ہڑپہ کی گلیوں میں گزرا اک دن

جمعہ 2 اکتوبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

خاکسار لیکھک  زندان تاریخ میں مقید ہے۔تاریخ سے اسے لگاو ہے،بلکہ تاریخ خاکسار کی متجسس آنکھوں کی جستجو ہے۔ وہ اسلامی تاریخ ہو،تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستان ہو یا پھر پاک و ہند کی تاریخ،سبھی کو کھوجنا،پڑھنا، اور سوچنا خاکسار کے بہترین مشاغل میں سے ایک ہے۔ لیکن تاریخ تو مبہم ہوتی ہے۔تاریخ تو لکھوائی جاتی ہے۔جیسے مشہور مقولہ ہے، " تاریخ فاتح لکھتے ہیں۔

" جبکہ دوسری جانب ہم تو آج تک یہ واضع نہیں کرسکے،ہماری تاریخ کا نقطہ آغاز قیام پاکستان سے ہے،یا محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے،کیا چندر گپت موریہ،اشوک اعظم ہمارا تاریخ کا حصہ ہیں کہ نہیں؟ مسلسل، قدم قدم پر تاریخ میں پچیدگیاں ہیں۔اور زیادہ تر یہ پچیدگیاں ہماری خود ساختہ ہیں۔یہ ایک لمبی بحث،عمیق تحقیق کی متلاشی ہے۔

(جاری ہے)

خاکسار کو تاریخ کے زندان میں قید ہوئے  چار برس ہونے کو ہیں۔

تاریخ سے رغبت ایف ایس سی سے ہوئی اور اب یہ خاکسار کا شوق بن چکی ہے۔ڈاکٹر علی شریعتی کے مطابق زندان تاریخ سے چھٹکارا علم و تحقیق سے پایا جا سکتا ہے۔جبکہ خاکسار اس قید سے چھٹکارا پانے اور تاریخ کی عینک اتار کر ،اپنی آنکھ سے تاریخی مقامات کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔کیونکہ تاریخ آنکھ سے کچھ نہیں دیکھنے دیتی،یہ سب کچھ وہ دکھاتی ہے،جو لکھنے والا لکھتا ہے۔

خاکسار کی کوشش ہوتی ہے ،کہ یہ جس تاریخی جگہ پر بھی جائے،اس کی تاریخ کو ایک جانب رکھ کر،اس کے موجودہ آثار کو دیکھے ۔اور دیکھے  یہ موجودہ انسان کو کیا پیغام دے رہے ہیں ؟
یہ زندہ جسموں کو کیا کہانی سنانا چاہتے ہیں؟ اور یہ آثار اپنے دیکھنے والوں کو کیا سبق پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔؟
یہ 18 اکتوبر 2018ء کی بات ہے،جب خاکسار  وادی سندھ کی تہذیب کے شہر ہڑپہ کو دیکھنے کےلئے ساہیوال سے ہڑپہ کی طرف روانہ ہوا،جو ساہیوال سے مغرب کی جانب آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔

یہ صبح کا وقت تھا،اور سردیوں کا سورج اپنی دھوپ چمک دمک سے چار سو پھیلا رہا تھا۔ہڑپہ کے کھنڈرات کو دیکھنے کی تمنا دل میں زور پکڑ رہی تھی اور یہی انتظار تھا کہ جلد از جلد منزل مقصود تک پہنچا جائے۔کچھ ہی دیر میں، خاکسار قبل مسیح کے ہڑپہ کی گلیوں کے سرھانے جا کھڑا ہوا۔
جو بڑے ٹیلے  کے درمیان واقع تھیں،گویا جیسے یہ شہر زیر زمین ہو،یا پھر دو پہاڑوں کے بیچ میں واقع گاوں کی مانند، دیکھائی دے رہا تھا
۔

گلیاں پختہ،سیوریج کا عمدہ نظام،حمام خانے، کنواں جہاں سے پانی کی ضرورت کو پورا کیا جاتا، اور خوب صورت مکان،گویا یہ لوگ مکمل طور پر انسانی آسائشوں کےلئے درکار ضروریات کے استعمال سے آشنا تھے۔
مکانوں کو بناتے وقت روشنی اور ہوا کے بندوبست کا مکمل خیال رکھا جاتا۔شہر محلوں میں منقسم،آمدورفت کےلئے بیل گاڑی کا استعمال،غلے کے گودام،حملہ آواروں سے بچنے کےلئے کانسی کے اوزار،ان آثار کو دیکھ کے لگتا ہے واقعی یہ لوگ تہذیب یاقتہ تھے۔

ان آثاروں کو دیکھنے کے بعد،خاکسار لیکھک ہڑپہ میوزیم کی طرف چلا گیا۔وہاں کھدائی کے دوران جو چیزیں دریافت ہوئیں،وہ رکھی ہوئی تھیں۔ان کے رہن سہن کےلئے برتن جو زیادہ تر مٹی اور کچھ کانسی سے بنے ہوئے تھے،جنگی اوزار،پوچا پاٹ کےلئے مورتیاں،کھیتی باڑی کےلئے استعمال ہونے والے آلات،آمدورفت کےلئے بیل گاڑی اور خوراک کو سٹور کرنے کےلئے مختلف چیزوں کے نمونے پڑے تھے۔


خاکسار لیکھک  میوزیم میں کچھ وقت گزارنے کے بعد، دوبارہ ان کھنڈرات کی طرف چل پڑا جو درختوں کے جھنڈ اور ٹیلوں کے مابین واقع تھے۔اس دوران خاکسار کے دماغ میں کئی سوال جنم لے رہے تھے۔یہ شہر تو دریائے راوی اور دریائے ستلج کے قریب آباد تھا،توپھر ہم اسے وادی سندھ کی تہذیب کیوں کہتے ہیں؟کیا یہ وادی راوی کے آثار نہیں کہلا سکتے،کیا ہم اسے پنجاب کی تہذیب نہیں کہہ سکتے؟  اگر یہ وادی سندھ کی تہذیب ہی ہے۔

تو کیا اس وقت سندھ یہاں تک بہتا تھا۔پھر یہ مفقود کیوں ہوا؟اس نے اپنا راستہ کب بدلا؟
ان سوالوں کی الجھن سے نکلنے کےلئے خاکسار دوبارہ ان مناظر میں کھو گیا،جو ہڑپہ کے کھنڈرات پیش کر رہے تھے۔یہ آثار 1922ء میں برطانوی عہد میں انڈین آرکیالوجسٹ آر ڈی بینر جی نے دریافت کیے۔وادی سندھ کی تہذیب کے کھنڈرات کی دریافت سے اب تک خاصی جانچ پڑتال ہوئی ہے اور تحقیق کا بہت کام ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔

سب سے دلچسپ عنصر جو اس تحقیق کے بعد سامنے آیا ،وہ ان اسباب پر تحقیق ہے،جو اس تہذیب کے صحفہ ہستی سے مٹ جانے کی وجہ بنے ۔
مختلف ماہرین کی آراء اس پر مختلف سامنے آئی ہیں۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تہذیب داخلی اور خارجی دونوں عوامل کی وجہ سے محدوم ہوئی ہے۔کچھ کے نزدیک یہ تہذیب دریا کے راستہ بدلنے کی وجہ سے ختم ہو گئ۔اور زیادہ تر کے نزدیک جنگ و جدل ،گھمسان کی لڑائیوں کے سبب یہ تہذیب فنا ہوئی کیونکہ جنگوں سے  زراعت کو نقصان پہنچا،جو قحط کا موجب بنی۔

یہ تہذیب کیوں فنا ہوئی،اس کو خاکسار محسوس کرنا چاہتا تھا،خاکسار ان آثار میں کھو جانا چاہتا تھا،خاکسار چاہتا تھا،ذہن جو خود بڑی ٹائم مشین ہے،اس ٹائم مشین کی مدد سے اس دور میں چلا جائے ،جب یہ تہذیب آباد تھی،اس کا عروج تھا۔اور خاکسار مائنڈ ٹائم مشین کی مدد  سے اس دور میں چلا گیا،خاکسار ان گلیوں میں اتر گیا،اور یہ ٹیلے کی بلندی سے قریبا سات فٹ نیچے چلا گیا اور خود کو ہڑپہ کی گلیوں میں گم کر دیا۔


ہڑپہ کے لوگ انتظامی امور کے ماہر تھے،کیھتی باڑی سے اپنے اور بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔اور یہ شکار بھی کرتے تھے۔جبکہ ان کا دھرم بھگوان کی پوجا پاٹ کرنا تھا۔لیکن ان میں اک خرابی تھی،ان کے پاس مستقبل کی حکمت عملی نہیں تھی،بیرونی حملوں کی صورت میں یک سوئی کی کمی تھی اور اس سے بڑھ کر یہ لوگ قدرت سے غافل تھے،یہ اپنے قادر مطلق کو نہ پہچان پائے۔

یہ اسباب ان کےلئے زہر قاتل ثابت ہوئے،اور یہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔خاکسار لیکھک  ان گلیوں میں سہم گیا،خاکسار کو ڈر لگنے لگا،اور خاکسار کو  اپنے مجموعی کردار سے ہڑپہ کے لوگوں کی کردار کی بو آنے لگی۔خاکسار وہاں سے باہر نکل آیا۔شام کے سائے ڈھلنے لگے تھے۔ڈوبتا سورج اپنی سرخی پھیلا رہا تھا اور اس سرخی میں یہ کھنڈر سرخ نظر آ رہے تھے۔اب خاکسار ان مناظر سے اکتا چکا تھا۔خاکسارگھر واپس لوٹ جانا چاہتا تھا اور یوں بھی جون ایلیا کے بقول۔۔۔
نظر پہ بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :