تدریس سے تحریک تک کا سفر

جمعہ 27 نومبر 2020

Muhammad Nafees Danish

محمد نفیس دانش

علامہ خادم حسین رضوی ٹریفک کے ایک حادثے میں معذور ہو گئے تھے جس کے بعد سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے تھے۔ان کی عمر 55 سال تھی لیکن ان کی 4 سالہ تحریکی زندگی ان کی 51 سال کی زندگی پر بھاری پڑ گئی۔حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا تھا تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلے جنازے کریں گے کیونکہ امام کے مقابل ظالم لوگ بھی کہلواتے اپنے آپ کو مسلمان ہی تھے ، پھر امام کا قول سچ ثابت ہوا ، امام احمد کا جنازہ آج بھی تاریخی جنازوں میں شمار ہوتا ہے ، لیکن اسی دور میں امام کے مخالف چیف جسٹس کا جب جنازہ پڑھا گیا تو چند سرکاری لوگ اس میں شریک تھے ،  
علامہ خادم حسین رضوی کی نماز جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت نے یہ ثابت کیا ہے کہ مسلمانانِ پاکستان کسی بھی صورت ختم نبوت کے قانون میں معمولی سی تبدیلی بھی برداشت نہیں کریں گے، جو کوئی بھی اس قانون کو بدلنا چاہتا ہے، وہ ہر ایسی حرکت کی مخالفت کریں گے۔

(جاری ہے)


یہ ایک حقیقت ہے کہ ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود خادم حسین رضوی پاکستان میں توہین رسالت کے متنازع قانون کے ایک بڑے حامی بن کر سامنے آئے ہیں۔ وہ اس قانون کے غلط استعمال کے الزام سے بھی متفق نہیں تھے، اگرچہ ان کا انداز بیان اور تقریر کا لب و لہجہ کافی زیادہ سخت ہوتا تھا لیکن وہ ناموسِ رسالت اور ناموسِ صحابہ پر بات درد دل سے کیا کرتے تھے؛ کیونکہ وہ اپنے آپ کو پیغمبر اسلام کا ’چوکیدار‘ کہہ کر بلاتے تھے ۔


‏مینار پاکستان لاہور میں تقریباً یہ تاریخی جنازہ ہوا ہے۔یہ جنازہ محض جنازہ نہیں تھا بلکہ ملین جنازہ تھا، کم سے کم بھی دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہوں گے ۔ ایسا تاریخی جنازہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔علامہ رضوی صاحب کے ساتھ لوگوں کی عقیدت اور ان کا یہ تاریخی جنازہ دیکھ کر میں اس بات پر سخت کنفیوژن میں تھا کہ مرحوم علامہ رضویؒ اگر اتنی بڑی انقلابی شخصیت تھے تو آخر بڑھاپے میں انہیں مقبولیت کیوں ملی ، جوانی انہوں نے گمنامی میں کیوں گزاری..؟
مختلف ذرائع ابلاغ سے تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اصل میں خادم حسین رضوی کا تعلق پنجاب کے ضلع اٹک سے تھا۔

جہلم ودینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد لاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔حافظ و عالم ہونے کے علاوہ ’شیخ الحدیث‘ بھی تھے اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔علامہ صاحب بریلوی مکتب فکر کی علمی شخصیت تھے ، پڑھنے ، پڑھانے میں ان کی زندگی گزر رہی تھی ، ان کے ہزاروں شاگرد تھے ، چلتے ، چلتے 29 فروری 2016 کا دن آیا ، ن لیگ کی حکومت نے غازی ممتاز قادریؒ کو چپکے سے پھانسی لگا دی ، پھانسی کی سزا کے ساتھ ، ساتھ جنازے پڑھنے پر بھی سختی شروع کردی ، یہاں سے علامہ رضویؒ کی زندگی کی کایا پلٹی ، وہ اس پھانسی کے شدید مخالف تھے ، انہوں نے فرمایا کہ عام آدمی حضور ﷺ کی عزت کے لئے جان دے رہے ہیں اور ہم شیخ الحدیث ہو کر جنازہ پڑھنے سے بھی کترائیں ، یہ سوچ کر انہوں نے علمی سفر کے ساتھ تحریکی سفر کا آغاز کیا ، مضبوط علمی شخصیت ہونے کے ناطے ابتدا میں ہی ان کے گرد عاشقان رسول ﷺ کا جم غفیر جمع ہو گیا ، انہوں نے تحریک لبیک پاکستان کے نام سے جماعت قائم کی ، بعض لوگوں کا خیال تھا کہ تحریک لبیک ن لیگ کو توڑنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے بنائی ہے ، یہ تاثر فیض آباد دھرنے کی وجہ سے زیادہ عام ہوا کیونکہ حلف نامے میں جب ن لیگ نے ھیر پھیر کی اور تمام پارلیمانی جماعتوں نے اعتراض کے باوجود اس بل کو پاس کیا تو علامہ رضویؒ ان مذموم عزائم کے سامنے ڈٹ گئے ، پہلے ممتاز قادریؒ کی پھانسی اور پھر حلف نامے میں ھیر پھیر کی وجہ سے علامہ رضوی رح ن لیگ کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے لگے ، میاں نوازشریف کا اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف بھی ہر زبان پر عام تھا ، لہذا یہ بات زور و شور سے چلائی گئی کہ تحریک لبیک پاکستان اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہے ، اللہ کریم دلوں کے بھید جانتے ہیں ، لیکن 2018 کے عام انتخابات میں تحریک لبیک پاکستان نے سب کو حیران کر دیا ، قومی اسمبلی کی سیٹ تو کوئی نہ ملی لیکن ان کے امیدواروں نے ملک بھر سے مجموعی طور پر 22 لاکھ ووٹ قومی اسمبلی پر حاصل کئے ، حالانکہ مجلس عمل کی 6 جماعتوں نے بس 24 لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے ، یوں اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف ،ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعد ملک کی زیادہ ووٹ لینے والی چوتھی جماعت بن کر ابھری ، تحریک انصاف کی حکومت آئی تو بھی علامہ رضویؒ نے اپنا سیدھا اور صاف سفر جاری رکھا ۔


 31 اکتوبر 2018 کو آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف ملک بھر میں شدید ترین احتجاج ہوا ، احتجاج میں تمام جماعتیں شامل تھیں لیکن اس بارات کے حقیقی دولہا علامہ خادم حسین رضویؒ ہی تھے ، انہوں نے آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف ایسا سخت پہرہ دیا کہ جب بھی سپریم کورٹ اپنا محفوظ فیصلہ سنانے کی تاریخ دیتی اس سے ایک دن پہلے علامہ رضویؒ احتجاجی دھرنے کا اعلان کر دیتے ، جس کی وجہ سے دو تاریخ سپریم کورٹ نے تبدیل کی اور جب 31 اکتوبر کو فیصلہ سنایا گیا تو علامہ رضویؒ ڈٹ گئے ، شدت جذبات میں انہوں نے تقریروں میں کچھ حد سے تجاوز کیا تو ریاست پاکستان نے سخت ایکشن لیا اور 2018 میں 22 لاکھ ووٹ لینے والی جماعت کے خلاف بدترین آپریشن شروع ہوگیا ، کہیں سے آواز بلند نہیں ہوئی کہ 22 لاکھ ووٹوں کو عزت دو ، مشکلات آئیں تو لوگوں نے اعلان لاتعلقی شروع کردیا ، کوئی ہنسا ، کسی نے تضحیک کی اور کسی نے تذلیل ، مشکل حالات میں ڈٹنا بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے ، لیکن علامہ رضویؒ ڈٹ گئے ، اس ڈٹنے کا مظاہرہ انہوں نے فرانس میں توہین رسالتﷺ کے خلاف 2020 میں پھر کیا ، اپنے آپ کو انقلابی کہلوانے والے بڑے بڑے طرم خانوں کو قوم نے بلاول اور مریم کے ساتھ گانوں کی دُھن پر مسکراتے دیکھا ، لیکن بابا جی اپنی دھن میں مست تھے ، اعلان کر دیا کہ 15 نومبر تک فرانس کے سفیر کو ملک بدر نہ کیا تو فیض آباد پر احتجاجی دھرنا ہوگا ، حکومت نے گرفتاریاں شروع کیں تحصیل اور اضلاع تک کے تحریک لبیک کے لوگ گرفتار ہوگئے لیکن پھر بھی آزاد زرائع کے مطابق علامہ رضویؒ مقررہ وقت پر 50 ہزار تک لوگ جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے ، پھر اتوار کو فیصلہ ہوا کہ پیر کو صبح فیض آباد کلئیر چاہیئے ، جس کے بعد بدترین شیلنگ کی گئی ، تشدد اور گرفتاریاں ہوئیں ، لیکن عاشقان رسول ﷺ کے قدم نہیں ڈگمگائے ، ہم نے یہ تاریخ اکابرین دیوبند کی سنی تھی ، لیکن آج وہی تاریخ اپنے بریلوی بھائیوں کو دہراتے دیکھا تو دل باغ ، باغ ہوگیا ، کہتے ہیں کہ حضرت حسین احمد مدنیؒ سے کراچی میں فرنگی کی عدالت میں پوچھا گیا کہ حسین احمد تم نے جو یہ فتوی دیا ہے کہ انگریز کی فوج میں شامل ہونا حرام ہے اس کی سزا جانتے ہو ، حضرت مدنیؒ نے فرمایا جانتا ہوں اسی لئے دیوبند سے کفن ساتھ لایا ہوں ، فرنگی جج نے کہا تمہیں کفن ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی جب حکومت پھانسی دیتی ہے تو کفن بھی خود دیتی ہے ، حضرت مدنیؒ نے فرمایا جانتا ہوں لیکن میں کفن اس لئے ساتھ لایا ہوں کہ فرنگی کے کفن میں مجھے اللہ کے پاس جاتے ہوئے شرم آتی ہے ، آج حضرت مدنیؒ کے کردار کو علامہ رضویؒ نبھا گئے۔


علامہ صاحب کی علمی اور سیاسی حکمت عملی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن آخر تک اپنے غیر لچکدار روئیے کی وجہ سے ان کے اخلاص پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ، یقیناً وہ سچے عاشق رسول ﷺ تھے ، پاکستان کی تاریخ کا شاید سب سے بڑا جنازہ ان کا ہوا ہے؛ لہذا اختلافات کو بھلا کر سچے عاشق رسولﷺ علامہ رضویؒ کو سلام پیش کریں۔
 یہ بات مشاہدہ سے ثابت ہو گئی کہ صرف قربانیوں کی داستانیں رقم کرنا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے واضح نظریات و حکمت عملی۔ اتحاد و اتفاق۔ با اعتماد و باصلاحیت قیادت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :