
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- میر افسر امان
- جوہری نشتر تحقیق۔برائے امن اور خدمتِ انسانیت پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن
جوہری نشتر تحقیق۔برائے امن اور خدمتِ انسانیت پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن
جمعہ 24 جولائی 2020

میر افسر امان
مگرایٹمی طاقت صرف ایٹمی بم ہی نہیں کہ جس نے ہمیں دشمنوں سے محفوظ کر دیا۔ بلکہ ایٹمی قوت کے پراُمن استعمال برائے تعلیم،توانائی،صحت اور زراعت بھی ایک انقلابی کام ہے۔
(جاری ہے)
مصنف لکھتے ہیں کہ پاکستان نے ۸دسمبر ۱۹۵۳ء کو ”ایٹم برائے امن“ کے پروگرام کے تحت اس کی ابتدا کی۔ امریکا سے اس سلسلے میں ۱۱/ اگست ۱۹۵۵ء کو ایک معاہدہ طے پایا۔امریکا نے پاکستان کو ایک پروٹو ٹائپ ایٹمی ری ایکٹر ر فراہم کر دیا۔۱۹۵۶ء میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن یا پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن وجود میں آیا۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے ۱۶/دسمبر ۱۹۷۱ء کو بنگالی قومیت کے نام پر مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کر دیا۔ ہمیں ڈرانے کے لیے ۱۹۷۴ء میں پکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کر دیے۔ ان ایٹمی دھماکوں نے پاکستان کے جذبہ،غیرت ،جوہر ادراک، جذبہ تحقیق کو جگایا۔ حکیم الامت علامہ شیخ محمد اقبال کے ان اشعار میں جو سوال اُٹھے تھے اُن کے جواب میں کام شروع کیا:۔
کھویا گیا کس طرح ترا جوہر اداراک؟
کس طرح ہوا کُند تیرا جوہر اداراک؟
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک؟
مصنف لکھتے ہیں کہ پاکستان کے پرامن ایٹمی پروگرام کے تحت تعلیم،صحت،توانائی،زراعت اوراعلی ٹیکنالوجی میں ترقی ہو رہی ہے۔تعلیم وتربیت کے تحت پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیو کلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (پیسٹیک) اسلام آباد میں نیلور کے قریب واقع ہے۔ یہ ادراہ دسمبر ۱۹۶۵ء کو قائم ہوا۔جہاں سے بہترین سائنسدان، گریجویٹ اور ڈاکٹر پڑھ کر نکلتے ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈسائنسز(پیاس) ۱۹۶۷ء اسلام آباد میں قائم ہوا۔ یہ ایک تسلیم شدہ ممتاز فیڈرل یونیورسٹی ہے اور یہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وقف ہے۔یہاں انجینئرنگ، قدرتی سائنسز، فیزیکل سائنس کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کراچی انسٹیٹیوٹ آف نیو کلیئر پاور انجینئرنگ (کنپو) یہ ادراہ کراچی میں واقع ہے۔ ملک کو سند یافتہ آپریٹرز اور انجیئنرنگ جو کینپ ایٹمی بجلی گھر کو چلانے کے لیے تعلم اور تربیت اور دیکھ بھال کی تربیت دیتا ہے۔چشنپ سینٹر فار بیو کلیئر ٹرینینگ(چیسنیٹ) یہ ادراہ چشمہ ایٹمی بجلی گھر کے قریب و جوار میں واقع ہے۔کینیپ کی طرح یہ بھی آپریٹرز اور انجینئرز جو چشمہ بجلی گھروں کو چلانے اور دیکھ بھال کا کام کرنے والوں کوتعلیم فرہم کرتا ہے۔ پاکستان ویلڈنگ انسٹیٹیوت(پی ڈبلیو آئی) یہ ادارہ اسلام آباد میں ۱۹۸۵ء میں قائم ہوا۔ ویلڈنگ ،پلوں کی تعمیر،ریلوے ٹریک وغیرہ بنانے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ صحت کے تحت کینسر کا تحقیقی ادارہ( پی سی آر)پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن نے خدمت خلق میں پورے پاکستان میں لا علاج و موزی مرض کینسر کے مفت علاج کے لیے جدید ترین آلات اور ادویات سے آراستہ ۱۸/اسپتال قائم کیے ہوئے ہیں۔جوہری ادراہ برائے زراعت (نیا)زراعت و خوراک کے لیے جوہری توانائی برائے زراعت تحقیقی مرکز ۲۲/ نومبر ۱۹۶۹ء میں حیدر آباد سندھ کے قریب ٹنڈو آدم میں افتتاح کیا گیا۔ اس میں پودوں کی افزائش اور جینیاتی نقشہ پر مثبت تبدیلیاں کر کے پیدا وار کو بڑھانے اور پودوں کے تحفظ کے علاوہ مٹی یا زمین کے سائنسی مطالعہ اور پودوں کے اعضا کے مطالعہ میں یہ ادارہ مہارت حاصل کر چکا ہے۔ جوہری ادارہ برائے زراعت و حیاتیات (نیاب) یہ ادارہ ۱۶/ اپریل ۱۹۷۲ء کوزراعت، صنعتی اور سائنسی تحقیق کے لیے فیصل آباد پنجاب میں قائم کیا گیا۔ یہ زراعت اور خوراک کا تابکاری سے بچاؤ کے لیے قومی تحقیقی ادارہ بن چکا ہے۔یہ ادراہ جوہری توانائی اور جوہری ادارہ برائے خوراک اورزراعت(نیفا) کے زیر نگرانی کا کرتا ہے۔نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف فوڈ اینڈ ایکلچر(نیفا) جوہری ادارہ برائے خوراک و زراعت پشاور خیبر پختونخواہ نے ۲۶/ اپریل ۱۹۸۲ء سے وزارت خوراک کے لیے پاکستانی جوہری توانائی کمیشن کے دائرہ کار انتظام میں کام شروع کیا۔فصلوں کی پیداوار اور تحفط پر تحقیق کرنے، زمین کو زرخیز بنانے، پانی کا نظام و بندوبست اور خوراک کے وسائل کو قیمتی بنانے کے لیے جوہری توانائی کا استعمال کرنا ہے۔ قومی ادارہ برائے جوہری ٹیکنالوجی اور جینیات سے متعلق انجینئرنگ (نجی)پاکستان جوہری توانائی کمیشن کو یہ اعزاز حاصل ہو گیا ہے کہ اس نے جوہری ٹیکنالوجی کو استعمال کر تے ہوئے زراعت کی پیداوار کو بڑھانے اورز مین درست کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔اس میں ۱۱۱/ قسم کی فصلیں تیار کی ہیں۔پاکستان جوہری توانائی کمیشن کسانوں کا دن بھی مناتی ہے۔تحقیق برائے توانائی میں توانائی کے حصول کے ذرائع، پانی کے بہاؤ جسے ہائیڈرو پاور کہا جاتا ہے۔پاکستان کے پاس ڈیم کی کمی ہے۔ کالا باغ ڈیم بننا چاہیے تھاجو سیاست کی نظر ہو گیا۔ ویسے گلگت بلتستان کا علاقہ پاکستان کی بجلی کی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔پاکستان کو اسوقت توانائی کی سخت ضرورت ہے۔پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔توانائی کے حصول کا جوہری ذریعہ محفوظ، سستا، دیر پا اور ماحولیات دوست ہے۔ اعلی ٹیکنالوجی صنعتی انجینئرنگ کے تحت ہیوی مکینکل کمپلیکس ۳ ٹیکسلا میں قائم ہیوی میکینیکل کمپلیکس ایک بڑی بھاری انجینئرنگ کمپنی ہے جو ریاستی انجینئرنگ کارپوریشن کی ایک شاخ ہے۔ اس ادارہ کو ۱۹۷۹ء میں چین کی مدد سے قائم کیا گیا ۔ قومی مرکز برائے عدم تخریب جانچ پڑتال ۱۹۷۴ء میں اسلام آباد میں قائم کیا گیا۔ اس ادرارہ نے فضائی حدود،کیمیاوی، بھاری میکینیکل مشینوں یا پزاہ جات کی پیدا وار، بجلی کی پیدا وار، ہر قسم کی گاڑیاں،جہازسازی کا کام ہے۔ قومی ادارہ برائے لیزر اور آپٹرونکس ۲۰۰۷ء میں لیزر پر تحقیق اور اس کی نئی ایجاد اور استعمال کے آگے بڑھانے کے لیے ایک مرکزی ادارہ بنایا گیا۔جو لیزر پر نئی ٹیکناوجی کو پروان چڑھانے کا کام کر رہا ہے۔پاکستان جوہری توانائی کی ریگولیشن کاا دارہ جو تمام جوہری بجلی گھروں اور اداروں کے سلسلے میں موجود کاوشوں اور تابکاری کے اخراج کو رکونے اور اُن کو محفوط بنانے کے لیے ،پاکستان نے ۲۰۰۱ء میں ایک مکمل خود مختیار ادارہ کی داغ بیل ڈالی جسے پاکستان جوہری ریگولیٹری اتھارٹی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جوہری ایندھن کاحصول اور استعمال کے لیے پاکستان نے ڈیرہ غازی میں یورینیم کی سپلائی کی فراہمی کا نظام وضع کر رکھا ہے۔ یہ عالمی ادارہ برائے جوہری توانائی (آئی اے ای ایف اے) کے زیر نگرانی ہے۔ پاکستان نے دنیا بھر کو اپنی اس صلاحیت سے فائدہ اُٹھانے کی پیشکش کر رکھی ہے۔جوہری توانائی سستی اور محفوظ ہے۔ اس لیے پاکستان اسے استعمال کر رہا ہے۔ اس طرح پاکستان کو۲۰۳۰ء تک ۸۸۰۰ میگاواٹ بجلی مل جائے گی۔جوہری توانائی سے ۳۱ /ممالک ۳۹۲ گیگا واٹ بجلی حاصل کر رہے ہیں۔ زراعت میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زرعی ادارے ٹنڈو آدم،فیصل آباد،لاہور اور پشاور میں کام کر رہے ہیں۔ ۱۱۱/ اقسام کے بیجوں کو متعارف کرایا گیا ہے۔چاول کی ۳۰ کپاس کی ۲۰،گندم کی ۲۰ / اور ۱۲/ فی صددیگر اجناس حاصل کی جارہی ہیں۔لائیو اسٹاک میں بھینس، گائے اور دیگر جانوروں تحقیق ہو رہی ہے۔ساہیوال کی زیبی گائے دنیا میں بہترین دودھ دینے والی بہترین گائے سمجھی جاتی ہے۔ صحت کے شعبہ میں پاکستان انرجی کمیشن نے کینسر کے علاج کے لیے ۱۸ مراکز قائم کیے ہوئے ہیں۔تعلیم کے میدان میں کنپو کے نام سے چار بجلی گھروں کا چلانے والوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔چشمہ کے مقام پر چشنم کے نام سے انجینئر پیدا کیے جارہے ہیں۔ غذا کے تحفظ کے متعلق یہ بات ہے کہ کاشتکار پاکستان ایٹمی کمیشن کے تیار کردہ بیج استعمال کر کے بہتر پیداوار حاصل کرتے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں پاکستانی جوہری جوانائی کمیشن نے پیش بہا خدمات دی ہیں۔پنسٹیک کے نام سے ایک تحقیقی ادارہ کام کر رہا ہے۔این ایس جی کے تحت نیو کلیئر سپلائی گروپ کو کہتے ہیں۔ پہلے پانچ ایٹمی ممالک تھے۔ بھارت نے ۱۹۷۴ء میں دھماکے کر کے چھٹا ملک بن گیا ۔ پاکستان نے۸ ۱۹۹ء پانچ چاغی اور ایک خاران کی پہاڑیوں میں ایٹمی دھماکے کر کے ساتواں ایٹمی ملک بن گیا۔ دنیا بھارت کے ایٹمی ملک ہونے پرواجبی سا رد عمل کیا۔ مگر پاکستان کا ایٹمی ہونا انہیں ہضم نہیں ہو رہا۔ پاکستان دشمنی میں نیو کلیئرسپلائر ز گروپ تشکیل دیا گیا۔پہلے ۷سے۸ممبران تھے۔ پھر ۴۸ ہو گئے۔ ان سب کو ویٹو پاور حاصل ہے۔سوائے پاکستان کے دوست ملک چین کے سارے ممبران بھارت کو اس کا ممبر بنانے پر راضی ہیں۔ جبکہ پاکستان کو ممبر نہیں بنایا جارہا۔چین کہتا ہے کہ جب تک پاکستان ممبر نہیں بنے گا بھارت بھی نہیں بن سکتا؟پاکستان جوہری پروگرام کے لیے توصیفی اسناد ملی ہیں۔پاکستان ہمیشہ سے ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے خلاف ہے۔اس لیے امریکا نے بھی پاکستان کی تعریف کی ہے۔ عالمی سربراہی کانفرنسز برائے ایٹمی تحفظ کی پہلی جو ۲۰۱۰ء امریکا واشنگٹن ڈی سی میں،دوسری۲۰۱۲ء جنوبی کوریا سیول میں تیسری ۲۰۱۴ء نیدر لینڈ( ہالینڈ) چوتھی ۲۰۱۶ء امریکا میں منعقد ہوئیں۔ ان سب میں پاکستان نے بھر پور شرکت کی۔
مصنف نصرت مرزا صاحب رابطہ فورم انٹر نیشنل کے سربراہ ہیں۔ اس ادارے کے تحت یکم مارچ ۲۰۱۴ء کراچی میں ایک سیمینار کا انعقاد کیاگیا۔ جس میں ایٹمی سائنسدان، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور دیگر دانشورں کے سامنے ایٹمی توانائی کے بجلی گھروں کے متعلق سوالات کے جوابات پیش کئے گئے۔ ۱۰/ مارچ ۲۰۱۵ء کو کراچی میں دوسرا سیمینار منعقد کر کے عوام کے ذہنوں میں ڈالے گئے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ عوام کو بتایا گیاایٹمی بجلی گھر ماحولیات دوست اور سستی بجلی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ایک اور سیمینار ۴ جون ۲۰۱۵ء کو کراچی میں منعقد کر کے عوام کو بتایا گیا کہ جوہری بجلی گھر سمندری مخلوق کے لیے نقصان دہ نہیں۔ ان سیمینار کے علاوہ مذید آگاہی کے لیے نصرت مرزا صاحب نے۲۴ دسمبر ۲۰۱۷ء کو پاکستان ایٹمی انجی کمیشن کے چیئر میں محمد نعیم صاحب اور جناب شاہد ریاض کے تعاون سے کراچی کے پروفیسروں ، اخبارات کے ایڈیٹروں، طلبا کی ایک بڑی تعدادکو پاکستان جوہری توانائی کمیشن کے تعاون سے کراچی میں کے ون کے ٹو اور کے تھری بجلی گھروں کا دورہ کرایا۔
صاحبو! یہ ہیں پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن کی ترقیاں، جسے نصرت مرزا صاحب نے اپنی کتاب” جوہری نشتر تحقیق “برائے امن اور خدمتِ انسانیت میں بیان کی ہیں
۔ایٹمی پروگرام صرف ایٹمی بم ہی نہیں بلکہ پاکستان کا پر امن ایٹمی پروگرام انسانیت کی خدمت بھی کر رہا ہے جسے دنیا نے توصیفی سرٹیفیکیٹ بھی جاری کیے ہیں۔ نیو کلیئر سپلائی گروپ کے ۴۸ ملکوں کو چاہیے ہے کہ پاکستان سے تعصب نہ برتیں۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کو نیوکلیئر سپلائی گروپ کا ممبر بنائیں تاکہ پاکستان انسانیت کی مذید خدمت کرے۔ بقول شاعرخواہ میر درد:۔
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
میر افسر امان کے کالمز
-
پیٹ نہ پئیں روٹیاں تے ساریاں گلیں کھوٹیاں
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایران اور افغانستان
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
جہاد افغانستان میں پاک فوج کا کردار
منگل 16 نومبر 2021
-
افغانوں کی پشتو زبان اور ادب
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
افغانستان میں قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی کا کردار
جمعہ 5 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران - آخری قسط
منگل 2 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
افغانستان :تحریک اسلامی اور کیمونسٹوں میں تصادم ۔ قسط نمبر 4
بدھ 27 اکتوبر 2021
میر افسر امان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.