یوم تکبیر‘ کا فلک شگاف نعرہ بلند ہوا تو بت پرستوں کی ہڈیاں چٹخ اٹھیں، پوری قوم نے سجدہ شکر ادا کیا اور اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سروخرو کیا۔
پوری قوم کی اجتماعی دانش ہر ’کھسر پھسر‘ کو پاؤں تلے مسل کر اپنی منزل اور ہدف پاچکی تھی، پاکستان دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی واحد جوہری قوت بن چکا تھا۔28 مئی 1998 جمعرات کو سہ پہر تین بجکر چالیس منٹ پر چاغی میں پانچ ایٹمی دھماکے کئے۔ بلوچستان صوبہ کے چاغی ضلع میں واقع کوہ سلیمان کے پرشکوہ پہاڑی سلسلے راس کوہ کو یہ اعزاز ملا یہ پہاڑی راہداری پاکستان کے دفاع، سلامتی اور خودمختاری کیلئے بلاشبہ ایک نئی راہداری ثابت ہوئی۔
ان پہاڑوں نے اپنا سینہ پیش کیا اور تاریخ میں اپنا نام لکھوالیا۔پھر 30 مئی 1998ء کو ایک اور ایٹمی دھماکہ کیاگیا جس کی مقدار بارہ کلو ٹن بتائی گئی۔ ساتویں ’فشن ڈیوائس‘ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اسے ’ایکسپلوڈ‘ نہیں کیا گیا لیکن بہرحال قوم کو جہاں پانچ جوہری دھماکوں کے بیک وقت چلائے جانے کی خوشی تھی، وہاں اسے مزید خوشی چھٹے دھماکے پر اس لئے ملی کہ ہم نے بھارت سے ایک دھماکہ زیادہ کر دکھایا۔
یہ قوم کا پیغام تھا کہ ہم بھارت سے برابر نہیں، اس سے ایک قدم آگے، اس پر برتر رہنا چاہتے ہیں۔ یہ قوم کی سوچ اور ذہن ہے، جسارت کو یہ اعزاز بھی ملا ایٹمی دھماکہ کرنے والی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے راقم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ چاغی سے واپسی پر سب سے پہلا انٹرویو جسارت کو دوں گا، پھر یہ وعدہ ایفا ہوا، اور اکتیس مئی کو یہ انٹرویو ہوا، فرائیڈے ا سپیشل اور جسارت کے صفحات آج بھی گواہ ہیں، پاکستان بلاشبہ ان دنوں بڑے دباؤ میں تھا، کوئی روک رہا تھا، کوئی اکسا رہا تھا، اس وقت عالمی جریدے نیوزویک نے یہ لکھا کہ اگر پاکستان نے جوہری دھماکہ نہ کیاتو اسکی ایٹمی صلاحیت مشکوک سمجھی جائے گی۔
اس میں بھی کلام نہیں کہ مغربی طاقتیں بالخصوص امریکہ نے دھماکے رکوانے میں پورا زور لگایا۔ 27 مئی 1998 کی رات امریکی سفیر سائمنز جونئیر کو ان کی حکومت نے وزیراعظم ہاؤ س بھیجا سفیر نے صدر کلنٹن کا پیغام نوازشریف کو پہنچایا جس میں کچھ تجاویز بھی تھیں لیکن قوم کا دباؤ ہر مغربی اور امریکی لالچ اور ترغیب کوبہاکر لے گیا۔ایٹمی دھماکوں کے بعد قومی ہیرو ڈاکٹر قدیر خان کو نشان پاکستان دیا گیا نوازشریف نے کہاتھا کہ ایٹم بم بنانے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نشان پاکستان کا اعزاز دیاجارہا ہے،28 مئی ہمیشہ یاد رکھے جانے والا دن ہے کہ یہی ہماری زندگی ہے، یہ پر شکوہ داستان مختلف انداز میں صدیوں تک بیان کی جاتی رہے گی کہ یہ پاکستانی قوم کے فخر وغرور کی علامت بن کر لوک داستان میں ڈھل چکی ہے