ہمتِ مرداں ،مددِ خدا

جمعہ 5 فروری 2021

Mubashir Mir

مبشر میر

مجھے ایک سے زائد مرتبہ موبائل فون پر پیغام موصول ہوا کہ حکومت پاکستان کے انکم سپورٹ پروگرام میں آپ کا نام شامل کرلیا گیا ہے لہذا آپ اس درج ذیل نمبر پر رابطہ کریں تاکہ آ پ کی مدد کی جاسکے ۔ایسے ہی کئی پیغامات متعدد شہریوں کو موصول ہوتے ہیں کچھ ان کی چال میں پھنس جاتے ہیں ۔اسی طرح آئے دن ایسے پیغامات بھی موصول ہوتے ہیں کہ میں ایک ضرورت مند ہوں اور مجھے علاج کے لیے ایک کثیر رقم درکار ہے اور آپ مجھے بذریعہ بینک یا پھر موبائل نیٹ ورک رقم ارسال کردیں ۔

بعض اوقات امداد کے لیے پیغام بھیجنے والا انتہائی جذباتی نوعیت کی صورت حال پیش کرتا ہے تاکہ پڑھنے والے کا دل نرم پڑ جائے اور وہ مذکورہ مسئلے پر مدد کرنے کو تیار ہوجائے ۔ہمارا معاشرہ چونکہ رشتوں کی ڈور میں بندھا ہوا ہے ۔

(جاری ہے)

یہ ہماری طاقت ہے کیونکہ اس سے خاندان اور برادریاں مضبوط ہوتی ہیں اسی وجہ سے یہ ہماری کمزوری بھی ہے اور اسی کمزوری کو بنیاد بنا کر بعض لوگ امداد کے طالب ہوتے ہیں ۔

سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑے افراد اپنا حلیہ اس طرح بناکے مدد کے طلبگار ہوتے ہیں کہ پتھر دل بھی پل بھر میں پگھل جاتے ہیں ۔
یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں فی کس آمدنی بہت کم ہے ۔غربت ،بیماری اور بھوک کی شرح بھی شرمناک حد تک موجود ہے ۔کورونا سے پہلے بھی اور اب اس وباء کے اثرات کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔

تقریباً نصف آبادی خط غربت سے کم درجے پر زندگی گذارنے پر مجبور ہے ۔چالیس فیصد سے زائد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں ۔پانچ کروڑ سے زائد آبادی کو بجلی جیسی بنیادی ضرورت میسر نہیں الغرض اگر خوراک میں غذائیت کا ذکر کریں گے تو وزیراعظم عمران خان اپنی کئی تقاریر میں اس کا تذکرہ کرچکے ہیں کہ کم غذائیت کی وجہ سے بچوں کی نشوونما ذہنی لحاظ سے کم تر سطح پر ہورہی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ صحت مند قوم بننے کے لیے بہت بڑے چیلنج ہیں اور تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد بنانے کے لیے اس سے بھی زیادہ محنت کی ضرورت ہے ۔ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئے لاکھوں افراد کی ضروریات ان کی آمدنی سے پورا ہونا بھی ناممکن ہے لیکن اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ کوئی اپنی ضرورت کے مطابق مدد کا طلب گار ہو ۔یہی وجہ ہے کہ معاشرہ پیشہ ور بھکاریوں سے بھرگیا ہے ۔


سرکاری اداروں اور مخیر حضرات کے لیے یہ ایک مشکل صورت حال ہے کہ مستحق افراد کا تعین کیسے کریں ۔جو لوگ کسی کے قریبی عزیز یا ہمسائے ہیں ان میں حقیقی ضرورت مندوں کا تعین کرنا کسی حد تک آسان ہوسکتا ہے لیکن بہت سے اداروں کے لیے مشکلات رہتی ہیں ۔اکثر مخیر حضرات ،صدقہ ،خیرات ،ذکواة اور خمس کی ادائیگی کے لیے آسان طریقہ کار اختیار کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔

اکثر لوگ اپنے قریبی علاقوں کی عبادت گاہوں کے توسط سے بھی امدادی کام سرانجام دیتے ہیں جو کہ ایک مناسب طریقہ ہے لیکن ان کو اس کے لیے تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کا رخ بھی کرنا چاہیے اگرچہ بعض ٹرسٹ کے تحت چلائے جانے والے ادارے موزوں ہیں لیکن دیہی علاقوں تک پہنچنا دشوار ہے ۔پاکستان بھر میں مزارات کا سلسلہ بہت بڑی تعداد میں موجود ہے لیکن وہاں کا انتظام منظم نہ ہونے کی وجہ سے پیسہ غلط لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے ۔

کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر میں نے نذرانہ وصول کرنے کے متعدد بکس دیکھے ہیں جو کہ غیر ضروری اور معیوب دکھائی دیتے ہیں ۔ایسے بڑے مزارات کو ٹرسٹ کے زیر انتظام لانا چاہیے ۔محکمہ اوقاف کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔تعلیمی اداروں کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ایلومینائی ایسوسی ایشنزکو فعال بناکر انڈومنٹ فنڈز قائم کرے تاکہ اسی تعلیمی ادارے کے مستحق طلباء و طالبات ایک ادارے کے تحت اپنی ضرورت باعزت انداز سے پوری کرسکیں اور ایلو مینائی ایسوسی ایشن سے وابستہ لوگ بھی ایک بہتر انداز سے خیراتی کاموں میں حصہ لے سکیں گے ۔


پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ میں خود کو دنیا کی سب سے مضبوط قوم ثابت کردیا ہے ۔70ہزار سے زائد شہادتیں ،ایک لاکھ سے زائد معذور افراد ،ہزاروں گھرانوں مں یتیم ہونے والے بچے ،دہشت گردوں کے عزائم کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔افواج پاکستان کے ساتھ پولیس اور دیگر سکیورٹی ادارے آج بھی قربانیاں دے کر وطن عزیز کی حفاظت کررہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کی مقابلے کی قوت کو کیسے بڑھایا جائے ۔

کیا امدادی کاموں میں اضافہ کیا جائے ،خیراتی اداروں پر انحصار بڑھایا جائے یا پھر متاثرین کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ دنیا میں جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے خود اپنے پاوٴں پر کھڑے ہوجائیں ۔حقیقت پسندانہ جواب یہی ہوگا کہ ہمت مرداں ،مددخدا !لوگ باعزت زندگی گذارنے پر یقین رکھتے ہیں وہ اپنے بازوٴں پر بھروسہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

خدا بھی اسی قوم کی حالت بدلتا ہے جو اپنی حالت آپ بدلنے کی کوشش و ہمت کرتے ہیں ۔
پاکستانی قوم کو مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمت اور حوصلہ مند بنانا وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ان میں اعتماد سازی کی جائے ۔ریاست پاکستان پر ان کا اعتماد مضبوط بنایا جائے جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرے اور جو استحصالی قوتیں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں ان کی روک تھام کے لیے آئین و قوانین کی روشنی میں مشکل فیصلے کرنے سے بھی دریغ نہ کرے ۔

اقرباپروری نے جس کرپشن کو جنم دیا اور اس کا بازار اس حد تک گرم ہے کہ عدل و انصاف کا حصول دشوار ہے یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کو بیرونی حملوں کا خطرہ نہیں بلکہ داخلی انتشار اور سلامتی کا چیلنج درپیش ہے ۔
ایک عام آدمی کو جب دشواری کا سامنا ہو تو اس کی نظر ریاست کے اداروں پر پڑنی چاہیے لیکن المیہ ہے یہ ہے کہ وہ اپنی مشکلات کے حل کے لیے کسی بااثر شخصیت کی طرف دیکھتا ہے ۔

دنیا کے کئی ممالک میں بلدیاتی نظام بہت مضبوط اور فعال ہے جہاں عوام کے بنیادی مسائل کا حل موجود ہے ۔گویا ریاست کے قائم کیے ہوئے ادارے ہی اس کا مداوا کریں گے تو اس شہری کا اعتماد بڑھ جائے گا ۔اس کے رویے میں ایک مثبت طرز عمل پیدا ہوگا اور وہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈٹ کر کھڑا ہوجائے گا ۔وہ خیرات لینے کے لیے نہیں بلکہ اپنی خدمات کئی کاموں کے لیے رضا کارانہ بنیادوں پر انجام دینے کے لیے آمادہ ہوجائے گا ۔

وہ اپنی غربت ،بیماری اور بھوک کی پروا نہ کرتے ہوئے دوسروں کی مشکلات میں ان کی مدد کرنے کے لیے پہنچ جائے گا ۔حکومت پاکستان کے لیے یہ ایک امتحان اور آزمائش سے کم نہیں کہ وہ ایک اتنی بڑی قوم جو 200ملین افراد سے زائد ہے اسے کمزوری خیال نہ کرتے ہوئے اسے اپنی طاقت میں تبدیل کرے ،جس کا نسخہ بہت آسان لیکن قدرے مشکل ہے ۔عوام کی کثیر آبادی کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے عدل و انصاف کے معیار بہتر کرنے ہوں گے تو یہی آبادی فعال بھی ہوگی اور داخلی سلامتی کے لیے ایک ڈھال بن جائے گی ۔


پاکستانی قوم کی قوت و استعداد میں اضافہ اسی طرح ممکن ہے کہ اداروں کو مضبوط بنایا جائے ۔اداروں کے اجتماعی فیصلے میرٹ کی بنیاد پر ہوں ۔اس میں تعلیم و تربیت کے ادارے سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔اسکول ،مدرسہ ،کالج اور یونیورسٹی ایک مضبوط ڈھال کا کام کرسکتے ہیں ۔اس میں ان اداروں کے سربراہوں کو قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔

تعلیمی اداروں کو معاشرے سے جوڑنا ایک اہم مشن ہے ۔ماضی میں اسکاوٴٹنگ اور گرل گائیڈ کی تحریک اس میں موثر کردار ادا کرتی تھیں اب ان کو پھر سے منظم کرنا چاہیے ۔عوامی سطح پر شہری دفاع کی تنظیم بھی عوامی خدمت کے لیے پیش پیش ہوتی ہیں ۔کمرشل ازم نے ان جذبوں کو کمزور کیا ہے لیکن ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے !پاکستانی قوم میں دنیا کی بہترین قوم بننے کے اجزاء موجود ہیں ۔ہم انفرادی سطح پر بڑے کارنامے انجام دیتے ہیں لیکن اجتماعی سطح پر خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔غیر منظم انداز سے زیادہ خیرات دی جاتی ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق سالانہ 2ارب ڈالر خیرات کی جاتی ہے ۔اگر یہ منظم انداز سے اداروں کے ذریعے ہو تو قوم کی بہت سی مشکلات دور ہوسکتی ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :