دل دہلادینے والا مچھ واقعہ

پیر 11 جنوری 2021

Mubashir Mir

مبشر میر

سال گذشتہ کا آخری ہفتہ بھی سیاسی طورپر قابل ذکر رہا۔ سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی 13ویں برسی پر لاڑکانہ میں جلسہ اور مریم نواز کی شرکت قابل ذکر تھی، جبکہ اپوزیشن تحریک کے روح رواں مولانا فضل الرحمن کی عدم شرکت سے بہت سے سوال اٹھے۔ لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی ایک نشست مسلسل ہاررہی ہے۔ وہاں کا ووٹر جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کی حمایت کرتا ہے ، یقینا مولانا فضل الرحمن اپنے ان ووٹرز کو سیاسی خیرسگالی کا یہ پیغام نہیں دینا چاہتے تھے۔

جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کی لاڑکانہ قیادت اس حق میں نہیں ہوگی کہ مولانا پیپلز پارٹی کے اسٹیج پر بیٹھ کر مختلف تاثر دیں۔ سندھ قیادت نے شرکت کی، سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو شہید کی برسی پر ان کے قتل کے معمے پر ایک مرتبہ پھر کھل کر اظہار خیال ہوتا رہا۔

(جاری ہے)

ان کے موبائل فون بلیک بیری کے ڈیٹا کا ریکارڈ اور ان کے وصیت نامہ کے حوالے سے جتنی بھی گفتگو ہوئی ہے، پیپلز پارٹی اس کا کوئی مؤثر جواب دینے سے قاصر ہے۔


لاڑکانہ کے جلسے کے بعد پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے فیصلے دھماکہ خیز تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اس اعلان کے بعد کہ ہم سینٹ اور ضمنی الیکشن میں حصہ لینے جارہے ہیں، ایک بڑی سیاسی ہلچل تھی۔ ان کے اس اعلان سے اپوزیشن کی تحریک میں دم خم کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اپوزیشن کی تحریک کے آغاز سے ہی یہ کہا جارہا تھا کہ پیپلز پارٹی ہی وہ پہلی پارٹی ہوگی جو مختلف نقطہ نظر اختیار کرسکتی ہے۔

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ تحریک انصاف سندھ اس موقع پر پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی میں مشکل صورتحال سے دوچار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف سے زیادہ پی ڈی اے کی رہنما نصرت سحر عباسی پیپلز پارٹی کو مشکل حالات سے دوچار کرتی ہیں۔ نصرت سحر عباسی نے کرپشن اور اقربا پروری کے حوالے سے سندھ اسمبلی میں شاندار تقاریر کی ہیں۔

تحریک انصاف کی خاتون رکن ڈاکٹر سیما ضیاء بھی بہتر پرفارم کرتی رہی ہیں، خرم شیر زمان کے علاوہ دوسرا کوئی رہنما اپوزیشن کی تحریک کے دور میں جارحانہ انداز نہیں اپنا سکا ۔
کراچی کی مردم شماری ایک مرتبہ پھر زیربحث ہے، اس وقت تقریباً ہر پارٹی چاہتی ہے کہ اس کو ریویو کیا جائے، پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں اس کو زیربحث لایا جائے۔

وزیراعظم عمران خان نے ایم کیو ایم کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے نظرثانی پر کام کرنے کا عندیہ دیا۔ ایم کیو ایم حکومتی پیشرفت سے مطمئن نہیں، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان صوبائی سطح کے رابطے جاری ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے ایم کیو ایم پاکستان کے دفتر کا دورہ کیا اور مردم شماری کے ایشو پر متفقہ موقف اپنانے پر بات ہوئی۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف کے مقابلے میں ایم کیو ایم پاکستان سے زیادہ مؤثر رابطہ رکھے ہوئے ہے اور ایم کیو ایم بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے پرتولتے رہتی ہے، لیکن دھمکی آمیز بیانات کے علاوہ کسی بڑے فیصلے کی ان سے توقع نہیں ، یوں یہ سلسلہ بیانات کی نذر ہی ہوتا رہے گا۔


سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہونے والی سماعت کے بعد 9مئی 2019ء کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے 24دسمبر2020ء کا تفصیل جاری کردی گئی ہے ۔ سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو سرزنش کی ہے اور وزیراعلیٰ سندھ نے اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا ہے، گورننس کا عجب انداز ہے کہ انتظامیہ اور حکومتی امورمیں غفلت کرتی ہے، پھر عدالت ان کو سرزنش کرکے احکامات جاری کرتی ہے اور پھر احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کی پاداش میں کوئی سزا تجویز کیے بغیر ایک مرتبہ پھر سرزنش کرتی ہے اور عملدرآمد کیلئے پھر فیصلہ صادر کرتی ہے۔

اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ ابھی بھی احکامات پر عملدرآمد کس رفتار سے ہوگا۔
کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بھی ایک مرتبہ پھر فیصلہ صادر کیا گیا ہے، تجاوزات کے خاتمے کی بھی بات ہوئی ہے اور کراچی کے عوام کیلئے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں گرین لائن منصوبے پر عملدرآمد کا فیصلہ بھی آیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اب کی مرتبہ کراچی کے عوام کو اچھی خبر ملے گی۔


بلوچستان کا واقعہ ایک مرتبہ پھر دل دہلا دینے والے واقعات کی یاد تازہ کرگیا، مچھ کے مقام پر کوئلہ کی کان میں کام کرنے والے مزدور جن کا تعلق بلوچستان کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری سے تھا، ان کو شناخت کرکے قتل کیا گیا۔ بلوچستان میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ ایک عرصہ سے کی جارہی ہے۔ ایک محتاظ اندازے کے مطابق اب تک ایک ہزار افراد سے زائد ہزارہ بچے، جوان، خواتین اور بوڑھے اس دہشتگردی کا شکار ہوچکے ہیں۔

ہزارہ برادری کیلئے آسٹریلیا نے تقریباً دس ہزار افراد کو اپنے ہاں مستقل رہائش کی پیشکش کی تھی اور ان کے افراد نے اس کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا اور کئی ہزار لوگ آسٹریلیا جاچکے ہیں۔ لیکن ابھی تک دہشتگردی کا عفریت ہمارے معاشرے میں خوف پھیلائے ہوئے ہے۔ سوشل میڈیا میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ سیکورٹی کی کئی چیک پوسٹیں اس علاقے میں موجود ہیں ، لیکن دہشتگرد اتنے چالاک، شاطر اور طاقتور ہیں کہ اس کے باوجود وہ واردات کرنے میں کامیاب رہے۔


صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی کراچی کا دورہ کیا اور کاروباری برادری کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل پر بات کی۔ گیس بحران نے کراچی کے صنعتی علاقوں سمیت رہائشی اور کمرشل علاقوں میں مسائل پیدا کررکھے ہیں، انڈسٹری اس بحران کی وجہ سے بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔ سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والا صوبہ سندھ گیس کی کمی کا شکار ہے، وفاقی حکومت کو اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔


گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی گرین لائن منصوبے کے تحت وفاقی حکومت کی جانب سے چند بسیں فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، سپریم کورٹ کے حکم سے ریلوے نے کئی اہم زمینیں واگذار کروائی ہیں۔ ایک ٹیکسٹائل کمپنی کے گودام کو خالی کروایا گیا ہے جو گذشتہ 25برس سے خالی کروانا ایک چیلنج تھا۔ کورونا وائرس کی ویکسین کے تجربے کراچی کے آغا خان ہسپتال، ڈاؤ اور انڈس ہسپتال میں رضاکارانہ بنیادوں پر جاری ہیں، جون 2021ء تک ویکسین کی دستیابی کا عندیہ دیا جارہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :