طب کی تعلیم اور اداروں کی بے حسی؟

جمعہ 25 جون 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

 تعلیم حاصل کرنا، اللہ رب العزت نے ہر  مسلمان پر فرض قرار دیا ہے،غیر مسلم دنیا نے اس اسلامی حکم کو اپنایا اور آج سائنس،ٹیکنالوجی اور میڈیکل کی دنیا میں کارنامے انجام دے رہی ہے،ہمارے ہاں تعلیم و تدریس جو کبھی مقدس فریضے تھے اب وہ کاروبار بن چکے ہیں،تعلیمی ادارے طلباء کے والدین کی جیب پر نظر رکھتے ہیں اور طلباء کو بھی شائد  ڈگری اس لئے  حاصل کر نا ہوتی ہے  کہ  ملازمت کر سکیں،یہی وجہ ہے کہ تحقیق کی دنیا میں صرف پاکستان ہی نہیں اسلامی دنیا کا کوئی ہاتھ نہیں،جبکہ وہ علوم و فنون جن کی بنیاد پر آج مغربی دنیا ترقی یافتہ ہے ان کے بانی زیادہ تر مسلمان تھے۔

دنیا بھر میں طب کی تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے اور اسے مقدس پیشہ تصور کیا جاتا ہے،بنیادی طور پر میڈیکل کی تعلیم مسیحائی ہے دکھی اور بیمار انسانیت کی،مملکت خداداد میں ویسے ہی میڈیکل کی سہولیات روائتی ہیں،کسی پیچیدہ مرض کے علاج کیلئے آج بھی  اہل ثروت بیرون ملک جاتے ہیں،ستم یہ کہ جو تھوڑی بہت میڈیکل کی سہولیات حاصل ہیں بعض غیر پیشہ ور  لوگ  ان کی تباہی کا بھی سبب بن رہے ہیں۔

(جاری ہے)


    مملکت  خداداد  پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ مریضوں کیلئے ایک ڈاکٹر  ہے جبکہ عالمی معیار کے مطابق 70ہزار افراد کیلئے ایک ڈاکٹر کا دستیاب ہونا ضروری ہے،ملک بھر میں صرف 59سرکاری میڈیکل کالجز ہیں،اس ضرورت کو پرائیویٹ میڈیکل کالج پورا کر رہے ہیں جن کی تعداد سرکاری اداروں سے دگنا یعنی 114 ہے،ان اداروں کی نمائندہ تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن آف میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز ہے۔

پامی نامی اس تنظیم کے سربراہ چودھری عبدالرحمٰن  کی باتیں بڑی رلا دینے والی ہیں۔  انہوں  نے گزشتہ دنوں ایک  پریس کانفرنس  میں  بڑے  ہولناک انکشافات کئے، جن کے مطابق  نجی میڈیکل تعلیمی اداروں اور ان میں زیر تعلیم ہزاروں طالب علموں کے مستقبل سے ایک سازش کے تحت کھیلا جا رہا ہے مگر وزارت تعلیم اور متعلقہ ادارے خاموش تماشائی ہیں،پیشہ طب  اور اسکی  تعلیم  جو مقدس ترین ہے دونوں طفل مکتب قسم کے مفاد پرستوں کی بھینٹ چڑھے ہوئے  ہیں اور  ذمہ داران خاموش تماشائی ہیں،زد پر ہے تعلیم اور صحت مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی،بے حسی اور عاقبت نا اندیشی کی انتہا ہے۔


     چودھری عبدالرحمٰن نے اس موقع پرنجی میڈیکل کالجوں کو کنٹرول کرنے والے ادارے پی ایم سی کی کارکردگی خلاف وائٹ پیپر بھی جاری کیا،اور مطالبہ کیا کہ این ایل ای کی شرط واپس لی جائے اعلیٰ سطح کمیٹی بنا کر ہمارے مطالبات سنے جائیں ورنہ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوں گے، ان کے ہمراہ  دیگر  پامی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پی ایم سی نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے، علی رضانامی ایک وکیل کو پی ایم سی کا نائب صدر بنا دیا گیا ہے جن کا نہ میڈیکل سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی تعلیم اور تعلیمی اداروں سے کوئی تعلق،اپنی نا تجربہ کاری کے باعث موصوف بچوں کے مستقبل سے کھیلنے اور میڈیکل کالجز کو تباہ کررہے ہیں،وہ مقامی کالجزکی بجائے غیر ملکی میڈیکل کالجز کے مفادات کیلئے کام کررہے ہیں ،پامی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمن کا  کہنا تھا کہ  پامی 173میڈیکل اور
 ڈینٹل کالجز کی واحد نمائندہ جماعت ہے،  ملک میں چینی آٹے اور رنگ روڈ سے بڑا سکینڈل جنم لے رہا ہے جس میں  ایک منظم طریقے سے طبی تعلیمی اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہے کورونا وبا ء میں پوری دنیا میں طبی عملہ کی مانگ بڑھ گئی ہے پاکستان میں طبی تعلیمی اداروں پر نااہل لوگ مسلط کر دئیے گئے ہیں پی ایم سی کی صورت میں نا اہل لوگ اس اہم شعبہ پر مسلط ہیں،بدقسمتی ہے کہ ایک وکیل کے ہاتھ میں میڈیکل کالجز کی باگ  ڈوردے دی گئی ہے، علی رضا نامی یہ وکیل اقربا ء پروری کرتے ہوئے  اپنوں میں  ریوڑیاں بانٹ رہا ہے، علی رضا کا کیا میرٹ ہے وہ کیسے پی ایم سی کا نائب صدر بنا کسی کو نہیں معلوم،سوال یہ ہے کہ جو شخص خود میرٹ پر نہیں آیا وہ میرٹ پر کیسے عملدرآمد کرائے گا؟ ایڈمیشن ریگولیشن 2020ء کے نام پر سندھ کے میڈیکل کالجز کو تباہ کر دیاگیا،ماضی کی روایات کے منافی سرکاری اور نجی میڈیکل کالجز کے داخلے ایک ساتھ کھول دئیے گئے،ایسا پہلے کبھی نہیں ہواء، پہلے سرکاری پھر نجی کالجز کے داخلے ہوتے تھے،  ایم ڈی کیٹ میں کبھی دوہری شرط نہیں تھی مگر ایم ڈی کیٹ میں زمینی حقائق کے خلاف ایک نئی شرط لگا دی گئی،سندھ میں بارہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں داخلے نہیں ہوپائے اب وہ تمام کالج تباہی کے دہانے پر ہیں،ایم ڈی کیٹ کے نام پر میڈیکل کالجز کا قتل عام کیا جا رہا ہے،علی رضا پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ میں مقامی نجی میڈیکل کالجز کو ختم کر دوں گا وہ مقامی کالج تباہ کر کے غیر ملکی کالجز چلانا چاہتے ہیں،پروفیسر ڈاکٹر چودھری عبدالرحمن کا کہنا تھا کہ اگر کسی ملک کو تباہ کرنا ہو تو پہلے  اس کے تعلیمی ادارے تباہ کئے جاتے ہیں عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کا عالمی رینکنگ میں ایک سو بانوے میں سے ایک سو پینسٹھ وں نمبر ہے، گڈاپ میر پور خاص جیسے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں نجی میڈیکل کالج سہولیات دے رہے ہیں،پی ایم سی میں وکیل اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تو  موجود ہیں لیکن ایک بھی متعلقہ نہیں،ریاست ماں ہوتی ہے لیکن ہماری بات کوئی نہیں سن رہا،،ایک کالج پر اربوں روپے لگتے ہیں آپ انہیں بند کر رہے ہیں ایم ڈی کیٹ کا میرٹ راتوں رات چھبیس سے پینسٹھ کر دیا گیا، علی رضا کہتا ہے میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا،نوشیرواں برکی میرے ساتھ ہے لیکن مجھے نہیں لگتا نوشیرواں برکی کو ان معاملات کا علم ہو گا،یہ اداروں کا کام ہے کہ دیکھیں علی رضا کا کن لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے، ایڈمیشن ریگولیشن 2021 اور2022  میں عجیب معاملات ہیں،آغا خان میڈیکل کالج کو سہولیات دینے کیلئے کام ہورہا ہے،آغا خان میڈیکل کالج میں فیس زیادہ ہے کووڈ سے مرنے والا بھی وہاں پچاس لاکھ دے کر جاتا ہے،آپ نے عدالت میں لکھ کر دیا کہ کیٹگرائزیشن نہیں ہو گی لیکن اب ہو رہی ہے،ایم ڈی کیٹ کے نام پر کالجز کو بند کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔


   چودھری عبدالرحمٰن کا یہ  کہنا   بالکل  درست  کہ  ملک میں ہیلتھ کا انفراسٹرکچر پہلے ہی بہتر نہیں اس لئے  پی ایم سی  کو بچوں کے مستقبل سے کھیلنے اور میڈیکل کالجز کو تباہ کرنے کا کوئی  اختیار نہیں،  اگر این ایل ای کی وجہ سے بچے خودکشی کرتے ہیں تو کون ذمہ دار ہو گا؟  اس لئے  ڈاکٹر فیصل سلطان، نوشیرواں برکی اور فواد چوہدری پر مشتمل اعلیٰ سطح کمیٹی بنا کر  ان کے  تحفظات سنے جائیں اور مسائل کا حل نکالا جائے  جبکہ  صدر مملکت خود  ڈینٹسٹ ہیں وہ سندھ کے میڈیکل کالجز کو بچائیں ۔  میرے خیال میں حکومتی اداروں کو اس کا فوری نوٹس لینا ہوگا تاکہ کوئی بھی  ملک میں نجی طبی تعلیمی اداروں  کے ہزاروں طلبہ کے مستقبل سے نہ کھیل سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :