پاکستان اللہ کا انتخاب ہے

منگل 19 مئی 2020

Mufti Mohiuddin Ahmed Mansoori

مفتی محی الدین احمد منصوری

قدرتی حسن سے مالا مال کراء ارض کے دامن میں موجود ملک پاکستان جس کے ایک طرف سطح سمندر تو دوسری طرف برف پوش بلند و بالا پہاڑوں کا سلسلہ، ندی نالی اور بہتی ہوئی نہروں کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کی چوٹیوں سے گرتے آبشار،بلوچستان میں مدفن قدرتی وسائل اور قیمتی پتھروں کے لامحدود ذخائر ، سندھ اور پنجاب کے دریا اور زرخیز زمیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ گلستان کے ماندقدرت کے خزانوں اور نعمتوں سے پھرپور سرزمین اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے ہم پاکستانیوں کے لئے کتنا خوبصورت انتخاب ہے، تاریخ پاک و ہندکااگر نظردقیق سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے ہندوستان میں مسلمانوں کی بے بسی بدحالی اور غلامی میں جکڑی زندگی کو دیکھ کر شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی  نے فتویٰ صادرفرمایا کہ مسلمان دارالحرب میں ہیں ، فتویٰ کا آنا تھا کہ انگریز کی غلامی میں جکڑے مسلمانانِ ہند آزادی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ، اور پھر تحریک فرائضی ، تحریک کسان، تحریک آزادی1857،تحریک ریشمی رومال کے ذریعے آزادی کے نغمیں گاتے رہیں، یہاں تک کہ مسلم لیگ وجود میں آئی اورقائد اعظم کی قیادت میں جمہوری جدوجہد کا آغاز ہوامسلمانان ہند نے مسلمانوں کی آزادی کیلئے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ایک زبردست تحریک کا آغاز کیا جس تحریک نے آگے چل کر مسلمانان ہندکی وسیع تر مفاد میں مسلمانوں کے کئے ایک علیحدہ وطن کے تصور کو پیش کیا اور پھر ہندوستان کے گلی کوچوں میں یہ نعرہ لگنے لگاکہ ”بٹ کے رہے گا ہندوستان بن کے رہے گا پاکستان“ یہ نعرہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط دوقومی نظریہ بن کر ابھرا، تاریخ کے اوراق گواہ ہے یہ نعرہ صرف قائداعظم محمد علی جناح کا نعرہ نہیں تھا اس وقت کے علماء صلحاء ، اساتذہ و طلبہ، ادیب، دانشور ، وکیل ، سرمایہ دار و عوام سبھی کا متفقہ نعرہ و نظریہ تھاکہ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا قیام ناگزیر ہے جہاں مسلمان اپنی تہذیب، تمدن ، ثقافت و دینی رسم و رواج کو زندہ رکھ سکے،غمخوار ملت بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحاور مسلم لیگی قیادت نے ہمیشہ مسلمانان ہند کو یہ یقین دلایا کہ ہم ایک ایسے ملک کی بنیاد رکھیں گے جہاں اسلام زندہ ہوگا قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ریاست کی بنیاد رکھیں گے جو دنیا کے لئے ایک اسلامی رول ماڈل ہوگا جو یادِ رفتگاں کی نشانی ہوگی،اور پھر قائداعظم  نے اکثر وبیشتر اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس نقطے کواجاگر کیا کہ پاکستان ایک سلامی فلاحی ریاست ہوگا،آپ کی اس غیرمتزلل عزم و ہمت ،جرتمندانہ پختہ ارادہ اور حقیقت پہ مبنی وعدوں پر لاکھوں مسلمانوں نے اپنا خون جگر پیش کیا سب کچھ لٹاکر پابند سلاسل ہوئے گولیوں کے نوک پر پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ کہتے ہو ئے جام شہادت نوش کی ، پر اللہ کے شیروں نے اپنے قائد کو شرمندہ نہیں کیا۔

(جاری ہے)


اللہ بزرگ و برتر نے ان جانثاروں کی اسلام اور وطن سے والہانہ محبت ان کے جوش وجنون اور قائدین کے اخلاص نیت کو دیکھ کر مسلمانان ہند کے لئے ایک قلعہ کے مانند قدرتی خزانوں سے مالامال سرزمین ملک ِ خداداد پاکستان کا انتخاب فرمایا، آخر یہ انتخاب کیوں ؟ہندوستان میں صدیوں پر محیط مسلم حکمرانوں کا دور ختم ہوچکا تھا ، مسلمان کسی محمدبن قاسم، سلطان محمود غزنویاور شہاب الدین غوری کے منتظر تھے مسلمانانِ ہند کے امیدوں کے محور خلافت عثمانیہ پر بھی وقت زوال آچکاتھا،عالم کفر خلافت عثمانیہ پر شب خون مارنے کیلئے سازشوں کے جال بن رہے تھے بلادعرب اپنے خر مستیوں میں گم تھے اور ان کے شرافاء صلیبوں اور یہودیوں کے آلاکار بنے ہوئے تھے ایسے نازک موقع پرباوجود تنگدستی اورلاچاری کے مسلمانان ہند نے خلافت عثمانیہ کو بھرپور افرادی اور مالی مددفراہم کی، خلافت عثمانیہ کی بقاء کے لئے مسلمانان ہند نے ہر اول دستے کا کردار ادا کرکے یہ پیغام دیا کہ اسلامی اخوت سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں یقینا یہ ایثار اور ہمدردی کی داستان تاریخ اسلام کا سنہرا باب ہے، مگرافسوس اپنوں کی اغیاری اور ستم ظریفی کی وجہ سے تقدیر تدبیر پر فوقیت پاگئی اور سقوط خلافت عثمانیہ کا دلخراش المیہ رونما ہوا جس نے عالم اسلام کے روح کو بھی جھنجھوڑ کے رکھ دیا ،اس عظیم جگرخراش سانحہ کے محض ۲۴ سال گزرے تھے کے اللہ تبارک وتعالیٰ نے پاکستان کی صورت میں عالم اسلام کو ایک اسلامی نظریاتی کے حامل ملک کا تحفہ دیا جو یقینا مسلمانان ہند کاسلام سے والہانہ محبت اور مسلمانان عالم سے ایثار و ہمدردی پر ثمرہ و تحفہ تھا خاص کرکے ان مسلمانوں کیلئے جن کا دل ابھی سانحہ خلافت عثمانیہ کی وجہ سے زخموں سے داغدار تھا، اس میں دورائے نہیں کہ مسلمانان ہند کا اسلام کے لئے گراں قدر خدمات اور آزادی کے لئے غیرمعمولی مخلصانہ کاوشیں مبارک جدوجہد کے طوفیل اللہ بزرگ وبرتر نے ملک خدادا پاکستان عطافرمایا تاکہ مسلمان اپنے ارادوں اور خواہشوں کو جلا بخش سکے اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے کئے ہوئے وعدوں کی تکمیل کرسکیں۔

پرافسوس ہم نے اس عظیم نعمت کی قدر نہیں کی اور ناہی اللہ بزرگ وبرتر سے کئے ہوئے وعدوں کی تکمیل کی بلکہ ہم نے پاکستان اور اسلامی ریاست کے نام پر دھوکہ دینے میں بنی اسرائیل کو بھی پیچھے چھوڑدیا، ہمارے بزرگوں کے سارے خواب چکناچور ہوگئے ملک تو حاصل کرلیا پر اسلام اور انصاف کا دور دور تک کوئی بسیرا نہیں،ہماری نظام حکومت ایک فلاحی ریاست کا تصور پیش کرنے میں مکمل ناکام ہوچکا ہے ، نظام عدل طاقتور ظالموں کے سامنے بے بس لاچار نظر آتا ہے نظام عدل اتنا سست اور مہنگا ہے کہ ا نسانی زندگی کی تمام جمع پونجی خرچ کرلیں اور پھر عمر کا طویل وقت صرف کرلیں پھربھی انصاف ملنا محال ہے اس وقت بھی تقریبا اٹھارہ لاکھ کیس عدالت میں زیر التوء ہیں ، نظام تعلیم ایک مہذب معاشرہ مہیا کرنے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے ملکی اداروں میں رشوت اور سفارش کا بازار گرم ہے اداروں میں محنتی اور قابل لوگوں کا فقدان ہے نا اہل لوگوں کی بھرمار ہے طاقتور فرعون بنے ہوئے ہیں ، ہم نظام معیشت تک کو اسلامی نہج پر مستحکم نا کرسکے پورا نظامِ معیشت سود کی لعنت میں غوطہ زن ہے ، یہ نعمت کی ناقدری نہیں تو کیا ہے؟ یہ ہمارے بزرگوں سے دھوکہ نہیں تو اور کیا ہے؟ 
بنی اسرائیل اللہ تبارک وتعالیٰ کی سب سے پسندیدہ قوم تھی ان پر نعمتوں اور عنایتوں کی ہمہ وقت برسات تھی ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح وہ قوم امامت کے درجے پر فائز رہے پر جب اس قوم نے نعمتوں کی ناشکری کی اور اللہ بزرگ وبرتر سے کئے ہوئے عہد وپیمانے کو فراموش کربیٹھے تو اللہ تبارک وتعالی نے ایسے عذاب میں مبتلا کردیا کہ صدیوں سے ذلالت و رسوائی ان کا مقدر بناہوا ہے، ملک خداداد پاکستان بھی مسلسل آہ وزاری عہد وپیمانے کے بعد مسلمانوں کو عطاہوئی، پاکستان کی عزت و عظمت اس کی بنیادی خدوخال میں مضمر ہے ملک خداداد پاکستان سیکولرزم یا لسانیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلام کی بنیاد پر وجودمیں آیا تھا اور اسلام ہی اس کا ملک کا اصل سرمایہ ہے، پاکستان امت مسلہ کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے ایک بہترین انتخاب ہے پاکستان کا قیام لیلة القدر کی رات، جمعة الوداع ماہ رمضان المبارک ۱۳۶۸ئھ بمطابق 14اگست1947ءءء کو عمل میں آیا، یہ منتخب دن منتخب مہینا اور منتخب رات محض کوئی حسنِ اتفاق نہیں بلکہ خالق کائنات کا حسنِ انتخاب ہے،ہمیں اس حسنِ انتخاب پر مفکرانہ غور و فکر کی ضرورت ہے ، ہمارے لئے غور طلب ہے کہ کیا ہم نے اس عظیم انتخاب پر شکر بجا لائیں ؟ اور کیا بحیثیت ایک مسلم قوم کے وجہ انتخاب پر عمل پیرا ہیں ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :