کورونا وبا کی دوسری لہر میں شدت

جمعہ 27 نومبر 2020

Mubashir Mir

مبشر میر

کورونا وبا کی دوسری لہر میں شدت اور مہلک پن میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔کراچی شہر کے متعدد علاقے سیل کردیئے گئے ہیں ۔تقریبات کے حوالے سے بھی سخت اقدامات تجویز کیے جارہے ہیں ۔سب سے زیادہ مسائل مارکیٹ اور بسوں میں ہیں ۔تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ بھی کورونا کا شکار ہوگئے ہیں ۔وہ بہت ہی متحرک رکن اسمبلی ہیں ۔

سندھ اسمبلی کے پہلے بھی کئی اراکین کورونا وبا کا شکار ہوچکے ہیں ۔ابھی حال ہی میں پیپلزپارٹی کے رکن جام مدد علی اسی وبا کی وجہ سے خالق حقیقی سے جاملے ۔جام مدد علی پہلے مسلم لیگ فنکشنل میں تھے ۔بعد ازاں انہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔کورونا وبا میں تیزی آنے سے سیاسی سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں ۔

(جاری ہے)

متحدہ اپوزیشن نے پشاورکے بعد پنجاب میں جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی جلسوں میں شرکت کررہے ہیں ۔

ڈاوٴیونیورسٹی نے کورونا وبا سے نجات کے لیے میڈیسن بنانے میں پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے ۔
ایم کیو ایم پاکستان سیاسی طور پر کچھ متحرک ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اس کے جلاوطن متعدد راہنما پاکستان آنے کے لیے تیار ہیں ۔چند ایک واپس پاکستان پہنچ چکے ہیں لیکن ابھی خاموش ہیں ۔سابق گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان اور کچھ سابق وفاقی وزراء ،صوبائی اسمبلی کے سابق اراکین اور راہنما میڈیا کے نمائندوں سے ٹیلی فونک روابط بڑھانے اور بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔

ان کے حوالے سے خبریں بھی شائع ہونا شروع ہوچکی ہیں ۔گویا انہوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کردیا ہے ۔اس حوالے سے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے تشویش کا اظہار کیا ہے ۔انہوں نے ایسی سرگرمیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خالد مقبول صدیقی پر دورہ بھارت میں پاکستانی پاسپورٹ جلانے کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کو نیا کردار دینے کی کوشش اگر مقتدر حلقوں کی طرف سے ہورہی ہے تو کیا کراچی کو دوبارہ اسی مشکل میں تو نہیں ڈال دیا جائے گا ۔


متحدہ اپوزیشن کے جلسے میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے لیے جنوری کی تاریخ دی ہے ۔بلاول بھٹو زرداری شاید بھول رہے ہیں کہ اگر یہ نظام لپیٹ دیا گیا تو صوبہ سندھ میں ان کی پارٹی کی حکومت بھی ختم ہوسکتی ہے ۔وزیراعلیٰ سندھ کا نیب میں مقدمہ بھی سنجیدہ دکھائی دیتا ہے ۔لہذا حکومت یا نظام کی تبدیلی میں پیپلزپارٹی براہ راست متاثر ہوگی ۔

سندھ حکومت اس حوالے سے مسلسل تنقید کی زد میں ہے ۔بارشوں کے بعد جو صورت حال شہر کراچی کی ہوئی اس کے بعد ابھی تک کمشنر /ایڈمنسٹریٹر کراچی کی کارکردگی متاثر کن نہیں ۔ڈپٹی کمشنر کا نظام کسی صورت بھی بلدیاتی نظام کا نعم البدل نہیں ۔یہ نظام بلدیاتی نظام کا معاون ضرور ہے لیکن کلی طور پر مسائل کا حل پیش نہیں کرتا ۔صفائی کے مسائل ہوں یا مہنگائی کے کمشنر کراچی کا آفس مکمل طور ناکام دکھائی دیتا ہے ۔

اسی طرح اسٹریٹ کرائمز بھی دن بدن بڑھتے جارہے ہیں ۔مصطفی کمال کی بات میں بہت وزن ہے کہ کمیونٹی پولیس کا نظام اسٹریٹ کرائمز میں کمی لاسکتا ہے لیکن اس سے پہلے ایک بہتر بلدیاتی نظام نافذ کرنا ہوگا ۔سیاسی خاندان کبھی بھی اس کی حمایت نہیں کریں گے ۔اگر سپریم کورٹ 2016ء کی طرح ا س کا نوٹس لے تو شاید اس میں پیش رفت ہوسکے ۔اسٹریٹ کرائمز کے رواں سال کے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں وہ بہت خطرناک حد کو چھوچکے ہیں ۔

سی پی ایل سی (سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی) کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اب تک 322شہری قتل کیے گئے ہیں ۔بھتہ خوری کی 17وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں ۔اغوا برائے تاون کے دو اور بینک ڈکیتی کی ایک واردات ہوئی ۔کراچی کے شہریوں سے 18ہزار موبائل فون چھینے گئے اور 13ہزار سے زائد گاڑیاں چوری یا چھینی گئیں ۔حیرت انگیز طور پر 30ہزار موٹرسائیکلیں بھی شہریوں سے چھین لی گئیں یا چوری کی گئیں ۔

اس سے شہر کی امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔شہر کراچی سیکڑوں کچی آبادیوں میں گھرا ہوا ہے ۔ایسی بستیاں جرائم پیشہ افراد کے لیے کسی محفوظ جنت سے کم نہیں ۔معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ایسے جرائم پیشہ افراد پیدا کررہی ہے جس کا مداوا موجودہ سیاسی نظام نہیں کرسکتا ۔اس پر قابو پانے کے لیے انقلابی اصلاحات ناگزیر ہیں لیکن کوئی سیاسی جماعت ایسا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں جس سے معاشرے کی تطہیر ہو اور ان کا مفاد پرستانہ نظام الٹ جائے ۔

انقلابی اصلاحات کے لیے عوام تو تیار ہوسکتے ہیں لیکن سیاسی راہنما قطعاً نہیں ۔سیاسی جماعتوں میں پناہ لیے ہوئے مافیا کے نمائندے بھی انقلابی تبدیلیوں کے حق میں نہیں ۔حکومت صوبائی ہو یا وفاقی اپنے ہی فیصلوں پر عمل درآمد کرانے میں کبھی کلی طور پر ناکام نظر آتی ہے اور کبھی جزوی طورپر کامیاب ،کراچی سرکلر ریلوے اس کی ایک عمدہ مثال دی جاسکتی ہے ۔

اس منصوبے کی بحالی پر بہت سیاست ہوئی اور بالآخر ایک لوکل ٹرین چلادی گئی جو کہ سرکلر ریلوے کا جزوی حل ہے ۔یہی ٹرین پہلے بھی چلائی گئی تھی جسے کچھ عرصہ بعد بند کردیا گیا تھا ۔اب اسے نئے نام سے دوبارہ چلادیا گیا ہے ۔کراچی کے شہریوں کے مسائل اس سے شاید ہی کم ہوسکیں لیکن مستقل حل کے لیے مکمل طور پر سرکلر ٹرین کا چلایا جانا ضروری ہے ۔سیاسی جماعتیں اس پر متفق ضرور ہیں لیکن عمل درآمد کروانے کے حوالے سے سیاست شروع ہوجاتی ہے ۔


وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کورونا کے مہلک اور زیادہ تیز ہونے کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔آن لائن پڑھائی اگرچہ اس کا جزوی حل ہے لیکن والدین کی رائے ہے کہ اس طرح ان کے بچے صحیح انداز سے استفادہ نہیں کرسکتے ۔تعلیمی ادارے اپنی فیسیں مکمل طور پر وصول کررہے ہیں لیکن آن لائن پڑھائی تعلیم و تربیت کے مقاصد پورے کرنے میں ناکام ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :