دو راستوں کے مسافر

بدھ 30 ستمبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

وقت بے رحمی پر اتر آئے، تو سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ خوابوں کے پہاڑ ملیا میٹ ہو کر زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ امیدیں دم توڑ جاتی ہیں۔ زندگی پھیکی، بے کیف اور بد مزہ بن جاتی ہے۔ آنکھوں پر اندھیرے چھا جاتے ہیں۔ 16 دسمبر 2014ء کا دن وہ قیامت خیز تھا۔ جس نے ننھے منھے، ہنستے مسکراتے ڈیڑھ سو سے زائد آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کے خواب چھین لیے۔

ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں۔ بہنوں سے ان کے بھائی چھن گئے۔ سینکڑوں گھروندے برباد ہوگئے ۔ سوکھے تکیے آنسوؤں میں بھیگ گئے۔ باپوں کا سرمایہ، ان کا مستقبل، ان کی امیدیں لہو سے تر ہو گئیں۔ اپنے جوانوں کے بچھڑ جانے کے بعد بے آسرا والدین کی ایک ہی امید، ایک ہی ترنگ تھی۔ ذمے داروں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ اس کےلئے انھوں نے دن رات عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔

(جاری ہے)

کوئی پکار کوئی آہ نہ سنی گئی۔ ستم در ستم ہوتا رہا۔ انھوں نے ہمت نہ ہاری۔ آخر کار چار سال در در ٹھوکریں کھانے کے بعد ان کی پکار سن لی گئی۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے جوڈیشل کمیشن بنایا۔
یہ کمیشن اکتوبر 2018ء کو پشاور ہائی کورٹ کے جج ابراہیم خاں کی سربراہی میں بنایا گیا۔ رواں سال میں جولائی کے مہینے میں رپورٹ جمع کرائی گئی۔  جو 525 صفحات پر مشتمل تھی۔

رپورٹ تیار ہوگئی۔ لیکن اسے پبلک نہ کیا گیا۔ پھر سانحہِ میں شہیدوں کے والدین کو پریشانی ہوئی۔ پھر انھوں نے رپورٹ پبلک کرنے کےلئے عدالت پر زور دیا۔ آخر کار رپورٹ کو پبلک کرنے کا حکم ہوا۔ 23ستمبر 2020ء رپورٹ پبلک کر دی گئی۔
لیکن صرف 27 صفحات کا مراسلہ والدین کو تھمایا گیا۔ باقی صفحات کو صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔ شنید ہے، وہ صفحات بھی پبلک کر دئے جائیں گے۔

مگر
پبلک ہونے والی رپورٹ کی داستان ہولناک ہے۔ دل کو چیر ڈالنے والی کہانی ہے۔ ہائے ستم، اپنے ہی غدار نکلے ہیں۔ اپنوں ہی نے ان سفاک درندوں کو پناہ دی۔ان کو کھانا کھلایا۔ ان کو اسلحہ دیا۔ ان کو سکول کے راستوں تک پہنچایا۔ ارے ستم دیکھئے، وہ درندے دہشتگرد افغانستان بارڈر سے پاکستان داخل ہوئے۔ اس واقعے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی۔

لیکن ان کو اسلحہ پاکستان میں فراہم کیا گیا۔ ان کو سکول کے نزدیک سول لوگوں نے اسلام کے نام پر جنت کی ٹکٹ لینے کےلئے رہائش اور خوراک مہیا کی۔ 16 اگست کی صبح جب دھند میں لپٹی ہوئی تھی۔ ان دہشتگردوں نے سکول پر دھاوا بول دیا۔ اس وقت سکول کے گرد تین حصوں میں سکیورٹی کے اہلکاروں کو تقسیمِ کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے داخلی دروازے پر گارڈز تعینات تھے۔

جنھوں نے حملے کے وقت کوئی مزاحمت نہ کی۔ اور راہِ فرار اختیار کر لی۔
اگر وہ اس وقت مزاحمت کرتے۔ تو کئی ماؤں کی گودیں اجڑانے سے بچ جاتیں۔
زائے نصیب ایسا نہ ہوا اور وہ درندے آسانی سے سکول میں داخل ہو گئے۔ دوسرے نمبر پر گشت کرنے والی موبائل فورس کے اہلکار تھے۔ جو دہشتگرد وں کی لگائی گاڑی کی آگ کی طرف لپکے اور وہیں مصروف ہو گئے، اتنے میں وہ سفاک سکول کا دروازہ پار کر چکے تھے۔

اسی موبائل فورس کے اہلکار جسے ایم وی ٹی کا نام دیا جاتا ہے، ان کو واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ بقول رپورٹ کے جنھیں سزائیں بھی دی جا چکی ہیں۔ ان میں ایک بریگیڈیئر، ایک میجر اور تین سپاہی شامل ہیں۔ تیسرے نمبر پر کوائک رسپانس فورس تھی۔ جنھوں نے کسی بھی ہنگامی صورتحال میں کنڑول سنبھالنا تھا۔ وہ جب پہنچے تو یہی دوہائی دیتے رہے، کہ تربیلا سے ایس ایس جی کمانڈوز آ رہے ہیں، وہ آپریشن کریں گے۔

یہ سارا عمل ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ ظلم معصوم کلیوں کو مسلتے رہے۔ ان کے نرم و ملائم جسموں کو بندوق کی نالی سے چھلنی کرتے رہے۔ اتنے میں کمانڈوز پنہچے، جنھوں نے پندرہ منٹ میں دہشتگردوں کو جہنم واصل کرتے ہوئے، سکول کو کلیئر کرا لیا۔
اس واقعے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت یکجا ہوئی۔ اور ملک کو دہشتگردی سے پاک کرنے کا عزم کیا۔

الحمدللہ، جس میں ہمارے سکیورٹی ادارے کامیاب ہوئے ہیں۔ اور آج ملک میں امن و شانتی ہے۔
 لیکن سانحہ پشاور ہمارے سکیورٹی اداروں کی ناکامی کا وہ دھبہ ہے، جس کا مٹنا مشکل ہے۔
یہ داغ ہمیشہ رہے گا۔ جب نیکٹا نے وارننگ دی تھی۔ تو سیکورٹی کیوں نہ بڑھائی گئی؟ جس راستے سے دہشتگرد گزرے، وہاں سیکورٹی کیوں نہ تھی؟ کیا سہولت کاروں کا تعین ہو سکے گا؟ کیا انھیں سزا دی جائے گی؟ یہ وہ سوال ہیں، جس کا جواب پاکستان کا ہر شہری لینا چاہتا ہے۔

امید ہے، یہ سوال اور اس سے متعلقہ بہت سارے سوالوں کے جواب بقیہ رپورٹ میں ہوں گے۔ مشکل وقت قومیں پر آتا رہتا ہے۔ عقل مندی اور دور اندیشی یہی ہوتی ہے،کہ اس سے سبق سیکھا جائے۔ اور سانحہ پشاور ہماری آخری ناکامی ہونا چاہیے۔ اس کے بعد خدا کرے ایسا وقت کبھی نہ آئے۔
سلام ہو، ان پر جو اس واقعے میں شہید ہوئے۔
سلام ہو، ان جوانوں پر جو اس ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔

اور سب سے بڑھ کر خدا پرنسپل صاحبہ محرومہ و مغفورہ کی لحد پر شبنم افشانی کرے، جس نے راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے بچوں کے ساتھ جنت کے باغوں میں جانے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ ان سفاک درندوں نے پرنسپل صاحبہ سے کہا، " ہم عورت کی عزت کرتے ہیں، آپ سے ہماری دشمنی نہیں، بھاگ جاؤ." سلام اس عورت پر  جس نے بچوں کو بچاتے ہوئے، اپنی جان قربان کر دی۔


جبکہ دوسری جانب جو اس واقعے کے سہولت کار تھے۔ وہ خوابیدہ ہیں۔ ان کو تو جنت کا ٹکٹ مل چکا ہے۔ مردہ ضمیر، دیوانے ہو کے مرتے ہیں، ایسے درندے جو ظالم کا ساتھ دیتے ہیں۔ اور خود کو جہادی اور پارسا گردانتے ہیں۔ ایسے دو راستوں کے مسافر اوندھے منھ گرتے ہیں۔ ایسے نام نہاد اسلام پسند اوندھے منھ جنہم کے گڑھوں میں گریں گے۔
جنھوں نے پھول جیسے بچوں کو کشت وخون میں تر کردیا۔ ایسے ظالم بے رحمی کی موت مرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :