پنجاب کے وزرا کیا کر رہے ہیں؟

اتوار 5 ستمبر 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

کابینہ کسی بھی ملک یا صوبے میں نظم و نسق،امور حکومت  چلانے کے لئے بنائی جاتی ہے ، یہ بالواسطہ یا بلا واسطہ   ملک یا صوبے کی پارلیمنٹ کے ماتحت کام کرتی ہے اور وفاقی حکومت کی صورت میں  وزیر اعظم اور صوبائی حکومت میں وزیر اعلیٰ اس کا سربراہ ہوتا ہے ۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور یہاں اسکے مطابق  ہی  کابینہ  کا سائز بھی  ہے  ۔

صوبائی وزیر ،مشیر،سپیشل اسسٹنٹ اور پھر پارلیمانی سیکرٹری ،یہ سب اسمبلی،اسمبلی سے باہر ، سیاسی،غیر سیاسی  حکومتی کاموں کی ترویج اور عوام کی آگاہی کے لئے  ہوتے   ہیں مگر اس وقت پنجاب میں یہ  سب حکومتی مصاحبین کیا کر رہے ہیں کسی کو کچھ پتہ نہیں،انکی اکثریت صر ف کابینہ کے اجلاس میں ہی نظر آتی ہے اسمبلی میں بھی یہ خال خال ہی نظر آتے ہیں،اسی لئے عوام کہتے ہیں کہ یہ لوگ جھنڈے  اور ڈنڈے کے لئے منتخب ہوتے ہیں قانون سازی اور عوامی خدمت کے لئے نہیں۔

(جاری ہے)

غالب کا شعر ہے
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ  شہر میں غالب کی آبرو  کیا  ہے
ایک سو کے قریب پنجاب کے یہ وزیر،مشیر،پارلیمانی سیکرٹری وزیر اعلیٰ کی ٹیم  کہلاتے  ہیں مگر  چند ایک کے نام چھوڑ دیں تو باقیوں کے نام عوام تو درکنار  خود وزیر اعلیٰ کو بھی یاد نہیں ہوں گے ،سوال مگر یہ ہے کہ کیا اکیلے عثمان بزدار حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے پنجاب کو ترقی خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کر سکیں گے  ،انکی کابینہ کے ارکان،پارٹی رہنماء اور منتخب ارکان کہیں دکھائی نہیں دیتے،جہاں وزیراعظم عمران خان موجود ہوں وہاں سب کی حاضری یقینی ہوتی ہے،جہاں وزیراعظم نہ ہوں وہاں سے صوبائی وزراء اورارکان کی اکثریت غائب ہوتی ہے،بہت سے وزراء تواپنے دفاتر میں بھی دکھائی نہیں دیتے،وزارت کے کاموں میں بھی انکی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے،تحریک انصاف کے وزراء اور منتخب ارکان کی ساری دلچسپی اپنے حلقہ انتخاب تک   محدود ہے،اپنے ووٹرز کے مسائل اوران کے کام کرانے کی فکر میں ہر وقت دبلے ہوتے دکھائی دیتے ہیں،وزیر اعلیٰ سے ملاقات اور دلچسپی بھی اپنے ذاتی کاموں تک محدود ہوتی ہے،تاہم خوش کن بات یہ ہے کہ بیوروکریسی میں سے کچھ  لوگ غربت،جہالت کیخلاف جنگ اور ترقی و خوشحالی کے سفر میں ان کیساتھ شانے سے شانہ ملائے کھڑے ہیں،مگر بیوروکریسی و ہ  خدمات اور امور کیسے انجام دے سکتی ہے جو وزراء اور منتخب لوگوں  کی ذمہ داری ہے،اپنی وزارت اور متعلقہ اداروں سے متعلق حقیقی مسائل سے صرف وزیر ہی آگاہ ہوتے ہیں اور وہی اسکی صحیح نمائندگی کر سکتے ہیں مگران کی نمائندگی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔


پنجاب  کابینہ کے ارکان اگر پورے اخلاص اور ایثار سے کام کرتے  تو گزرے تین سال میں بہت کچھ ہو سکتا تھا،جس سے آج پنجاب کا نقشہ ہی کچھ اورہوتا،ترقی و خوشحالی کی منزل بہت قریب ہوتی،عوام خوشحال اور صوبہ انتظامی طور پر آج مضبوط اور امن کا گہوارہ ہوتا، ہم  یہ نہیں کہتے کہ صوبائی وزراء نا اہل  ہیں ،بد دیانت  ہیں یا  غیر ذمہ دار،مگر ان کی دلچسپیاں کچھ اور ہیں،
انکا ہدف  ٹیم لیڈر  کے ہدف سے یکسانیت نہیں رکھتا،ایسا نہیں کہ سب وزراء ایسے ہیں،کچھ ایسے بھی ہیں جو صدق دل سے پوری دیانتداری کیساتھ  حکومتی اور پارٹی  ایجنڈے کو لے کر آگے چل رہے ہیں،مگر ترقی و خوشحالی کیلئے پوری ٹیم کا رو بہ عمل آنا ناگزیر ہے ہے،ہروزیر کو اپنی وزارت کی حد تک جوابدہ ہونا ہوگا،ذمہ داری کا  یہ احساس بطور فرد نہیں معاشرہ اور ٹیم کا رکن ہونے کی حیثیت سے اپنے اندرجگانا ہو گا۔


موجودہ کابینہ  کے بارے میں وزیر اعلیٰ کے ایک انتہائی قریبی  ساتھی سے میں نے پوچھا کہ کام کرنے والے مخلص  اور محنتی کچھ  وزرا کے نام بتائیں تو انہوں نے کہا کچھ؟ صرف ایک  دو  نام ہیں جو اسمبلی،اپنے محکموں،پارٹی اور عوام کے لئے کام کر رہے ہیں باقی تو صرف مزہ لے رہے ہیں  ۔میں نے اپنے طور پر سوچا تو مجھے وزیر قانون راجہ بشارت  ہر وقت متحرک دکھائی دیتے ہیں،لاہور والے میاں اسلم اقبال کام کرتے نظر آتے ہیں ،ٖفیاض الحسن چوہان،مراد راس،ڈاکٹریاسمین راشد  بھی موجود دکھائی دیتے ہیں ،کبھی کبھی حسین جہانیاں گردیزی اور سردار آصف نکئی بھی دکھائی پڑتے ہیں مگر باقی سب کہاں ہیں؟
 وزراء اگراپنی ذمہ داری کااحساس کرتے تو پولیس اصلاحات تشکیل پا کر  نافذ ہو چکی ہوتیں،ہر وزیراوررکن اسمبلی جانتا ہے کہ پولیس گردی اور تھانہ کلچرسے نجات عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے،غریب بے بس عوام کی  اکثریت جس قدرجرائم پیشہ افراد سے خوفزدہ ہیں اس سے زیادہ پولیس والوں سے ڈر اور خوف ان کے ذہن میں ہے بلکہ اب یہ ڈر شائد نفرت میں تبدیل ہو چکا ہے،عوام کی دوسری اہم ضرورت اختیارات کی تقسیم اور نچلی سطح پرمنتقلی ہے اورایسا بلدیاتی نظام کے بغیر ممکن نہیں،مگر تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بلدیاتی نظام بارے اصلاحات کو حتمی شکل نہیں دیجاسکی،حالانکہ بلدیاتی نظام کے متحرک اورفعال ہونے سے حکومتی اداروں،تھانوں،عدالتوں پر بھی کام کا بوجھ کم ہو گا،عوام کو گھر کی دہلیز پر انصاف مل سکے گا،مگر حکومت اب تک پنچائتی اور بلدیاتی نظام میں سے کسی کا انتخاب نہیں کر پائی،ماتحت عدلیہ میں بھی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے مگراس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا،صحت اور تعلیم کے شعبے بھی ریفارمز کے حاجت مند ہیں،اور معیار تعلیم بلند کرنے کیلئے یہ بہت ضروری ہیں،مگر اب تک کے اقدامات  روائتی تھے،وجہ متعلقہ وزیروں کی لا تعلقی ہے،وزیر اعلیٰ تو گائڈ لائن دے سکتے ہیں،اپنا ایجنڈا وزرا ء کو دے سکتے ہیں،ہدف کے بارے میں بتاسکتے ہیں عملی اقدامات بہر حال وزراء نے بروئے کار لانا ہوتے ہیں۔


یہاں مگر ہر کام خودوزیراعلیٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں،اور اکیلا شخص خواہ وہ کتنا  ہی انرجیٹک ہو سب کچھ نہیں کرسکتا،اوراگر کرے گا تو کہیں نہ کہیں خامی رہ جائے گی،غلطی کا امکان بھی ہو گا،پھر ہر کسی کی زبان سے تنقید کے کوڑے برسیں گے ،اس صورتحال سے نبٹنے کیلئے  ضروری ہے  کہ  وزرا  بیوروکریسی کو اعتماد میں لے کر اور ان کے ساتھ مل کر  ریفا مز کی تشکیل کیلئے  کام کریں ،اعلیٰ تعلیم اورتربیت یافتہ بیوروکریسی جومروجہ قوانین سے بھی آگاہ ہے اور محکمہ جاتی بائی لاز سے  بھی واقف ہے یہ لوگ وزراء سے مل کر  بہتر ریفامز متعارف کرا سکتے ہیں،کہ مروجہ نظام میں پائی جانے والی خامیوں پر بھی ان کی نگاہ ہے،خوبی خامی،سود و زیاں سے آگہی رکھنے والے ہی
 بہتر ریفامز   تشکیل دے سکتے ہیں،ورنہ قانون سے بے خوف اور پولیس سے خوفزدہ اس معاشرہ کیلئے کوئی بھی قانون اور ضابطہ کار گر نہیں ہو سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :