سیاست ،چودھریوں سے سیکھیں

بدھ 4 اگست 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

سیاست عملی طور پر اقتدار حاصل کرنے کا ہی نام ہے ،جو سیاسی جماعت  ایک طویل عرصہ اقتدار سے دور رہے اس کا وجود آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے ۔سیاست میں ٹائمنگ بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے  جو سیاسی جماعت وقت آنے پر درست فیصلے  نہ کر سکے  وہ بھی جلد یا بدیر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔سیاستدان عام طورپر دعویٰ کرتے ہیں کہ اقتداران کی منزل نہیں بلکہ وہ سیاست برائے خدمت کر تے ہیں مگر ہر جائز نا جائزراستہ سیاستدان اس کیلئے اپنانے میں ہچکچاہٹ محسو س بھی  نہیں کرتے،مگر کامیاب سیاستدان وہی ہوتے ہیں جو اپنی حکمت عملی،فہم اور تدبر کے ساتھ  دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کے لوگوں کے ساتھ  اچھا تعلق اور رابطے رکھیں۔

پنجاب کا چودھری خاندان بھی ایک ایسا خاندان ہے جو میری نظر میں سیاست اور سیاستدانوں کے لئے ایک اچھی مثال ہے۔

(جاری ہے)

یہ خاندان سیاست میں بھائی چارے،بات چیت  اور  مفاہمت   کی سیاست کی بات کرتا ہے   اور اس نے  اقتدار کونمود و نمائش اور ذاتی عیش و عشرت کاذریعہ بنانے کے بجائے ملک و قوم کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔چودھری خاندان جب نواز شریف کے ساتھ تھا تو نواز شریف نے دانستہ ان کو عوام سے براہ راست رابطے رکھنے والی اور با اختیار وزارتوں سے دوررکھا،اسکے باوجود اس خاندان نے پنجاب اور  عوام  کی ہر ممکن بہبود کیلئے بھر پور کام کیا،مشرف دور میں چودھری پرویزالٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دی گئی تو انہوں نے ریکارڈ ترقیاتی اور فلاحی اوررفاعی منصوبوں پر کام کیا،بعد میں آنے والے پنجاب کے حکمران انہی کے خطوط پر کام کر کے کامیابیاں سمیٹتے رہے،آج چودھری خاندان تحریک انصاف کا اتحادی ہے،پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ان  کی  مرہون منت ہے،اپوزیشن نے اس خاندان کی حمائت حاصل کر کے عثمان بزدارحکومت کو گرانے کی کوشش کی مگرچودھری خاندان نے ہر پیشکش کوپائے حقارت سے ٹھکرا دیا،دراصل یہ خاندان بانی چودھری ظہور الٰہی مرحوم کے دورسے ہی نئے سیاستدانوں کیلئے نرسری کی حیثیت رکھتا ہے،تعلق بنانااوراسے نبھانا کوئی چودھری خاند ان سے سیکھے۔

چودھری ظہور الہیٰ کے بعد چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہیٰ نے اسی سیاست کو آگے بڑہایا اور اب اس خاندان کے نوجوان سیاستدان چودہری مونس الہیٰ اسی عزم اور ولولے کے ساتھ آگے بڑھ  رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پانچ ارکان اسمبلی کیساتھ وفاق میں دووزارتوں کاحصول بلیک میلنگ کی وجہ سے ممکن ہواء  جو درست نہیں ،میں اسے    حصہ بمطابق اہمیت  کہوں گا  ، اسی وجہ سے پنجاب میں  چودھری پرویز الہیٰ  جیسے  منجھے  ہوئے اور جہاندیدہ  سیاستدان کو دی گئی،   لوگ حصہ برائے جثہ کے قائل ہیں مگر تحریک انصاف حکومت میں جواہمیت مسلم لیگ ق کو حاصل ہے اس کے مقابلے میں دو  وفاقی وزارتیں کچھ بھی نہیں ق لیگ کو اس سے زیادہ ملنا چاہئے تھا مگر چودھریوں نے اس کا تقاضا نہ کیا اور معاہدے کے مطابق   وزیر اعظم  عمران خان کی  طرف سے کئے گئے وعدے پر ہی اکتفا کیا  ،ق لیگ اگر اس سے زائد خود طلب کرتی تب اسے بلیک میلنگ کا نام دیا جاسکتا تھا،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چودھری خاندان سیاست کی ایسی درسگاہ ہے جہاں صرف خدمت خدمت اور خدمت کادرس دیا جاتا ہے،ماضی قریب میں میاں منظور احمد وٹو نے صرف18ارکان کیساتھ پنجاب میں حکومت بنائی اورکامیابی سے چلائی،چودھریوں نے بھی زرداری دور میں نائب وزارت عظمیٰ کا عہدہ حاصل کیا اورصرف خدمت اور عوامی مقبولیت کے زورپر،اس سے پہلے یہ عہدہ کسی کو ملانہ اس کے بعد،یہ بھی چودھری خاندان کی خوبی ہے کہ وہ دوست بناتے ہیں اور پھر دوستی نبھاتے ہیں،انہوں نے زرداری کی طرف سے اٹھنے والادوستی کا ہاتھ اسکے باوجودتھاما کہ چودھری پرویز الٰہی کو بینظیر قتل کیس میں باقاعدہ الزام دیا گیا ۔


پنجاب میں بطور سپیکر چودھری پرویز الٰہی سب کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں اور یہ بھی دراصل عثمان بزداراور تحریک انصاف حکومت کی مضبوطی اوراستحکام کیلئے ضروری ہے،تحریک انصاف کے باغی اور جہانگیر ترین گروپ کے سرگرم رکن نذیر چوہان  آج کل مشیروزیراعظم اکبر شہزاد کے خلاف بیانات دینے کے الزام میں گرفتار ہیں ، حکومت کی مخالفت کے باوجود ان کے  پروڈکشن آرڈر جاری کرنا بھی منحرف ارکان کو  قریب لانے کی کوشش تھی، پنجاب میں تحریک انصاف حکومت کو مستحکم کرنے میں چودھری  پرویز الہیٰ  کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے،مگر تعلق نبھانے کیلئے قربانی دی جارہی ہے جو  اس  خاندان کا خاصہ ہے،اگر اقتدار ان کی خواہش ہوتی توزرداری کی طرف سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش کو نہ ٹھکراتے،ان کی اسی ثابت قدمی، اولوالعزامی کا نتیجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد قیام کے فوری بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا،اورآج عضو معطل ہوکررہ چکا ہے،شائد مستقبل میں بھی یہ اتحاد یکیجہتی کامظاہرہ نہ کر پائے،تجزیہ نگار متفق ہیں کہ اگرپی ڈی ایم اتحاد وقت سے پہلے منطقی انجام سے دوچارہواء تواس کیوجہ چودھری خاندان کی مستقل مزاجی اور دوستی وتعلق نبھانے کی روائت اور وضعداری ہے۔


    مسلم لیگ ن بلوچستان،سندھ اور کے پی کے سے دیس نکالے کے بعد گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں بھی سکڑتی جارہی ہے،اس کی ایک وجہ تو نواز شریف کادیرینہ اورمخلص لیگی رہنماؤں کو کھڈے لائن لگاناہے مگراصل وجہ چودھری خاندان کا اسموقع پرانکے ساتھ نہ ہونا ہے،نواز شریف نے جب اپنے لانے والوں کیخلاف پہلی مہم جوئی کی توسامنے غلام اسحٰق تھے مگر چودھری خاندان نے انکوسیاست سے آؤٹ نہ ہونے دیا،انکے دوبارہ اقتدار میں آنے کے راستے بند نہ ہوئے دوسری مہم جوئی فاروق لغاری سے تھی اس میں بھی چودھری خاندان ساتھ تھا توانکی اقتدار میں واپسی کے راستے کھلے رہے،مگر جب پرویزمشرف سے نواز شریف نے محاذ آرائی کی تو چودھری ساتھ نہ تھے اور شریف خاندان کو دانستہ جلا وطنی اختیارکرناپڑی،آج بھی چودھری اگر ن لیگ کا حصہ ہوتے تواول وہ نواز شریف کوایسی فاؤل گیم ہی نہ کھیلنے دیتے لیکن اگر نوازشریف مہم جوئی کر جاتے توایسی نوبت نہ آتی کہ انکو وطن سے جھوٹ بو ل کر فرارہونا پڑتا،چودھریوں نے ہمیشہ نواز شریف کے جذباتی فیصلوں اورغیر محتاط اقدامات کی مخالفت کرکے انہیں بحرانوں سے بچایا،مگر اب نوازشریف نے پارٹی کی سربراہی  اپنی  بیٹی مریم نواز  کے سپردکردی ہے جس کیوجہ سے پارٹی کے سنجیدہ اور مفاہمت کی سیاست کرنے والے ان سے خفا ہیں،شہباز شریف بھی  اس فیصلہ کے حامی نہیں مگر کھل کر مخالفت کرنے سے گریزاں ہیں،انکی ناراضی کاثبوت آزادکشمیر الیکشن کی مہم سے خود کو عملی طورپر الگ رکھنا ہے،حالات بتا رہے ہیں کہ اگر مریم نواز نے ایسی ہی غیر ذمہ دارانہ اور بچگانہ سیاست کی تو گلگت بلتستان،آزادکشمیر کے بعدپنجاب میں بھی اس کیلئے جگہ نہیں رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :