
یہ دوہرا معیار آخر کیوں؟
جمعرات 18 جون 2020

محمد اشعر سعید
جدھر پاکستانی مسلح افواج بیرونی دشمنوں سے ہماری حفاظت کرتی ہے اسی طرح اندرونی دوشمنوں اور مختلف قسم کے جرائم کی روک تھام کے لیے پولیس کا ادارہ اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں پولیس کے شعبہ کو ایک گالی سمجھا جاتا ہے۔ جدھر عوام پاک فوج سے محبت کا جذبہ رکھتی ہے وہیں پولیس کے شعبہ سے اپنی نفرت کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔
(جاری ہے)
پاکستان میں پولیس کو ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ حکمرانوں نے پولیس کے شعبہ میں اپنے پسندیدہ لوگوں کی بھرتیاں کر کے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ سانحہ ماڈل ٹاون ہو یا سانحہ ساہیوال ہو پولیس گردی کی ایسی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن کے لواحقین آج بھی انصاف کے طلب گار ہیں۔ ان واقعات میں ملوث افسران کو کچھ دیر معطل کرنے کے بعد اعلی عہدوں سے نوازا گیا. اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات موجود ہیں جن کی ایک لمبی فہرست ہے۔ شاید انہیں واقعات کی وجہ سے پولیس کا شعبہ عوامی اعتماد کھو چکا ہے۔
پولیس کے محکمہ میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ مگر ایک کہاوت ہے کہ 'ایک مچھلی پوری تالاب کو گندہ کر دیتی ہے'۔ اگر یہ افسران اپنی ڈیوٹی ایمانداری کے ساتھ کرنا چاہیں تو انہیں سیاسی دباو کی وجہ سے روک دیا جاتا ہے۔ ان کا اپنا سسٹم ہی ان کے خلاف ہو جاتا ہے۔ ہم مکمل طور پر پولیس کو اس سب کا ذمہ دار نہیں ٹہڑا سکتے۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم با حشیت قوم خود کیا ہیں۔ ہم پولیس کو اپنا محافظ سمجھنے کی بجائے اسے اپنے گھر کی لونڈی کیوں سمجھتے ہیں۔ ان ایماندار پولیس افسران کا کیا قصور ہے جو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ہماری حفاظت کرتے ہیں ۔ کبھی کسی نے پولیس اہلکاروں کے بارے میں نہیں سوچا کہ ان کے بھی گھر ہیں جدھر ان کے بہن بھائی بیوی بچے اور والدین ہیں۔ جب ہم لوگ اپنے تہوار منانے میں مصروف ہوتے ہیں تب یہی پولیس اہلکار اپنے گھر والوں سے دور ہماری حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔ کھبی کسی نے نہیں سوچا کہ پولیس والے اپنی تنخواہ میں کس طرح گزر بسر کرتے ہیں۔ ہمیں کیا ہمیں تو بس تنقید کرنی ہے ۔ اگر آپ نے کسی پولیس اہلکار کو رشوت دے دی تو بس آپ کی نظر میں تمام پولیس والے رشوت خوار ہیں۔ کبھی نہیں سوچا کہ جو ایمانداری کے ساتھ اپنی تنخواہ میں زندگی بسر کر رہا یہ رشوت خوری کا لفظ اس کے لیے کتنا تکلیف دہ ہو گا۔
اگر کوئی فوجی وطن عزیز پر اپنی جان نچاور کرتا ہے تو اسے شہید کہا جا تا ہے مگر جب کوئی پولیس اہلکار اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے مارا جائے تو اسے جان بحق کہا جاتا ہے۔ یہ دوہرے معیار آخر کیوں؟ جان تو دونوں نے وطن عزیز کی خاطر قربان کی ہے۔ پولیس کی نفری کم ہونے کی وجہ سے پولیس اہلکاروں سے ڈبل ڈبل ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ ہر حکمران پولیس ریفارمز کی بات کرتا ہے مگر پولیس کے حقوق کی بات کوئی نہیں کرتا۔
ہمیں پاکستانی افواج کے ساتھ ساتھ اپنے ملک میں موجود پولیس اہلکاروں سے بھی محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ وہ بھی دن رات اندرونی دشمنوں اور جرائم پیشہ افراد سے ہماری حفاظت کرتے ہیں۔ اگر آج بھی ہمارے ساتھ کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آجائے تو ہم سب سے پہلے 15 پر کال کرتے ہیں۔ ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم محکمہ میں چھپی کالی بھیڑوں کی وجہ سے ایماندار پولیس اہلکاروں کے لیے نا زیبا الفاظ استعمال کر کے ان کی دل آزاری نہ کریں وہ بھی اس وطن عزیز کے بہادر سپوت ہیں۔ اگر ہم نے اپنا دوہرا معیار نہ بدلہ تو ہر ایماندار پولیس افسر کے ذہین میں ایک ہی سوال ہو گا،،یہ دوہرا معیار آخرکیوں؟؟؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد اشعر سعید کے کالمز
-
آخر جنرل رانی تھی کون؟
منگل 1 جون 2021
-
کیا اگلی بار کوئی اور عائشہ؟
ہفتہ 6 مارچ 2021
-
نئے طریقے کی عید میلادالنبی
بدھ 28 اکتوبر 2020
-
امت مسلمہ کا لیڈر
اتوار 27 ستمبر 2020
-
سفر کربلا اور دور حاضر
اتوار 30 اگست 2020
-
جنت نظیر وادی میں فاشٹ سرکار کی گنڈا گردی کو 1 سال مکمل
بدھ 5 اگست 2020
-
قربانی یا سُنتِ ابراہیمی۔۔۔ ؟
پیر 27 جولائی 2020
-
کراچی کے کوچے کوچے میں کچرا
پیر 6 جولائی 2020
محمد اشعر سعید کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.