ملالہ کی کتاب اور کہانی۔ آخری قسط

جمعرات 17 جون 2021

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

ہم نے چوتھے کالم میں عیسائیوں کی سازشوں کا ذکر کیا تھا ۔اب ایک نئی سازش ”آئی ایم ملالہ“ لکھوا کر پیش کی گئی ہے یہ کتاب اس لیے لکھائی گئی ہے تا کہ مسلم دنیا پر اس کارد عمل دیکھ کر اس کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ عیسائی میں دنیا میں عورت کے ساتھ بہت ظلم کیا جا رہا ہے۔ وہ عیسائی دنیا کی معاشرت سے باغی ہو گئیں ہیں۔

مسلم دنیا کے معاشرتی نظام کی خوبیوں اور اس میں عورت کے مقام سے مرغوب ہوکر عیسائی عورتیں اسلام قبول کر رہی ہیں۔ عیسائیوں کو اس چیز نے پریشان کر دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی عورت کو اپنے معاشرے میں صحیح مقام دیں۔ انہوں نے مسلمان معاشرے کو عیسائی دنیا میں غلط رنگ میں پیش کرنے کی سازش شروع کی ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

تا کہ ان کی عورتیں مسلم معاشرے سے متنفر ہوں اور اسلام قبول کرنا چھوڑ دیں۔

ملالہ پر جعلی حملے کے بعدپاکستانی اور امریکی فنڈڈ، عالمی یہودی کنٹرولڈ جادو گر میڈیا نے اسے پہلے تو تعلیم کی پری، جرأت،امن، عورتوں کے حقوق کی دیوی، قوم کا بے نظیر سرمایا، بین الاقوامی سطح پر عزت کی واحد علامت اور دنیا کے سارے نامی گرامی ایوارڈز حاصل کرنے والی شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا۔ جب پاکستان سمیت ساری دنیا میں ملالہ واہ، ملالہ واہ کی گردان سمجھا دی گئی اس کے بعد ملالہ کے نام سے یہ کتاب سامنے لائی گئی۔

اس کتا ب میں وہ سارے لوازمات شامل کئے گئے ہیں جس سے اسلامی دنیاشدید قسم کا رد عمل ظاہر کرے اور اور عیسائیوں کی سازش کامیاب ہو جائے۔ کہ دیکھو جی مسلمان عورتوں کی تعلیم، عورتوں کے حقوق اور برابری کے خلاف ہیں وغیرہ وغیرہ۔ملالہ کی طرح مظفر گڑھ کی مختاراں مائی ، سوات میں کوڑوں والی جعلی ویڈیو میں پاکستانی عورت کو مظلوم بنا کر پیش کیا گیا تھا۔

جبکہ ان حادثوں کو عدلیہ نے جعلی قرار دیا تھا ۔پاکستانی اور عالمی میڈیا میں اسے خوب اُچھالہ گیا تھا۔
 صاحبو!ملالہ کے مردود ہونے کے سارے انتظامات اس کتاب میں موجود ہیں۔ اس سولہ سالہ لڑکی کے منہ میں اسلام، مسلمان اور پاکستان کے لوگوں کے بارے میں ذلت آمیز الفاظ کس نے ڈالے ۔ بار بار حوالے پر کہیں بھی سیدالا انبیا کے نام کے ساتھ ﷺ نہ لکھنا ، سلمان رشدی کو آزادی اظہار کا حق دینا، ضیاالحق کا تمسخرکہ اس کے دور میں عورت محدود ہو گئی تھی۔

پردے ، داڑھی اور برقعے کا مذاق اُڑانا۔ ملا عمر کوکانا ملاکہنا۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے پر دکھ کرنا۔ جبکہ قادیانی کافر ہونے کے باجود خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ پاکستان کا تین جنگیں ہارنا۔سکندر اعظم کا ہیروہونا۔پاکستانی افواج پاکستان اور علماء کی مخالفت۔فوج اور آئی ایس آئی کو طالبان کا ساتھی اور ڈکٹیٹر مشرف کی تعریف کرنا۔ناموس رسالت قانون کی مخالفت کرنا۔

اپنے والد ضیالدین یوسف زئی کو سیکولرزم کا ہیرو قرار دینا۔ دو قومی نظریہ کی نفی کرنا۔ تقسیم ہند کو دو بھائیوں کا جھگڑا کہنا۔ تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قائد اعظم  کو صرف جناح اور شیعہ کہنا۔اسامہ کی موجودگی پاکستان کو معلوم تھی کہنا۔ ایٹمی دھماکوں کے بارے ناپسندیدہ ریمارکس دینا۔موجودہ حالت میں متحدہ ہندوستان میں رہنا اچھا ہے۔

متحدہ مجلس عمل اور اس اتحاد کے تحت حکومت کو ملا ملٹری الائنس کہنا۔۴ ا/اگست یعنی یوم پاکستان پرباپ کی مخالفت پر خوش ہونا۔مسجد حفصہ کی بچیوں کے لیے بُرے ریمارکس دینا۔ پاکستان کے دینی مدرسے سعودی کلچر پھیلا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اس کتاب کی خلافِ اسلام اور خلافِ پاکستان باتوں کو پاکستانی میڈیا نے بالکل نظر انداز کیا ہوا ہے۔ جس پاکستانی میڈیا نے ملالہ کو خلائی مخلوق بنایا تھا۔

اب اس کی اسلام اورپاکستان مخالف کتاب کے زہر بھرے مندرجات کو عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔
”آئی ایم ملالہ“ کتاب سامنے آنے کے بعد اب ملالائی سازش سامنے آ چکی ہے۔ ملالہ نے اپنے اور اپنے والد کی پُراسرار سازش میں شرکت کا پردہ اُٹھا دیا۔ اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والے ٹی وی اینکرز،صحافی،دانشور، کالم نگار اور سول سوسائٹی نے اس کتاب کی کھل کر مخالف کی اور اس ساش سے پردہ اُٹھایا ہے۔

تو اب بہتر ہے کہ پاکستان کے اسلام بیزار ،روشن خیا ل ،لبرلراور سیکولرز دانشوروں کو اب اس کتاب کے بعد اب ملالہ کی بے جا حمایت سے باز آ جانا چاہیے۔ یہ کتاب ملالہ، اُس کے والد اور ان کی مربی عیسائی دنیا کے اسلام اور پاکستان دشمن خیالات کا مجموعہ ہے۔ یوسف زئی نے عیسائی دنیا کو یقین دلا دیا ہے کہ ملالہ عالمی سوچ رکھنے والی لڑکی ہے۔ جس شخصیت نے ملالہ،اس کے والد اورپاکستان دشمن این جی اوز کی مہیا کردہ مواد کو سامنے رکھ کر اس کتاب کولکھا وہ ایک صحافی کرسٹینا لیمپ عورت ہے۔

۱۹۸۹ء میں بلوچستان کے شہر پشین میں ایک بلوچ سردار جو پیپلز پارٹی کے وزیر بھی تھے اس عورت کو ہر پارٹی میں اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔ اس نے بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں بطور صحافی پاکستان میں کام کیا تھا پیپلز پارٹی کے کئی وزرا کے ساتھ اس کے ذاتی مراسم تھے۔ پاکستان کی اخباری دنیا میں یہ مشہور تھا کہ یہ عورت خبر نکالنے میں ماہر ہے اور کسی بھی اخلاقی حد کو عبور کر کے بھی خبر نکال لیتی ہے۔

ایک انگریزی اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے ایک مرکزی راہ نماء کے پاس خاص خبر تھی۔ لیکن وہ شیئر کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ کرسینا لیمپ اس شخص سے حاصل کر لی۔ صرف ایک رات وزیر کے ساتھ رہنے اور صبح چائے پی کر واپس آگئی۔ سرداروں اور خانوں کے ساتھ کاک ٹیل پارٹیوں میں شریک ہوتی رہی۔ کئی وزرا اس کی زلف کے اسیر رہے۔ اسی آڑ میں اوبی لادن(اسامہ بن لادن) کے نام سے پی آئی اے میں سفر کی کوشش کرتے ہوئے پکڑی گئی۔

تاکہ پاکستان کو دنیا میں بدنام کیا جائے۔ کہ اُسامہ تو پاکستان میں ہوائی بھی سفر کرتا رہا ہے۔ کرسٹینا لیمب کو کئی بار ناپسندیدہ سر گرمیوں میں ملوث ہونے کے سبب مختلف ادوار میں پاکستان بدر کیا گیا۔ اب بھی اس کا نام ناپسندیدہ شخصیات میں شامل ہے۔ اس لیے وہ پاکستان کے خلاف ہے اور اس کتاب میں زہر اُگلا ہے۔ اس کا لندن میں قادیانیوں کے ایم ٹی اےmta ٹی وی چینل کے دفتر میں آجانا رہتا ہے اس ٹی وی کی نشریات ایشیائی سیٹ۳۔

ایسٹset3.east کے ذریعے براہ راست ملا کنڈ ڈیویژن میں دکھائی جاتی ہیں۔لندن میں کتاب لکھوانے سے پہلے قادیانی جماعت کے خلیفہ مرزا مسرو ر سے یوسف زئی کی ملاقات میں کیا طے ہوا؟ ۔ کتاب کے لیے یوسف زئی نے اپنی پرانی مددگا ر این جی اوز سے مواد لیاہے۔
قارئین! ہم نے اپنے مضمون میں ملالہ کی کتاب اور کہانی پر اپنے اس حصے اور گذشتہ چار قسطوں میں جو تجزیہ پیش کیا ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ویسا ہی کیس ہے جیسے مختاراں مائی اور سوات کی کوڑوں والی وڈیو کے مقامی کیس تھے جو عدالت نے بھی جعلی ثابت کئے تھے ہم نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عیسائی دنیا جو کسی کو مفت بخار بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ ملالہ پر ایورڈز اور انعامات کی بارش کررہی ہے۔ اس کی کڑیاں اس صورت حال سے ملانے کی طرف اشارے کیے ہیں جو عیسائی دنیا نے عالمی طور امت مسلمہ کے ساتھ دشمنی کے جال بچھائے ہوئے ہیں اور پہلے بھی بچھاتی رہی ہے۔

کتاب لکھنے والی صحافی خاتون کے کردار اور پاکستان دشمنی کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگر ملالہ پر حملے کے وقت نادنستہ طور پر یا کسی بھی وجہ سے جو پاکستانی میڈیا نے اسے آسمان پر اُٹھایاتھا۔ اب اس کی کتاب آنے کے بعدملالہ اور عیسائیوں کی اسلام اور پاکستان سے دشمنی ثابت ہو گئی ہے۔ ملالہ کو عیسائی دنیا نے ٹریپ کر لیا۔ اس کا لالچی والد اس میں شامل ہے۔

لہٰذا اب ہم اپنے میڈیا کو مشورہ دیتے ہیں کہ اس کی تلافی کرے اور خاموش رہنے کے بجائے قوم کو اس سازش سے پوری طرح آگاہ کرے۔ تاکہ اس کی پہلے غلطی کی تلافی ہو جائے۔ ہمارا ملک کسی بھی وقت نئے آنے والے سازشی حادثے سے محفوط ہو جائے۔
ہم نے ملالہ کے متعلق پچھلے پانچ کالموں میں عرض کیا تھا کہ ملالہ کا ڈرامہ ویسا ہی ہے جیسے سوات کے کوڑوں والی لڑکی کا تھا۔

جسے بیرونی فنڈڈ ملکی الیکٹرونک میڈیا اور اسلام دشمن غیر ملکی الیکٹرونک میڈیا نے آسمان پر اُٹھایاتھا ۔ ایک خاص ذہن کے سیکولر کالم نگاروں نے کالم پر کالم لکھے تھے۔ جس کا بعد میں ڈرامہ کرنے والوں نے اعتراف بھی کیا تھا کہ اس نے پانچ لاکھ لے کر ایسا کیا تھا۔ پاکستان کی عدلیہ نے بھی اس ڈرامے کو جھوٹا ثابت کیا تھا۔اے کاش! ملالہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو یا کوئی امریکی کریگ مونٹیل کے طرح زندہ ضمیر انسان بول اُٹھے کہ یہ سب جھوٹ تھا۔

آئے دن بیرونی این جی اوز، بیرونی فنڈڈ کالم نگاراور میڈیا ہمار ے ملک میں اپنے بیرونی آقاؤں کی ضرورت کے لیے ایساکرتے رہتے ہیں۔ ان کا خصوصی نشانہ ہمارے ملک میں مسلمان خواتین کے خلاف نام نہاد ظلم کی بنی بنائی داستانیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ عیسائی دنیا میں عورتوں پر مظالم کی اور ان کا اسلام قبول کرنا ہے۔ بجائے عیسائی اپنے ملکوں میں اصلاح کی کوششیں کر کے اپنی عورتوں پر مظالم ختم کر یں وہ اسلامی دنیا اور خاص کر پاکستان میں عورتوں پر مظالم کے واقعات بڑھا چڑھا کر بیان کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کی عورتیں اسلام سے متنفر ہوں اور اسلام قبول نہ کریں۔

اس میں ہمار ے نادان لالچی کالم نگار اور بیرونی فنڈڈ میڈیا ان کی مدد کرتا رہتا ہے۔ پہلے مائی مختاراں کے واقعے پر یسا ہوا۔ اس کو دشمن ملت ڈکٹیٹر مشرف نے امریکا بھیجا یا۔ وہاں اسے پورے امریکا میں گھمایا گیا۔ اس کی نام نہاد کہانی کو پوری دنیا میں پھیلایا گیا ۔یہودی/عیسائی میڈیا نے اس کی خوب تشہیر کی۔ اُسے درجنوں ایوارڈ سے نوازا گیا ۔

اُس کی سوانح حیات بھی لکھی گئی۔ جیسے اُس نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کیا ہو۔ خود یورپ اور امریکا کے اندر سیکڑوں ریپ کے کیسسز ہوتے رہتے ہیں۔اس کے بعد ملالہ کی کہانی کو پھیلایا گیا۔ اس پر ایک بے حیا کرسٹوفر نے قادیانیوں کے ہیڈ کورٹر لندن سے ملاقات کر کے”میں ملالہ ہوں“ نامی کتاب لکھی۔پھر اس کتاب کی خوب تشہیرکی گئی۔ملالہ کوسینکڑوں انعامات سے نوازا گیا۔

جیسے ملالہ نے سکندر اعظم سے بھی زیادہ فتوحات کی ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ ملالہ کے باپ نے گلوبل پیس کے نام سے ایک این جی او قائم کی تھی۔ اس کے ذریعے سی آئی اے سے فنڈ حاصل کرتا رہا۔ سی آئی اے کے لوگوں سے ضیاالدین یوسف زئی کی ملاقاتوں کے فوٹو سوشل میڈیا نے جاری کئے تھے۔ ملالہ کے ڈرامے کی پلانگ کے لیے ان سے ملاقاتیں میں کرتا رہا تھا۔ ملاقاتوں کی تصویریں سوشل میڈیانے ان ہی دنوں جاری کی تھیں۔

اس کی مدد کرنے والے ایک امریکی جرنلسٹ جو بھیس بدل کر مصنوعی چہرا بنا کر کام کر رہا تھا کی بھی تصویر جاری کی تھی۔ مقامی کالم نگار اور لوگ اس بات کو بار بار بیان کر رہے ہیں کہ ملالہ نے تعلیم کی لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ صرف پروپیگنڈہ ہے۔ بلکہ اب بھی ملالہ کے والد ضیاالدین یوسف زئی کو اپنے کالموں میں طعنے دیتے ہیں کہ اس نے لالچ میں آکر پٹھانوں کے کلچر کو بدنام کیا۔

پہلے بی بی سی کے مقامی بیورو چیف نے جس نے دہشت گردی کی آڑ لے کر امریکا کے بنائے ہوئے طالبان کو بدنام کرنا تھا۔اس کی ڈائری گل مکئی کے مصنوعی نام سے لکھنی شروع کی ۔ بی بی سی سے اس کی خوب تشہیر کی گئی۔ پاکستانی میڈیا نے بھی اس کی خوب شہیر کی۔ بی بی سی کا مقامی بیورو چیف کاکڑترقی پا کر نیوز پروڈیوسر بن گیا۔ پتہ چلا ہے شایداب امریکا میں مقیم ہے۔

پہلے ہی دن پریس میں خبر آئی تھی کہ ملالہ کو سر اور گردن میں دو گولیاں لگی ہیں۔ جبکہ زخمی سر اور گردن کا کوئی فوٹو جاری نہیں کیا گیا۔ بلکہ آج تک نہ گردن والے زخم کی کوئی تصویر جاری کی گئی نہ سر کی ایسی تصویر جس سے ظاہر ہو کہ آپریشن کے لیے سر کے بال کاٹے گئے اور سر کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ بلکہ سوشل میڈیا نے لندن میں بنائی گئیں ملالہ کی صاف ستھری چہرے کی تصوریں جاری کی ہیں۔

جب زخمی ملالہ کو سوات سے پشاور منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر میں سوار کرنا تھا تو ملالہ سرخ کپڑوں میں ملبوث چل کر ہیلی کاپٹر پر اپنے والد کے ساتھ جارہی تھی۔ جس کا فوٹو سوشل میڈیا نے اس وقت جاری کیا تھا۔ پھر اسی سرخ کپڑوں والی لڑکی کا پشاور ہسپتال میں ڈاکٹر معائنہ بھی کرتے دکھائے گئے ہیں ۔کالم نگار شہزاد عالم کے مطابق سوات میں دہشت کے دورمیں ملالہ اپنے والد کے ساتھ ایبٹ آبا میں مقیم تھی۔

جب اپنے والد کے ساتھ سوات واپس آئی اورامن کے بعد۲۰۰۹ء میں اخپل کور ماڈل اسکول میں امن کمیٹی کا ایک اجلاس ہوا۔ جس میں یوسف زئی صاحب بھی شامل تھے۔ اس میٹنگ میں مقامی سواتی حضرات نے جس میں غلام قادر سپین دادا نے ضیاء الدین یوسف زئی کو کھری کھری سنائیں۔اور سرزنش کی اور کہا کہ اس سازشی کھیل کو ختم کرو!یہ ہیں ملالہ کہانی کے مقامی چشم دید لوگ جن کے خیالات ہم نے قلم بند کئے ہیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ چاند اخبار سوات میں مرزا عبدالقدوس کے ایک مضمون میں ملالہ کی سب حقیقت بیان کی گئی ہے۔ ڈاکٹر سلطان روم نے اخبار آزادی سوات میں بھی پانچ قسطوں میں ملالہ کہ کہانی کا پردہ چاک کیا ہے۔
صاحبو! مسلم امت کا یہ حال ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں عیسائی دنیا میں مسلمان کیمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کی رپورٹ بھی موجود ہے۔

پوری دنیا میں عیسائیوں نے لاکھوں دہشت گردی کے واقعات کو مسلمانوں سے جوڑ کر نیٹ پر ڈال دیا ہے ۔ میں نے نیٹ پر” وکی مسلم“ کے نام سے تقریباً ۶۰ صفحوں سے زیادہ میں پرنٹ نکال کر رکھے ہیں۔ ہندوستان نے بھی ایک ا یسی ہی پوسٹ نیٹ پر ڈالی تھی۔ میرے”وکی مسلم“ کے پرنٹ نکانے کے بعد کسی وجہ سے ہندوستان نے یہ پوسٹ ہٹا دی تھی۔ میں نے یہ پرنٹ محفوظ رکھے ہوئے ہیں اس خواہش کے ساتھ کہ کاش کوئی اس کا مثبت جواب دینے والا ہو؟ ۹/۱۱ کے بعد مہم کے طور پر مسلمانوں کے خلاف ایسے واقعات سے پریس بھری پڑی ہے۔

امریکہ میں مسلمانوں نے عدالت سے رجوع کیا کہ مسلمانوں کی ریکی کی جاتی ہے اور انہیں جعلی واقعا ت میں ملوث کیا جاتا ہے۔
مغرب کی ڈمی ملالہ کا تازہ بیان آیا کہ شادی کے بغیر ہی مرد عورت تعلوقات رکھ کر سکتے ہیں۔ چنا چہ میں ملالہ کی کہانی کے جعلی اور ملت فروش کرداروں سے انسانیت کے نام سے اپیل کرتا ہوں کہ کاش! ان میں سے کسی کا اندر کا انسان جاگ اُٹھے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے۔

جیسے ایک امریکی بدمعاش کریگ مونٹیل کے اندر کا ا نسان جاگ اُٹھا تھا۔ تاکہ امت مسلمہ پر لگائے جھوٹے الزام دُھل جائیں۔ وہ اس طرح ہے کہ صلیبیوں کی شیطانی چالوں کا اس بات سے اندازہ کیجیے کہ معروف عرب چینل الجزیرہ کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں ایف بی آئی کے افرادمنافق بن کر اسلام لاتے ہیں۔ ایجنٹ بن کر مساجد میں آتے ہیں اور سادہ لوح مسلمان نوجوانوں کو مساجد میں جہاد پر اُکساتے ہیں۔

ان کے ذہن میں چھپے جہادی خیالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور دھوکا دے کر بدلہ لینے اور تخریبی کاروائیوں میں ملوث کرتے ہیں۔ اس قسم کی تازہ مثال کریگ مونٹیل ایک امریکی بدماش سفید فام کی ہے ۔اس کو ایف بی آئی نے پونے دو لاکھ ڈالر دے کر اس بات پر تیار کیا۔اس نے اپنا فرضی نام فرخ عزیز ظاہر کر کے ایک صومالی نوجوان محمد عثمان محمود کو کرسمس پر دھماکہ کرنے پر تیار کیا۔

کرسمس ٹری بم سازش تخریب کاری پر اُکسایا۔ بم میں مصنوی دھماکہ خیز مواد رکھا۔اس کے بعد عین موقعے پر بم بلاسٹ کرتے ہوئے ایف آئی بی نے اس مسلمان نوجوان کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا اور پرنٹ اور الیکٹرو نک میڈیا پر اس کی خوب تشہیر کی۔ ساری دنیا میں اس کرسمس ٹری بم سازش کا پرو پیگنڈہ کیا گیا۔ اور مسلمانوں کا دنیا بھر میں دہشت گرد ہونے کا واویلا مچایا گیا۔

مگر آخر کارصلیبی مکر کرنے والوں سے اللہ کا مکر جیت گیا ۔اور کریگ مونٹیل کے اندر کا انسان جاگ اٹھا۔ اور اس نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے سامنے ساری سازش کو بے نقاب کر دیا۔ پہلے تو ایف بی آئی کے اعلیٰ افسران نے اس واقعے سے انکار کیا۔ پھر جب کیریگ مونٹیل نے ایف بی آئی کا نشان پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے سامنے پیش کیا تو ایف بی آئی نے کہا کہ مجرموں کی تلاش میں ایسے کام کرنے پڑتے ہیں۔کریگ مونٹیل نے ایف بی آئی پر مقدمے کا اعلان کر دیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ کوئی ایسا ہی کردار ملالہ کی کہانی میں بھی پیدا ہو اور سچ دنیا کے سامنے آ جائے۔ختم شد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :