"انقلاب اور گھنگرو"

منگل 2 فروری 2021

Mohammad Faisal

محمد فیصل

انقلاب وہ لفظ ہے جو ہم صبح و شام اپنے سیاسی رہنماٶں سے سنتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی انقلاب کا داعی ہے۔ کوئی سرخ انقلاب لانا چاہتا ہے تو کسی کے پیش نظر سبز انقلاب ہے۔ آج ہمیں انقلاب انقلاب کھیلتے 70 برس سے زائد بیت چکے ہیں لیکن یہ انقلاب ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ انقلاب کا لفظ ہمارے ہاں اتنا مشہور ہے کہ لوگوں نے اس کو اپنے  نام تک کا حصہ بنالیا ہے۔

یہاں لوگوں نے اس نام سے اخبار اور جریدے بھی نکالے اور اسی انقلاب کے نام پر فلمیں بھی بن گئیں۔ یہاں کسی محمکے کا نیا سربراہ آجائے تو اس کا پہلا جملہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اس محکمے میں انقلاب برپا کردے گا۔ وزیروں،مشیروں اور سیاسی زعماٶں کی زبان سے تو انقلاب کا لفظ کلمے کی طرح جاری رہتا ہے لیکن یہ آخر ہے کہاں اور آئے گا کیسے اس کا علم شاید کسی کو نہیں ہے۔

(جاری ہے)


ہماری 70 برس کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے انقلاب کے نام پر صرف اپنی ذات اور خاندان کے زندگیوں میں ہی انقلاب برپا کیا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور خان لیاقت علی خان کو چھوڑ کر آپ اپنی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں آپ کو علم ہوجائے گا کہ ہمیں کیسے کیسے "انقلابی" رہنما میسر آئے ہیں اور انہوں نے ہمارے ساتھ انقلاب کے نام پر کیسا کھلواڑ کیا ہے۔

یہاں ایک گورنر جنرل ملک غلام محمد بھی گذرے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیماری کے باعث وہ بول بھی درست انداز میں نہیں سکتے تھے لیکن خود کو انقلاب کا شاہسوار سمجھتے تھے۔تاریخ بتاتی ہے کہ  انقلاب نام کی چڑیا ان کے دور میں ہمارے قریب سے بھی نہیں گذری۔
جنرل ایوب خان ہمارے پہلے فوجی حکمران تھے۔ انہوں نے بھی ملک میں انقلاب لانے کا سوچا اور اقتدار پر قابض ہوگئے۔

ان کے دور میں پہلی مرتبہ ملک میں صنعتی انقلاب کی بازگشت سنائی دی۔ لوگوں نے صنعتی پہیہ چلتا بھی دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ حالات تبدیل ہورہے ہیں لیکن فیلڈ مارشل ایوب خان کو ہر حکمران کی طرح تادم مرگ اقتدار میں رہنے کا جو سودا سمایا وہ ان کے زوال کا باعث بن گیا۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ایک دھاندلی زدہ  الیکشن میں شکست دے کر انہوں اپنی سیاست قبر خود کھود ڈالی اور اس کے بعد ان کا صنعتی انقلاب بھی چل بسا۔

ان کے پیشرو جنرل یحییٰ تو اتنے انقلابی تھے کہ ملک کو ہی دولخت کروادیا۔ان کے انقلاب کے "ثمرات" دیکھنے ہیں تو آج بھی بنگلہ دیش میں موجود محصورین پاکستان کے کیمپوں کو دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ انقلاب کا "یحیائی"تجربہ کتنا بھیانک تھا۔
روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ بذات خود ایک انقلاب تھا اور اس نعرے کے پیچھے موجود بھٹو صاحب کو بھی ایک کرشماتی شخصیت ہی کہا جاسکتا ہے۔

ایک نئے پاکستان کے اس ذہین وزیر اعظم کو قدرت نے موقع بھی دیا تھا کہ وہ اس ملک کے عوام کو حقیقی انقلاب سے روشناس کرائے لیکن وہ نجانے کن مصلحتوں کاشکار ہوا کہ ایک عام سیاستدان بن کر رہ گیا اور بھٹو صاحب کے پھانسی چڑھنے پر عوام کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ "ان کے انقلاب نے منزل کے قریب پینچ کر گھنگرو پہن لیے"۔
جنرل ضیاء نے انقلاب کے لیے وہ نعرہ استعمال کیا جو ہماری عوام کا من پسند ہے۔

ضیاء صاحب دس سال تک اسلامی انقلاب کے نام پر اسلام آباد میں اپنی کرسی مضبوط کرتے رہے۔ بہاولپور طیارہ حادثے کے بعد ان کا "انقلاب"منوں مٹی کے نیچے سوگیا۔
دختر مشرق بے نظیر بھٹواور خود کو اس زمانے میں قائد اعظم ثانی سمجھنے والے نواز شریف انقلاب کے نعرے تو لگاتے رہے لیکن ان کے دور اقتدار میں بھی عوام کی زندگیوں میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آسکی۔

ان دونوں رہنماٶں کے بعد ملک کو ایک "کمانڈو"میسر آیا جو کہتا تھا کہ "سب سے پہلے پاکستان" جنرل مشرف کی ترجیحات درست تھیں اور ان میں کچھ کرنے کا جذبہ بھی تھا۔ لیکن جب ایک فوجی حکمران اپنے ساتھ سیاستدانوں کو شامل کرلیتا ہے تو وہ نہ پھر فوجی رہتا ہے اور نہ سیاستدان اور پھر دو کشتیوں کا یہ سوار اپنے آپ کو ڈبو ہی لیتا ہے۔ مشرف کی اقتدار سے رخصتی کے وقت بھی ایسا ہی لگا تھا کہ انقلاب کی منزل قریب ہی تھی کہ اسے ایک بار پھر گھنگرو پہنادیے گئے۔


"تبدیلی" کے نعرے کے ساتھ ایک کھلاڑی جب ملک کے سیاسی میدان میں اترا تو اسے کسی نے بھی سنجیدہ نہیں لیا تھا لیکن 20 سال کی طویل سیاسی جدوجہد کے بعد وہ اپنا "تبدیلی"کا نعرہ عوام کے دلوں میں ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کی جدوجہد کا ثمر اسے اقتدار کی صورت میں ملا۔عوام اب اس سے تبدیلی چاہتے ہیں۔ دو نہیں ایک پاکستان چاہتے ہیں ۔ایسا لگتا تھا ابھی اتنا وقت نہیں گذرا حالات بدلیں گے لیکن تبدیلی کے دعویداروں کی ایک وڈیو کو دیکھ کر میں محو حیرت ہوں اور شہر قائد کی سڑکوں پر گورنر ہاٶس کی ایک لگژری گاڑی میں پروٹوکول کے ساتھ سیر کرتے ہوئے کتے کودیکھ کر سوچ رہاں کہ "تبدیلی والے انقلاب" نے تو منزل سے قریب تو کیا بہت پہلے ہی گھنگرو باندھ لیے ہیں۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :