اے پی سی میں شہری سندھ کی نمائندگی نہ ہوسکی

جمعرات 24 ستمبر 2020

Mubashir Mir

مبشر میر

پاکستان پیپلزپارٹی کی میزبانی میں آل پارٹیز کانفرنس (اپوزیشن) کا انعقاد اسلام آباد میں ہورہا تھا لیکن اس کا شورو غوغا پورے ملک میں سنائی دے رہا تھا ،جس میں دو چیزیں واضح طور پر نظرآئیں کہ یہ وزیراعظم عمران خان اور افواج پاکستان عرف عام میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کے خلاف تحریک چلانے کے آغاز کا اعلان تھا ۔

پلیٹ فارم تو پیپلزپارٹی نے فراہم کیا لیکن کام میاں نواز شریف نے دکھایا ۔پیپلزپارٹی کا رویہ محتاط تھا ۔بلاول بھٹو زرداری ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے اپیل کررہے تھے کہ آئندہ الیکشن میں ہمیں بھی برابری کی سطح پر حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے ،کسی پارٹی کو کسی حوالے سے فوقیت نہیں ملنی چاہیے ۔حیرت ہے کہ پیپلزپارٹی یہ گلہ کیسے کررہی ہے جسے سندھ میں بلاشرکت غیرے حکومت ملی اور گزشتہ 12برس سے کارکردگی غیر معمولی نہ ہونے کے باوجود حکومت میں موجود ہیں،اگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہی حکومت دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سندھ حکومت بھی انہوں نے ہی پیپلزپارٹی کو دی تھی ۔

(جاری ہے)

خاص طور پر 2018ء کے الیکشن کے نتائج سے سندھ کے عوام مطمئن دکھائی نہیں دیتے تھے ۔اسی دوران کراچی کی تین پارٹیاں متحرک دکھائی دیں ۔ایم کیو ایم پاکستان جس نے اپنے سابق قائد کے خلاف لندن میں ان کی جائیدادوں کے حصول کا مقدمہ کررکھا ہے انہوں نے 24ستمبر کو کراچی مارچ کرنے کا اعلان کردیا ۔ایم کیو ایم کے راہنماوٴں کی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شہری سندھ کے حقوق کے لیے جدوجہد کی جائے گی گویا کراچی کو صوبہ بنانے کی تحریک سے پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا ۔

دوسری پارٹی جماعت اسلامی ہے جس کے امیر کراچی میں موجود تھے ۔سینیٹر سراج الحق نے آل پارٹیز کانفرنس (اپوزیشن) میں شرکت سے انکار کیا تھا ۔انہوں نے اپوزیشن پر الزام لگایا کہ وہ دو سال میں حکومت کی ہی معاون رہی ہے ۔تیسری سیاسی پارٹی پاک سرزمین پارٹی ہے،جس کے سربراہ مصطفی کمال نے بھی آل پارٹیز کانفرنس (اپوزیشن)پر سخت تنقید کی اور پپلزپارٹی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ سندھ میں 12برس سے برسراقتدار ہیں انہیں حق نہیں پہنچتا کہ وہ مسائل کے حل نہ ہونے کا کسی اور کوذمہ دار قرار دیں ۔

گویا آل پارٹیز کانفرنس (اپوزیشن)میں کراچی یا شہری سندھ کی نمائندگی نہیں تھی ۔آل پارٹیز کانفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری نے میثاق پاکستان کی بات کی ۔اگر یہ میثاق حقیقی معنوں میں پاکستان کی تمام بڑی چھوٹی سیاسی پارٹیاں مل کر کریں تو بہت خوش آئند بات ہے جس میں گزشتہ کوتاہیوں پر مشترکہ طور پر سب راہنما پاکستان کے عوام سے معافی مانگیں، بلاتفریق احتساب پر راضی ہوجائیں اور پاکستان کی معیشت کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں۔

ساتھ ہی ساتھ ملک میں کونسا سیاسی نظام رائج کرنا ہے اس کا فیصلہ بھی کرلیں ۔اگر ملک کو صدارتی نظام چاہیے تو کس طرز کا صدارتی نظام ہونا چاہیے ۔اگر ملک میں پارلیمانی سیاسی نظام کو جاری رکھنا ہے تو کس طرز کی اصلاحات ہونی چاہیے کیونکہ اصلاحات کے بغیر یہ نظام مزید چلانے سے ملک میں بہتری لانا ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ مجوزہ میثاق پاکستان میں بلدیاتی نظام کا فعال اور بااختیار ہونا از حد ضروری ہے اس کے بغیر صدارتی اور پارلیمانی نظام دونوں فلاپ ہوجائیں گے ۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک میں مزید صوبوں یا انتظامی یونٹس کا کتنا اضافہ کرنا ہے اس کا بھی یقین کرلیا جائے تو بہت بہتر ہے ۔کراچی پیکج پر کچھ پیش رفت ہوتی سنائی دے رہی ہے لیکن ابھی دکھائی نہیں دی گئی ،بعض اطلاعات کے مطابق ملیر ایکسپریس وے کا سنگ بنیاد اکتوبر میں رکھنے کی تجویز ہے اور قائد آباد کورنگی تک یلو لائن بس منصوبہ کا بھی آغاز کیا جائے گا ۔

ملیر ایکسپریس وے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے شروع ہوگا جبکہ یلو لائن منصوبہ کے لیے بیرونی امداد پر انحصار کیا جائے گا ۔کراچی کے لیے ابھی بہت سے ایسے منصوبے ہیں اگر ان پر کام کا آغاز کردیا جائے تو بمشکل آئندہ تین سال میں مکمل ہوسکیں گے ۔سندھ حکومت نے حالیہ بارشوں سے تباہی کا تخمینہ تقریباً67ارب روپے لگایا ہے ۔حالیہ مون سون میں سب سے زیادہ اموات بھی صوبہ سندھ میں ہوئی ہیں ۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ حکومت ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے انتظامی اور تیکنیکی اعتبار سے کس حد تک کمزور ہے ۔عوام کا مطالبہ ہے کہ 1122کی طرز پر یہاں بھی ایمرجنسی سروس متعارف ہونی چاہیے یہاں اگر فلاحی تنظیمیں کام نہ کررہی ہوں تو عوام اس سے بھی زیادہ تباہی کا شکار ہوجائیں گے اس پر طرہ یہ کہ پیپلزپارٹی بلدیاتی الیکشن سے کس طرح راہ فرار اختیار کررہی ہے ۔

الیکشن کمیشن نے بھی ان کی درخواست جو نثار کھوڑو اور تاج حیدر کی طرف سے دائر کی گئی تھی کہ 2017کی مردم شماری کی مشترکہ مفادات کونسل سے حتمی منظوری تک بلدیاتی حلقہ بندیاں روک دی جائیں کو منظور کرلیا ہے گویا یہ پیپلزپارٹی کو درپردہ سہولت دکھائی دیتی ہے لیکن شواہد یہ بتارہے ہیں کہ ایڈمنسٹریٹرز کے تقرر کے بعد این ڈی ایم اے کی ذمہ داریوں میں اضافے اور ادارے کے افسران کی موجودگی سے سندھ حکومت کو تشویش پیدا ہوگئی ہے ۔

اگر این ڈی ایم اے کے افسران کے ایم سی کے معاملات پر نظر رکھیں گے تو شاید ایڈمنسٹریٹر کراچی بھی مشکلات کا شکار ہوجائیں گے ۔بہرحال اگر شہر کراچی کے معاملات کو درست کرنا ہے تو ماضی میں جو سمجھوتے سیاسی بنیادوں پر کیے گئے تھے ان سے بالاتر ہو کر کام کرنا ہوگا ۔یقیناً اس سے کسی نہ کسی کے مفادات پر زد پڑے گی لیکن وسیع تر مفادات میں عوام کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنے پڑیں گے ۔

تعمیرات کے شعبے میں حکومتی مراعاتی پیکج کے اعلان کے بعد کراچی میں پرائیویٹ شعبہ میں کئی منصوبے شروع ہوچکے ہیں ۔تعمیراتی صنعت کے منصوبوں کی وجہ سے ملک میں اقتصادی نمو میں اضافہ کا امکان ہے ۔اس کے ساتھ ہی اپوزیشن ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان کرچکی ہے ۔اگر اپوزیشن کی تحریک میں شدت آگئی تو اس بات کا خدشہ نظرآرہا ہے کہ وفاقی حکومت کا پیکج مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

وفاقی حکومت کو چاہیے کہ اس کے سدباب کے لیے تیار رہے ۔سی پیک کے منصوبے بھی شروع ہونے کا وقت ہے ۔وہ بھی اس تحریک سے متاثر ہوسکتا ہے لہذا تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہوسکتا ہے ۔ملکی معیشت بہتر بنانے کے لیے آئندہ چار مہینے اہم ہیں ۔اس دوران پاکستان میں چاول اور کپاس کی فصلیں بھی آئیں گی جس سے زیادہ آمدنی ہونے کے امکانات ہیں ۔سیاست اور معیشت کی اس لڑائی میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق پاکستان کے ساتھ ساتھ میثاق معیشت بھی کرنا پڑے گا ،مستقبل محفوظ کرنا سب سے ضروری ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :