کراچی میں اپوزیشن کا جلسہ

جمعرات 22 اکتوبر 2020

Mubashir Mir

مبشر میر

اپوزیشن کا جلسہ دراصل سانحہ کارساز 18اکتوبر 2007کی یاد میں ہونے والے تعزیتی اجتماع کے ساتھ جوڑا گیا تھا ۔ اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پاکستان واپس تشریف لائی تھیں ۔شاہراہ فیصل پر ہونے والے دو بم دھماکوں نے 200سے زائد افراد کی جان لے لی تھی ۔پانچ سو کے لگ بھگ زخمی بھی ہوئے تھے ۔آج تیرہ برس گزرنے کے بعد بھی اس سانحہ کی تحقیقی رپورٹ مکمل نہیں ہوئی جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی مسلسل صوبہ سندھ میں برسراقتدار ہے ۔

سانحہ کارساز کے وقت محترمہ بے نظیر بھٹو نے بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور چوہدری پرویز الٰہی پر الزام لگایا تھا ۔چوہدری پرویز الٰہی بعد ازاں پیپلزپارٹی حکومت کے اتحادی بن گئے اور ڈپٹی وزیراعظم کی حیثیت سے کام کیا ۔بریگیڈیئر اعجاز شاہ ،موجودہ وفاقی وزیرداخلہ ہیں ۔

(جاری ہے)

اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے جسٹس (ر)ڈاکٹر غوث محمد کی سربراہی میں انکوائری ٹریبونل قائم کیا اور 40گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے ۔

2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت میں صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ایک نیا ٹریبونل قائم کرنے کا اعلان کیا جو آج تک قائم نہیں ہوا ۔البتہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے 2012میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کی سربراہی ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کو دی گئی لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا ۔اس مقدمے کے دو اہم گواہ خالد شہنشاہ اور بلال شیخ جو بلاول ہاوٴس کے بھی سکیورٹی انچارج تھے ،ٹارگٹ کلنگ کے الگ الگ واقعات میں مارے گئے ۔

18اکتوبر 2017کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اعلان کیا تھا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں پانچ رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے لیکن اس کمیٹی کی کوئی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی ۔جو لوگ اس سانحے میں مارے گئے ان کے لواحقین کن حالات میں زندہ ہیں یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔جہاں ان کی شہادت پر فقط جلسے ہی منعقد ہوسکے وہاں ان کے لواحقین کی کون سنتا ہے ۔

ایسا ہی حشر جنرل ضیاء الحق کے دور میں کوڑوں کی سزا ملنے والوں کا ہوا تھا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ان کی توقعات پوری نہیں ہوئی تھیں ۔
موجودہ جلسہ جس کو پی ڈی ایم کا اجتماع قرار دیا گیا تھا ۔اس میں نون لیگ کی توقعات پوری ہونا تو کجا ان کے ساتھ مسائل کا انبار لگ گیا ۔سابق صدر آصف علی زرداری ناسازی طبع کے باعث اسپتال میں داخل تھے لہذا ایک بڑی مدد ملنا ناممکن ہوگیا ۔

نون لیگ کی سر توڑ کوشش کے باوجود پیپلزپارٹی جو میزبان تھی اس نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی تقریر جلسہ گاہ میں بذریعہ ویڈیو سنانے سے اتفاق نہیں کیا ۔مولانا فضل الرحمن اور دیگر اکابرین بھی پیپلزپارٹی کی قیادت کو قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔اس طرح گوجرانوالہ جلسے کا انداز برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا ۔مریم نواز نے اپنی تقریر مختصر رکھی اور کوئی جوشیلا انداز اختیار نہیں کیا ۔

انہوں نے تنقید کا ہدف وزیراعظم عمران خان کو ہی رکھا لیکن یہ بھی کہا کہ ہماری لڑائی بڑوں کے ساتھ ہے ۔گویا اس تحریک میں فقط میاں نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ ایک ہے ۔باقی سب کا علیحدہ ایجنڈا نظر آرہا ہے ۔ڈاکٹرعبدالمالک سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کی تقریر اپنے ایجنڈے کے لحاظ سے درست تھی لیکن الفاظ کا چناوٴ ایسا تھا کہ وہ وفاقی نہیں بلکہ صوبائی حکومت سندھ کے خلاف تصور کیا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے لوگوں کی لیاری اور ملیر میں حالت زار کا ذکر کیا ۔

جلسے میں لوگوں کی تعداد بہت زیر بحث رہی لیکن یہ بات بہت حیران کن بھی تھی کہ پورے سندھ سے لوگوں کو لایا گیا تھا اور ان میں سے بیشتر افراد کو علم بھی نہیں تھا کہ وہ کس لیے یہاں جمع ہیں ۔شہر کراچی کے لوگ اس طرح اس جلسے سے بھی لاعلم تھے کہ ان کی شرکت کراچی کی آبادی کے تناسب سے کسی طرح بھی موزوں نہیں تھی ۔پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ (ن)،جے یو آئی (ایف)اگر چہ کراچی اور سندھ میں بڑی تعداد میں ممبران رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن غالباً جلسے کی کامیابی اس کے بجٹ سے مشروط ہے ۔

کوئی بھی سیاسی جماعت جو جلسے کا خاطر خواہ بجٹ خرچ کرنے پر آمادہ ہو اسے زیادہ سے زیادہ لوگ میسر آسکتے ہیں ۔
مزارقائد پر مسلم لیگ (ن)کی راہنما مریم نواز کی حاضری کے موقع پر ان کے شوہر کیپٹن صفدر نے بہت جذباتی انداز اختیار کیا اور مسلم لیگ (ن) کے بیانیے کے مطابق نعرے بازی شروع کی اور ان کی آواز پر وہاں پر موجود لیگی کارکنوں نے بھی ان کا ساتھ دیا ۔

تحریک انصاف کے راہنما حلیم عادل شیخ ،خرم شیر زمان اور دیگر اراکین اسمبلی نے ایف آئی آر کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا لیکن پولیس نے مسلسل انکار کیا ،رات گئے کارروائی عمل میں لائی گئی جس کے متعلق مسلم لیگ (ن)نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی جی پولیس کے ذریعے سے ایف آئی آر کا عمل مکمل کیا اور کیپٹن صفدر کو ہوٹل سے گرفتار کیا گیا ۔مولانا فضل الرحمن ،مریم نواز اور راجہ پرویز اشرف نے پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ اسی دوران کیپٹن صفدر کو ضمانت مل گئی جو ایف آئی آر کاٹی گئی اس کے مدعی وقاص نامی شخص ہے ،جس نے خود کو ایک کاروباری آدمی ظاہر کیا ہے ۔


صوبائی وزیراطلاعات سید ناصر حسین شاہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وفاقی حکومت کی کارروائی ہے ۔پولیس اگر صوبائی حکومت کے ماتحت ہے تو ان کی اس بات میں کوئی وزن نہیں ۔مسلم لیگ (ن)اس جلسے سے کھ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی مزار قائد پر نعرہ بازی کے بارے میں کسی نے کیپٹن صفدر کے لیے کوئی کلمہ خیر نہیں کہا ،یوں قومی سطح پر مسلم لیگ (ن)کی سیاسی ساکھ متاثر ہوئی ہے ۔


اقتصادی صورت حال اس وقت بہتری کی جانب بڑھ رہی ہے لیکن اپوزیشن کی تحریک سے یہ متاثر بھی ہوسکتی ہے ۔ڈالر ریٹ میں بھی بہتری آرہی ہے حکومت کی جانب سے اقتصادی شعبے کے اقدامات سے کاروباری طبقے کا اعتماد بڑھ رہا ہے اگر اپوزیشن زیادہ مسائل پیدا نہ کرسکی تو پاکستان اقتصادی طور پر زیادہ کامیابیاں حاصل کرسکے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :