جزائر پر وفاق اور سندھ کا تنازعہ

جمعہ 9 اکتوبر 2020

Mubashir Mir

مبشر میر

سابق گورنر سندھ محمد زبیر کو میاں نوازشریف اورمحترمہ مریم نواز کاترجمان مقررکردیا گیا۔سندھ اور خصوصاً کراچی سے اپوزیشن کی تحریک کوتقویت دینا بھی مقصود تھا اورمحمد زبیر کی خدمات کا اعتراف بھی کرنا ضروری خیال کیا گیا ۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق سابق گورنر دومرتبہ آرمی چیف سے میاں نواز شریف اور مریم نواز کے ریلیف کے لیے ملاقات کرچکے ہیں ۔

اس قصے کے منظر عام پر آنے کے بعد محمد زبیر سابق گورنر سندھ کی پوزیشن کمزور ہوگئی تھی ۔اس کے بعد مریم نواز نے اعتراف کرلیا ۔اس تقرری سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اب میاں نوازشریف اور مریم نوازکے معاملات علیحدہ دیکھیں جائیں گے اور مسلم لیگ (ن)کے صدر میاں شہباز شریف کے معاملات مختلف ہوں گے ۔گزشتہ پریس کانفرنس میں خاندانی اتھارٹی بھی علیحدہ نظرآئی اور مریم نواز ایک ڈی فیکٹو صدر مسلم لیگ (ن) کے روپ میں بات کرتی ہوئی دکھائی دیں ۔

(جاری ہے)

محمد زبیر ترجمان نواز شریف اور مریم نواز کی پہلی پریس کانفرنس بھی اس بات کی غماز ہے کہ انہی دوشخصیات کا بیانیہ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ ہوگا گویا صدر مسلم لیگ (ن) غیر موثر ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
سابق صدر مملکت آصف علی زرداری پر فرد جرم عائد کردی گئی ہے ۔نیب نے پارک لین اور ٹھٹھہ واٹرسپلائی ریفرنس میں ان پر فرد جرم عائد کی ہے جبکہ ملزم نے صحت جرم سے انکار کیا ہے ۔

پارک لین ریفرنس میں الزام لگایا گیا ہے کہ سابق صدر نے اپنے دور صدارت میں اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی فرنٹ کمپنیوں کو قرضہ دلوایا اور فیک ڈاکومنٹس بینک میں جمع کروائے گئے ۔بعد ازاں اس رقم کو ذاتی استعمال میں لایاگیا ۔کمپنی پارتھینون پرائیویٹ لمیٹڈ (Parthonon Pvt Ltd)نے قومی خزانے کو 3.77ارب روپے کا نقصان پہنچایا ۔ایس ای سی پی کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹرا ور نیشنل بینک کے دو سابق صدور بھی گواہان میں شامل ہیں ۔

ٹھٹھہ واٹرسپلائی ریفرنس میں سندھ کے سینئر بیوروکریٹس اور اومنی گروپ کے سی ای او خواجہ عبدالغنی مجید اور ان کی اہلیہ مناہل مجید بھی ملزمان میں شامل ہیں ۔
وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان جزائر پر نئے شہر تعمیر کرنے کا تنازعہ شدت اختیار کرگیا گیا ہے۔چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پیپلزپارٹی پی ٹی آئی حکومت کے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سندھ کے جزائر کے غیرقانونی الحاق کی مخالفت کرے گی،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ کے جزائر سے الحاق اور مودی کے مقبوضہ کشمیر میں اقدامات میں آخر کیا فرق ہے؟ادھر وزیراعلیٰ سندھ نے بھی اس معاملے پر کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کرلیا ہے ۔

سیاسی حلقے سندھ کے جزائر پر نئے شہر کی تعمیر کے حوالے سے وفاقی حکومت کے فیصلے کو ایک نئی سیاسی کشیدگی کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں ۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت ان جزائر کی ترقی سے قطع نظر اسے اپنی اتھارٹی کو چیلنج کیے جانے سے تعبیر کرے گی اس لیے یہ معامات مزید کشیدگی کی جانب بڑھیں گے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور پیپلزپارٹی کے سخت ردعمل کے بعد وفاقی حکومت اس پر کیا جواب دیتی ہے ۔


اب جبکہ اپوزیشن کی تحریک اپنی رفتار کو تیز کرنا چاہتی ہے لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت نے بلوچستان میں ہونے والے جلسوں میں تبدیلی اور مولانا فضل الرحمن کے عرصہ صدارت کو متعین کرنے کا مطالبہ بھی کردیا ہے ۔اہم سوال یہ ہے کہ حکومت ہٹاوٴ تحریک جس میں مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن دن بدن سخت موقف اپنارہے ہیں کیا پیپلزپارٹی کی قیادت بھی ایسا ہی انداز اپنائے گی یا پھر معاملات کوئی اور رخ اختیار کرلیں گے۔

پیپلزپارٹی سندھ نے بھی کراچی حقوق ریلی منعقد کی جس کے روح رواں صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی تھے ۔کراچی سے پیپلزپارٹی کے وہی نمایاں رکن اسمبلی ہیں ۔ان کی ریلی کے شرکاء کی تعداد سے حیرت ہورہی تھی کہ یہ پارٹی جو سند ھ میں 2008ء سے مسلسل اقتدار میں ہے یہ اس کے کراچی کے حمایتی ہیں ۔اب لیاری کے لوگ بڑی تعداد میں پیپلزپارٹی کے جلسے جلوسوں کو رونق بھی نہیں بخشتے شاید اسی وجہ سے نتائج مختلف ہوتے جارہے ہیں ۔

ا س ریلی سے پی پی پی نے یہ تسلیم کرلیا کہ کراچی کو سندھ کے دوسرے شہروں سے مختلف انداز سے ہی دیکھنا ہوگا ۔کراچی خصوصی توجہ کا مستحق ہے ۔ڈیفنس کلفٹن کے رہائشیوں نے اب کراچی پریس کلب کے باہر بھی پرامن مظاہرہ کیا ہے ۔حکومت کو ان کے معاملات بھی سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے ۔
ایم کیو ایم نے حیدرآباد سے جو ریلی نکالی اور صوبے کا مطالبہ کیا ۔

تعدا دکے اعتبار سے وہ پی پی پی کی ریلی سے بھی مایوس کن تھی ۔ایم کیو ایم کا علیحدہ صوبے کا نعرہ پی پی پی کو درپردہ مضبوط کرے گا ۔اگر مہاجر ایک علیحدہ صوبے کی بات کرتے ہیں تو سندھی پی پی پی کی غیر مشروط حمایت پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔اصل حل یہ ہے کہ کراچی کی مردم شماری ازسر نو کی جائے اس کے انتظامی معاملات کے لیے تمام پارٹیاں مل کر لائحہ عمل بنائیں ۔

جماعت اسلامی نے کراچی کے حقوق کے لیے جدوجہد تیز کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔یوم یکجہتی کراچی حقوق ملک گیر سطح پر منایا جائے گا ۔ریلیوں کی اجازت روز بروز دی جارہی ہے اور کورونا کا کوئی خطرہ نہیں جبکہ اسی وبا کے خطرے کے پیش نظر ہوٹل اور ریستوران بند کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔حکومت سندھ کے اس دوہرے معیار پر حیرت ہوتی ہے ۔وزیر تعلیم سعید غنی اسکولوں کو ایس اوپیز پر عمل درآمدکا حکم دیتے ہیں جبکہ اپنی ریلی میں ایس او پیز کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی کرتے ہیں ۔

بہت ہی عجیب پالیسی ہے ۔
وفاقی وزراء اسد عمر ،محمد میاں سومرو ،ڈاکٹرفہمیدہ مرزا ،چوہدری فواد حسین اور پیر نور الحق قادری کراچی کے دورے پر تھے ۔کراچی پیکج پر عمل درآمد کے لیے اسد عمر بہت متحرک دکھائی دے رہے ہیں لیکن بری خبر یہ ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے اقساط میں مکمل ہوگا ۔سندھ حکومت متاثرین کو معقول جگہ دینے میں کامیاب نہیں ہورہی اس لیے اسے بائی پارٹس چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔

پیر نور الحق قادری وفاقی وزیر مذہبی امور ،مفتی منیب الرحمن اور مولانا تقی عثمانی سے ملاقاتیں کرنے کے بعد بین المسالک ہم آہنگی کے لیے ایک ضابطہ اخلاق پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔گزشتہ دنوں کراچی میں مذہبی ریلیوں میں جو کچھ ہوا اس نے وفاق کو پریشانی میں ڈال دیا ہے ۔ا ن معاملات سے پہلوتہی کرنا بہت نقصان دہ ہوگا ۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی مختلف علماء کے وفد سے ملاقات میں ہم آہنگی کے فروغ پر زور دیا ۔

کتنی افسوس کی بات ہے کہ علماء کو سمجھایا جارہا ہے ان سے تقاضا کیا جارہا ہے کہ ہم آہنگی کو فروغ دیں حالانکہ معاشرے کو سدھارنے کا ذمہ علماء اکرام کی ذمہ داری ہے ۔
کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کے تقرر پر شہری حلقے اب بھی تحفظات کا اظہار کررہے ہیں ۔کچھ سیاسی اکابرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کا تقرر کوئی آئینی تقاضا نہیں ،حکومت سندھ نے صوبے کے دیگر ڈویژنز میں ایڈمنسٹریٹرمقرر نہیں کیے بلکہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنرکو اس ضلع کا ایڈمنسٹریٹر بنادیا گیا ہے جبکہ ڈویژن کی سطح پر کمشنر ہی کام کررہے ہیں ۔

ایڈمنسٹریٹر ،میئر کا نعم البدل نہیں ۔حکومت سندھ کو نئے بلدیاتی الیکشن کے انعقاد پر کام کرناچاہیے ورنہ مسائل اور زیادہ بڑھ جائیں گے۔
سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہونے سے کاروباری سرگرمیوں پر اثر پڑرہا ہے ۔اسٹاک ایکس چینج انڈکس میں ہفتے کے آغاز سے ہی کمی واقع ہوئی ہے جو کہ کسی طرح بھی اقتصادی سرگرمیوں کے لیے بری خبر ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :