(ن لیگ) کا فوج مخالف بیانیہ

جمعہ 6 نومبر 2020

Mubashir Mir

مبشر میر

متحدہ اپوزیشن کی تحریک اور مسلم لیگ ن کے فوج مخالف بیانیے پر بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی سابق جنرل عبدالقادر بلوچ نے استعفیٰ دیدیا ہے، انہوں نے اپنے مستعفی ہونے کی وجہ یہی بتائی ہے ۔ کیا عجیب اتفاق ہے کہ جنوبی پاکستان (سندھ اور بلوچستان) سے جب بھی قومیت پرست جماعتیں وفاق کے خلاف آواز اٹھاتی تھیں تو ان کو ریاست کا باغی تصور کیا جاتا تھا۔

سندھو دیش کی تحریک بھی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ جناح پور پر بھی شوروغوغا ہوا اور پھر آزاد بلوچستان کے نعرے اور یہی نعرہ متحدہ اپوزیشن کے کوئٹہ میں منعقد ہونے والے جلسے میں مولانا شاہ احمد نورانی جو نظریہ پاکستان کے حامی تھے، کے ایک بیٹے نے لگادیا۔ اس مرتبہ افواج پاکستان کے خلاف بیانیہ پنجاب سے آیا اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف آرمی چیف پر لفظی گولہ باری کرتے رہے۔

(جاری ہے)

اب کہ اس بیانیے کے خلاف آواز بلوچستان سے آئی ہے اور کراچی میں بھی تحریک انصاف نے فوج حمایت ریلی نکال کر مسلم لیگ ن کے بیانیے کی نفی کی ہے۔
مریم نواز، لاہور میں آئی جی سندھ کے اغواء کی گفتگو کررہی ہیں جبکہ ان واقعات سے منسلک دو انکوائری کمیٹیاں بھی کام کررہی ہیں۔ وزراء کی ایک کمیٹی کی معاونت کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز بھی کررہے ہیں اور یہ کمیٹی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ کے نوٹس لینے پر بنائی گئی ہے۔

کور کمانڈر کراچی کی ریٹائرمنٹ بھی دسمبر2020 میں متوقع ہے۔ امید ہے کہ اس سے پہلے وہ انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
گلگت بلتستان کے الیکشن کی وجہ سے متحدہ اپوزیشن کی تحریک سرد پڑ گئی ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری گلگت کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کا عزم کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ ان کے اپنے صوبہ سندھ میں ایک مظلوم لڑکی ام رباب چانڈیو اپنے والد کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے ننگے پاؤں احتجاج کررہی ہے۔

اس نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے مزار پر جانے کی کوشش کی ، لیکن لاڑکانہ پولیس نے انہیں روک دیا۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری رسہ کشی اسی طرح جاری ہے اور پارلیمنٹ میں بھی اسی لڑائی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ پارلیمان کا اہم ترین حصہ صدر مملکت بھی ہیں ، اس سیاسی بحران میں صدر مملکت کی خاموشی حیران کن ہے۔ اس پارلیمانی نظام میں صدر مملکت کے ادارے کو بے اثر کرکے رکھ دیا ہے۔

پارلیمان کا حصہ ہونا اور ریاست کا سربراہ ہونا اہم ترین ذمہ داری ہے لیکن کسی بحران کو حل کرنے میں ان کا کردار نظر نہیں آرہا ۔ اسی طرح ماضی میں پارلیمانی نظام میں صدور بے اثر رہتے ہیں۔ گذشتہ دور حکومت میں جب تحریک انصاف نے اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا تھا تو اُس وقت کے صدر مملکت سید ممنون حسین بھی اپنا کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر تھے ۔

اب ایسی ہی پوزیشن ڈاکٹر عارف علوی کی ہے۔ کراچی میں آئی جی سندھ کے واقعے پر آرمی چیف نے نوٹس لیا حالانکہ اس بحران کو حل کرنے کیلئے صدر مملکت کو متحرک ہونا چاہیے تھا۔
پارلیمانی نظام کے یہ وہ نقائص ہیں جن کی وجہ سے یہ نظام ملک کے بحرانی دور میں ناکام نظر آتا ہے۔ پارلیمان اور صدر مملکت دونوں کے پاس ان مسائل کا حل نہیں۔ صدر مملکت کا ادارہ اگر متحرک ہو تو اپوزیشن کو سپہ سالار اور انٹیلی جنس سربراہ سے خفیہ ملاقاتوں کیلئے جانے کی نو بت نہ آئے۔

پارلیمانی نظام میں جمہوریت کے پروان چڑھنے میں سیاستدان خود ہی بڑی رکاوٹ دکھائی دیتے ہیں ۔اپوزیشن رہنماؤں کو صدر مملکت سے بھی تبادلہ خیال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں تاکہ سیاسی درجہ حرارت میں کمی واقع ہوسکے۔ پاکستان بہت سے بحرانوں سے نبرد آزما ہے۔ علاقائی سلامتی خطے کا اہم ترین مسئلہ ہے ۔

اس لیے وزیراعظم عمران خان کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو سیاسی مصالحت کیلئے آزمانا چاہیے۔
سیاسی بحران کا ایک نقصان یہ بھی ہورہا ہے کہ کراچی کے مسائل دب کے رہ گئے ہیں۔ حالیہ بارشوں کے بعد کراچی میں ایک طوفان اٹھا تھا جو کسی حد تک عارضی طور پر تھم گیا ہے، لیکن عوام تذبذب کا شکار ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی شہر کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

ابھی تک وہ کے ایم سی کے واجبات حکومت سندھ سے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ایک طرف لاہور میں اورنج ٹرین کا افتتاح ہوا اور دوسری جانب کراچی میں سرکلر ریلوے کا منصوبہ ڈی ریل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ لوگ ایک مرتبہ پھر مایوسی کا شکار ہورہے ہیں۔ سندھ حکومت اپنی اسی ڈگر پر واپس جاچکی ہے جس میں کراچی کے مسائل کا حل شامل نہیں۔ اب پورا شہر ہی کچی بستی میں تبدیل ہوا نظر آتا ہے، سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں، پانی اور گیس کی کمی، کچرا اپنی جگہ موجود ہے، ملک کے سب سے بڑے شہر کی حالت زار ناقابل بیان ہے۔


سیاسی جماعتیں اس صورتحال پر کیوں بات کرنے سے کتراتی ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کئی حوالوں سے ناروا سلوک دیکھنے میں آرہا ہے۔ جبری تبدیلی مذہب کے واقعات اور خواتین سے برا سلوک اور جبری شادی، عام واقعات بن چکے ہیں۔ یہی وہ واقعات ہیں جو ہمسایہ ملک سمیت دیگر دشمن ملک پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی وزارت کو ان معاملات کا نوٹس لینا چاہیے۔


اقتصادی اعشارئیے اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج میں ایک دفعہ پھر مندی کے بادل چھائے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن پیٹرول کی قیمت میں کمی خوش آئند ہے۔ اطلاعات کے مطابق بیرون ملک سے ترسیلات زر میں اضافہ ہورہا ہے اور آئندہ بھی یہ اضافے جاری رہنے کا امکان ہے جس سے معیشت کو خاطر خواہ سہارا ملے گا۔ پاکستانی برآمدات میں اضافہ بھی اقتصادی بہتری کا اشارہ ہے۔ تعمیرات کی صنعت میں بہتری سے روزگار کے مواقع بڑھنے کی بھی قوی امید ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے اگر دسمبر میں تحریک تیز کرنے کی کوشش کی تو اقتصادی شعبے میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :