وزیراعظم کے دورہ کراچی کی گونج

جمعرات 10 ستمبر 2020

Mubashir Mir

مبشر میر

وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہ کراچی کی گونج پورے ملک میں سنائی دی کیونکہ کراچی میں بارشوں کے بعد بڑے پیمانے پر تباہی نے یہاں کے مسائل کو بڑے پیمانے پر اجاگر کردیا ،وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ کراچی کی شہری حکومت بھی تنقید کی زد میں رہی ۔حالیہ بارشوں میں کراچی کی سب سے پوش آبادی کلفٹن اور ڈی ایچ اے میں بھی حالات بدتر ہوگئے تھے لوگوں کے گھروں اور گلیوں میں جمع شدہ پانی سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ۔

کلفٹن اور ڈیفنس کے رہائشیوں نے کنٹونمنٹ بورڈ کے دفاتر کے بعد زوردار مظاہرہ کیا اس وقت عوام نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔اب انہی مظاہرین کی بڑی تعداد پر ایف آئی آر بھی درج کردی گئی ہے جس میں دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں ،جس پر شاید ایک اور احتجاج کا راستہ ہموارہورہا ہے ۔

(جاری ہے)


اس تمام صورت حال پر سیاسی بیان بازی اپنی جگہ لیکن میڈیا اور عوام نے سیاسی جماعتوں کو ہدف تنقید بنایا ،ساتھ ہی ساتھ مقتدرہ حلقوں پر بھی انگلیاں اٹھیں کیونکہ کراچی کے ساتھ کنٹونمنٹ بورڈز بھی متاثرہ علاقوں میں شامل ہیں ، شاید یہی وجہ تھی کہ چیف آف آرمی اسٹاف، وزیراعظم پاکستان کے دورہ سے قبل کراچی تشریف لائے اور پورے شہر کا فضائی جائزہ بھی لیا ۔

کاروباری برادری سے ملاقات بھی کی لیکن میڈیا سے ملاقات سے گریز کیا لیکن چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلان کیا کہ کراچی کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور آئندہ تین برس میں اس شہر کی حالت بہتر ہوجائے گی ۔گویا مقتدر قوتوں نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو اکٹھے بیٹھنے میں سہولت کاری کی اور ایک کراچی پیکج تشکیل دیا گیا ۔
آرمی چیف کے دورے کے موقع پر یہ تاثر ابھرا کہ شاید اس مرتبہ معاملہ کچھ سنجیدہ ہے اور حالات بہتری کی طرف چل پڑیں گے لیکن ایسا محض ایک خواب ہی تھا ۔

وزیراعظم پاکستان کے دورہ کراچی سے پہلے ہی بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس اور سندھ حکومت کے بیانات نے ہم آہنگی اور امید کی فضا کو کسی حد تک مکدر کردیا تھا ۔
وزیراعظم عمران خان کے ہمراہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ پیکج کے اعلان کے موقع پر موجود تھے ۔تاثر یہی تھا کہ کراچی کے عوام کے مسائل کے حل کی طرف سنجیدہ پیش رفت ہوگی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا ۔

تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے راہنماوٴں کے میڈیا میں بیانات سے خدشہ ہے کہ کراچی پیکج کھٹائی میں پڑسکتا ہے ۔کراچی کے بڑے مسائل صاف پانی کی فراہمی، سیوریج کا انتظام، کچرے کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ ، ٹرانسپورٹ، سڑکوں کی مرمت، ناجائز تجاوزات، بیروزگار ی، ماحولیاتی آلودگی، الغرض کون سا ایسا مسئلہ ہے جو کراچی سے جڑا ہوا نہیں ۔بجلی کے نرخ جب صرف کراچی کے شہریوں کے لیے بڑھنے کی منظوری دی جاتی ہے تو عوام خود کو کسی اور خطے سے وابستہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔


اب پھر ایسا دکھائی دینے لگا ہے کہ شہر کراچی پر مرہم رکھنے سے پہلے ہی پرانے زخم بھی پھر ہرے کردیئے گئے ہیں ۔کراچی کے ہر میونسپل مسئلے پر سیاست ہورہی ہے ۔سندھ حکومت نے شہری حکومتوں کی مدت ختم ہونے پر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیے بغیر ہی ایڈمنسٹریٹر کا تقرر کردیا ہے ۔گوکہ اس کا بہت شور تھا کہ آخر یہ ذمہ داری کس کو دی جائے گی کیونکہ میئر کراچی کی سیٹ پر عارضی ہی سہی لیکن ایک اہم ذمہ داری ہے ۔


سندھ حکومت نے کراچی کے کمشنر رہنے والے افتخار علی شہلوانی کو ایڈمنسٹریٹر کراچی مقرر کردیا گیا ہے گوکہ یہ میئر کے نعم البدل کے طور پر کام کرنے کی ذمہ داری ہے لیکن اسے ایک سرکاری افسر کو سونپا گیا ہے ،جنہوں نے کمشنر کراچی کی حیثیت سے مشکل وقت گزارا اور تنقید کی زد میں رہے ۔روز مرہ اشیاء کی قیمتوں کے تعین میں ان کو کامیابی نہ ملی ۔

خاص طو رپر دودھ اور گوشت کی قیمتوں کے تعین میں وہ اپنے احکامات پر عمل درآمد نہ کرواسکے ۔اب ان کو ایک بڑی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے ۔ان کا تعلق حیدرآباد شہر سے ہے ۔عوام کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی سے تعینات ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔ان کی جگہ کراچی میں نئے کمشنر بھی تعینات ہوگئے ہیں ۔اس وقت کراچی میں پیپلزپارٹی کا مکمل کنٹرول ہے ۔

تمام سرکاری مشینری ان کی مرضی کی ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ اب مسائل کو حل کرنے کے لیے کس حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔
اگرچہ یہ سب صورت حال اپنی جگہ ہے لیکن چیف آف آرمی اسٹاف کی یقین دہانی کو عوام سے زیادہ پذیرائی ملی ہے ۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ ترقیاتی کام زیادہ تر ایف ڈبلیو او کے ذریعے انجام پائیں گے اس لیے ان کی بروقت تکمیل کی امید کی جاسکتی ہے ۔

اس وقت شہریوں کی کئی تنظیمیں بہت زیادہ فعال ہیں، جنہو ں نے کورونا وباء کے ایام میں لوگوں کی بہت مدد کی اور اب بھی بارش کے بعد عوام کے مسائل کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اگر یہ تنظیمیں کراچی پیکج پر نظر رکھیں اور ترقیاتی کاموں کی اپنے انداز سے مانیٹرنگ کریں تو ممکن ہے کہ صورتحال تبدیل ہونے کی جانب بڑھے۔ اگر سیاسی قائدین سستی کا مظاہرہ کررہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ عوام کی فعالیت کی کمی ہے۔

اگر مزید فعالیت کا مظاہرہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ حکومتیں بھی اپنی روش بدل لیں۔
میڈیا نے جس قدر عوامی بیداری پر کام کیا ہے اس کا زیادہ تر حصہ کراچی کے حوالے سے ہی نظر آتا ہے۔ یہ عوامی بیداری ہی ہے کہ کلفٹن اورڈی ایچ اے کے رہائشیوں نے بھی آواز اٹھائی، سیاسی رہنماؤں کو بھی عوام میں جاکر ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی سعی کرنی چاہیے اور خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔

ابھی کچھ علم نہیں کہ کراچی میں بالخصوص اور پورے ملک میں بالعموم بلدیاتی الیکشن ہونگے یا نہیں، لیکن لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اگر بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہوئے تو عوام کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آئے گا۔
کراچی میں انفراسٹرکچر کے مسائل کے باوجود معاشی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے بہتری کا سفر شروع کردیا ہے۔

انڈکس میں مثبت اضافے خوش آئند ہیں۔ کراچی کے سات انڈسٹریل ایریاز بھی انفراسٹرکچر میں ٹوٹ پھوٹ کے مسائل سے دوچار ہیں، اس کے باوجود لوگ کاروباری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کاروباری برادری کو بہتر ماحول دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر اس کا ادراک کرلیا جائے تو صورتحال بہت اچھی ہوجائے گی۔
سیاسی جماعتوں نے شہریوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کراچی کا رُخ کیا، شہباز شریف نے بھی کہا کہ اگر ہماری حکومت آئی تو ہم دو تین برس میں شہر کی حالت تبدیل کردیں گے۔

ایسے ہی وعدے ہر جانب سے سننے کو مل رہے ہیں۔ اگر اب کی بار سیاست بازی سے ماورا ہو کر کام نہ کیا گیا تو کراچی کا ووٹ بینک کیا نیا رُخ اختیار کرے گا۔ یقیناً ایک مشکل سوال ہے لیکن موجودہ سیاسی قیادت ان کی آئیڈیل نہیں رہے گی یہ بات بہت واضح نظر آنے لگی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :