یہ کیسا نیا پاکستان ہے؟

پیر 25 فروری 2019

Muhammad Hussain Azad

محمد حسین آزاد

بلوچستان سے ایک بھائی نیاز باچا صاحب نے یہ پیغام بھیجا ہے، آئیں آپ بھی ملاحضہ کیجیے۔” ضلع جعفرآباد کے تحصیل گندا خہ بلوچستان میں خشک سالی کی وجہ سے پی ڈی ایم کی طرف سے آنے والا سامان غریب و بے بس لوگوں کی بجائے بااثر لوگوں میں تقسیم ہوئی۔رات کے اندھیرے میں تحصیل گنداخہ کے اسسٹنٹ کمشنر اوستہ محمد نے گودام سے ٹرکوں کو بھر کے بااثر لوگوں کے گھروں تک پہنچایا گیا۔

پی ڈی ایم فنڈ میں تحصیلدار گنداخہ کی طرف سے ریکارڈ کرپشن کی گئی۔جس میں ضلع انتظامیہ بھی ملوث ہے۔تحصیل گنداخہ کے کچھ بلیک میلر گروپوں نے ضلع انتظامیہ کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔
تحصیل گنداخہ کے غریب و لاچار بے یارومددگار لوگوں کا کمشنر نصیرآباد ڈویژن،چیف سیکرٹری آف بلوچستان،اینٹی کرپشن بلوچستان،ایف آئی اے بلوچستان،ونیب بلوچستان سے دردمندانہ اپیل ہے کہ ضلع جعفرآباد، تحصیل گنداخہ کے کرپٹ نااہل انتظامیہ کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

(جاری ہے)

مہربانی کریں سر اس آواز کو اعلیٰ سطح تک پہچانے اور غریب لوگوں کو ان کے حقوق دلوانے میں ہماری مدد کریں، بڑی مہربانی ہوگی“۔
قارئین، پاکستان میں کرپشن اور لوگوں کے حقوق مارنا کوئی نئی بات نہیں۔ غریبوں کے نام پہ ملکی و غیر ملکی تنظیموں و این جی اوز کی طرف سے بھیجا گیا مال بھی افسران بالا اپنے عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ بھی پرانی بات ہے کہ پاکستان میں غریبوں کے لئے عطیہ کیا ہوا خیراتی مال بھی انہیں نہیں پہنچ پاتا اور اس پر یہ کرپٹ انتظامیہ قبضہ کرتی ہیں۔

انہیں حرام و حلال کی کوئی تمیز ہی نہیں ہوتی۔ قارئین، 2011-12 کے سیلاب سے متاثرین کے لئے غیر ملکی این جی اوز نے بہت سارا مال و راشن بھیجا تاکہ متاثرین کی ضروریات پوری ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی داد درسی بھی ہوجائیں۔ ان کے لئے گرم چادر، بسترے، خیمے الیکٹریکل ڈیوائسز مثلاً جنریٹر اور اسی طرح بہت ساری چیزیں جن کو متاثرین کی اشد ضرورت تھی۔

اس امدادی سامان میں سے متاثرین کو پچاس فیصد بھی نہیں ملا۔ ان میں اچھی اور قیمتی قیمتی چیزیں افسران بالا اور با اثر شخصیات نے قبضہ کرلی، اور اس سے بچہ کچا مال کو سیاسی بنیادوں پر امیر لوگوں میں تقسیم کی گئی۔
 میں نے ایسے لوگوں کو بھی اس خیراتی سامان کو استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے جو اپنے آپ کو اپنے علاقے کے ”ملکان“ کہتے ہیں۔

یہاں پر ”ملک“ کا مطلب یہ ہے جو لوگ اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے بڑا اور منفرد سمجھتے ہیں،انہیں ”ملک“ کہتے ہیں۔ اور پھر ان کے پاس پیسہ بھی ہو تو وہ بڑے نوابوں جیسا رویہ کرتے اختیار کرتے ہیں۔ یہ لوگوں کے خیراتی مال استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو لوگوں کے خادم سمجھتے ہیں۔کرپٹ اور ملک کو لوٹنے والے لوگو کے قصیدے پڑھ پڑھ کر کہتے ہیں” ہم لوگوں کی خدمت کرتے ہیں“۔

ان لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ لوگوں کو آپ کی خدمت کی کوئی ضرورت نہیں بس آپ مہربانی کریں غریبوں کی خیراتی مال مت کھایا کریں۔
قارئین، اسی طرح سوات، دیر باجوڑ میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والے جنگ سے جو لوگ متاثر ہوئے تھے ان کے لئے بھیجے گئے امدادی سامان بھی بااثر افراد کے ہاتھوں چلاگیا اور متاثرین کے خیراتی مال کو سب لوگوں نے اپنا مال سمجھ کر کھا لیا چاہے وہ جنگ سے متاثر ہوا یا نہیں۔

 برسبیل تذکرہ،2015 کے زلزلہ زدگام کے لئے جو امدادی ساز و سامان آیا تھا اس میں بھی ریکارڈ کرپشن ہوئی تھی۔ایک ایک خاندان کے دس دس لوگوں نے جعلی درخواستیں جمع کی تھی کہ ان کا مکان گر گیا ہے۔مگر ان کے گھر کی دیوار سے ایک اینٹ بھی نہیں گری تھی۔ سیاسی اپروچ کی وجہ سے سب کو چیک ملتا تھا جبکہ جن لوگوں کے مکانات گر گئے تھے ان میں سے 80 فیصد لوگوں کا حق امیر لوگوں کو ملی۔

قارئین، یہ سب باتیں نئی نہیں ہے، پرانے پاکستان میں یہ عام باتیں سمجھی جاتی تھی۔ لیکن اب تو یہ عمران خان کا نیا پاکستان ہے اس لئے اب یہ عام باتیں نہیں رہی، کیونکہ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ نئے پاکستان میں لوگوں کو ان کے حقوق مل جائے گے۔ کوئی کسی کا حق نہیں مار سکے گا۔ لہذا اب نئے پاکستان کی نئی حکومت کو چاہیئے کہ اس قسم کے کرپٹ افسروں کو عبرت ناک سزا دی جائے جو غریبوں کے خیراتی مال بھی ہضم کر لیتے ہیں۔

حکومت کو چاہیئے کہ بلوچستان کے بھائی نیاز باچا صاحب کی بھیجی گئی واقعے کا نوٹس لے لیں اور ضلع جعفر آباد کی تحصیل گنداخہ کے اسسٹنٹ کمشنر اوستہ محمد اور پوری انتظامیہ کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے، ورنہ نئے اور پرانے پاکستان میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :