
کالا باغ ڈیم کو سیاسی مسئلہ نہ بنایاجائے
منگل 27 مئی 2014

محمد ثقلین رضا
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ نے گذشتہ روز احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی روشنی میں اس منصوبہ پر عمل درآمد یقینی بنائے ‘فیصلے میں کہاگیا کہ اگر یہ ڈیم نہ بنا تو پاکستان بنجر ہوجائیگا۔
(جاری ہے)
دوسری جانب واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ملکی ترقی کیلئے نہایت ہی ضروری ہے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہارخیال کے دوران سابق چیئرمین واپڈا کا کہناتھا کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں صرف اے این پی ہی اس منصوبے کی مخالفت کررہی ہے جبکہ گزشتہ عام انتخابات میں اسے مجموعی طورپر صرف پانچ لاکھ افراد نے ووٹ دئیے گویا اسی سے پچاسی فیصد لوگوں نے اس پر اعتماد ہی نہیں کیا‘ ان کاکہناتھا کہ محض پانچ لاکھ افراد کی حمایت والی جماعت نے لاکھوں لوگوں کے دل کی آواز کو نہ سنا ان کا کہناتھا کہ پانی کے ذریعے پیداہونیوالی بجلی کی لاگت ایک روپے سے زائد ہوتی ہے جبکہ تھرمل یا دیگرذرائع سے حاصل ہونیوالی بجلی سولہ ‘سترہ روپے فی یونٹ خرچ آتا ہے ان کا ایک ہی سوال تھا کہ اب تک کالاباغ ڈیم نہ بننے سے خیبرپختونخواہ کو کیا فائدہ حاصل ہوا ؟انہوں نے نقصان‘ فائدے کو ایک پلڑے میں تولنے کے بعد کہا کہ اس ڈیم کی بدولت پورا پاکستان فائدے میں رہیگا جبکہ نقصان کی شرح بیحدمعمولی ہوگی۔
کچھ عرصہ قبل سابق وزیر احمدمختیار نے فرمایاتھا کہ غیر ملکی قوتیں کالاباغ ڈیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں‘ پتہ نہیں انہوں نے یہ بیان جاری کرتے ہوئے کس جانب اشارہ کیاتھا ؟؟ آج سے محض چند ماہ قبل ہی اسمبلی میں آواز اٹھائی گئی کہ کالاباغ ڈیم سمیت دیگرڈیموں کی تعمیر رکوانے کیلئے بھارت دو ار ب روپے خرچ کررہاہے جس پر ایوان مچھلی منڈ ی بن گئے دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اسے اپنے اوپر تنقید قرار دیاتھا
ہم نے کچھ عرصہ قبل بھی عرض کیاتھا کہ ایسے منصوبہ جات جن کا براہ راست قومی مفاد سے تعلق ہوتاہے ایسے منصوبہ جات پر خدارا کوئی سیاست نہ کی جائے اورنہ ہی ایسے منصوبہ جات کو ذاتی نفع نقصان کے پلڑے میں تولاجائے بلکہ ان کے بارے میں بحیثیت پاکستانی ہی سوچااور پرکھا جاناچاہئے ۔
مزید کچھ عرض کرنے سے قبل دو خبریں بھی قارئین کی توجہ کیلئے پیش کریں گے نیپرا کے مطابق پاکستان اس وقت تیس ہزار میگاواٹ بجلی پیداکرنے کی صلاحیت رکھتاہے جبکہ اس وقت پیدوار صرف چودہ ہزار میگاواٹ ہے جس میں سے چالیس فیصد بجلی لائن لاسز ‘چوری کی نذر ہوجاتی ہے رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ کام چونکہ بغیر حساب کتاب کے ہورہاہے اس لئے کوئی چیک اینڈبیلنس بھی نہیں ہے جبکہ سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی اور تقسیم کارکمپنیوں میں خریدوفروخت کا معاہدہ بھی نہیں ہے ۔دوسری خبر گوکہ معمول کی کہانی ہی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ چار پیسے اضافہ کیاجاتا ہے تواس چار پیسے کو ایک یونٹ کے پلڑے میں نہیں تولناچاہئے بلکہ ہزاروں ‘لاکھوں یونٹ کے پلڑے میں دیکھاجائے تویہ رقم کروڑوں تک جاپہنچتی ہے یقینا یہ رقم اگر عوام کی جیبوں میں رہے اورانہیں لوڈشیڈنگ جیسے عذاب سے بھی نجات مل جائے‘ ان کے روزگار پر برقی عذاب نازل نہ ہو ‘توانائی کے بحران کے حل ہونے پر انہیں روزگار میسرآجائے‘ دیہاڑی دار طبقہ کے چولہے پھر سے گرم ہوجائیں تو یقینا یہ نفع معمولی نقصان سے کہیں زیادہ ہے ۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ماہرین آب کے مطابق آنیوالے دنوں میں پانی پر ہی جنگیں لڑی جائیں گی ‘بات کس حد سچ ہے یا ا س میں جھوٹ کی کوئی ملاوٹ شامل ہے ‘ہم اس بحث میں پڑے بغیر اتنا عرض کریں گے کہ پاکستان پانی کاقلت کاشکار نہیں ہوسکتا کہ اگر وسائل کو باقاعدہ پلاننگ کے مطابق استعمال کیاجائے‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ موسم برسات میں جس قدر سیلابی اور پہاڑوں سے آنیوالا پانی اگر جمع(سٹور)کیاجائے تو یہ سال بھر کیلئے پاکستانی ضروریات کیلئے کافی ہوگا نہ صرف بلکہ اس پانی کی بدولت توانائی کے بحران پر بھی قابو پایاجاسکتاہے۔ جیسا کہ نیپرارپورٹ میں کہاگیا ہے کہ چونکہ پلاننگ کا فقدان ہے اس لئے وسائل استعمال نہیں کئے جارہے ‘ اگر توانا ئی کے بحران پرقابو پانا ہے تو اول پلاننگ پر توجہ دیناہوگی‘ دوئم کسی بھی منصوبے کو سیاسی مفاد کے پلڑے میں تولنے سے گریز کرناہوگا‘ سوئم ڈیم چاہے کا لاہویاسفید ‘ علاقائیت لسانیت کی بنیادوں پر ان منصوبوں کی تخصیص ختم کرناہوگی ‘چہارم صرف کالاباغ‘ بھاشا ڈیم ہی نہیں بلکہ مستقبل کے توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے کئی چھوٹے ‘بڑے ڈیم بناناہونگے اور اس ضمن میں جہاں جہاں ممکن ہو یہ منصوبے شروع کئے جائیں پنجم یہ کہ ان منصوبہ جات کے ضمن میں ایک حکومت کی مخالفت سامنے رکھ کر دوسری حکومت ختم کرنے کی کوشش نہ کرے ۔اگر ان اقدامات کو یقینی بنالیاجائے توپاکستان توانائی کے عذاب سے نجات حاصل کرلے گا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.