نئے پاکستان میں صوبہ جنوبی پنجاب کے نام پر پرانی سیاست بازی کا کھیل

جمعرات 27 دسمبر 2018

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

تبدیلی کا خواب دکھانے والی پاکستان تحریک انصاف کا 100 دن کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو چکا ہے۔ سرکاری طور پر جو 100 دن کی کارکردگی اخبارات میں کروڑوں روپے کے مالیتی اشتہارات میں شائع کرائی گئی ہے وہ فقط تین الفاظ” ہم مصروف تھے“ پر مشتمل تھی۔ تاہم اخبارات کے دوسرے صفحہ پر ”ہماری کارکردگی کے لیے گواہی ہزاروں الفاظ کی “ کے تحت درجن بھر اخبارات میں پہلے سے شائع شدہ سرخیوں کو دوبارہ عوام کے سامنے بطور کارکردگی پیش کیا گیا ۔

اِس ہنی مون پیریڈ کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے اسبا ب پر بہت کچھ تحریر ہو سکتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ 70سال کے مسائل کو 100دن میں حل کرنا ممکن نہیں تھا۔ مگر مودبانہ عرض تو یہ ہے جس نئے پاکستان کا خواب قوم کو دکھایا گیا ہے کم از کم اُس نئے خواب، نئے پاکستان کا راستہ ہی قوم کو ہنی مون پیر یڈ میں دکھلا دیا جاتا ۔

(جاری ہے)

جس سے شائد کچھ تو محرومیوں کے ستم زدہ عوام کو تھوڑی سی راحت ہی نصیب ہو جاتی۔

پاکستان تحریک انصاف کے مد مقابل اپوزیشن کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ وہ خواب ہیں جو عوام کو عمران خان نے الیکشن سے قبل دکھلائے تھے اب خوابوں کی تعبیر بھی عمران خان کی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو شائد یاد ہو کہ الیکشن سے قبل پی ٹی آئی نے انتخابات سے قبل 55صفحات پر مشتمل اپنا ایک انتخابی منشور دیا تھا۔ اِس منشور کے باب سوئم ” وفاق پاکستان میں استحکام “ کے صفحہ نمبر 19پر ” انتظامی بنیادوں پر جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی راہ ہموار کرنا “میں آج بھی تحریر ہے کہ ” وفاق پاکستان کی اکائیوں کے مابین توازن قائم کرنے اور 35ملین لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکالنے کے لیے انتظامی بنیادوں پر صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا کریں گے۔

گزشتہ کئی دہائیوں خصوصاً حالیہ پانچ برس کے دوران جنوبی پنجاب کو بُری طرح نظر انداز کیا گیا اور مالی سائل کا بڑا حصہ وسطی پنجاب میں استعمال کیا گیا ۔ ایک علاقے کے طور پر پنجاب کی آبادی کا 32فیصد جنوبی پنجاب میں بستا ہے اور صوبے کا یہ حصہ انسانی ترقی کے بیشتر اشاریوں میں صوبے کے دیگر حصوں میں کہیں پیچھے ہے ۔ ڈی جی خان ، بہاولپور اور ملتان ڈویژن میں پھیلی غربت انتہائی زیادہ ہے اور اِن ڈویژن کا شمار ملک کی غریب ترین ڈویژیزن میں ہوتا ہے۔

“ یہ عبار ت لفظ بہ لفظ منشور کی نقل کردہ ہے۔ اس کے علاوہ 29اپریل 2018کو 11نکات پر مشتمل ایک یادداشت مابین پاکستان تحریک انصاف اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ تحریر کی گئی تھی جس پر عمران خان کے بحیثیت چیرمین پاکستان تحریک انصاف ، سردار میر بلخ شیر خان مزاری چیرمین جنوبی پنجاب صوبہ محاذ ، مخدوم خسرو بختیار صدر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ اور طاہر بشیر چیمہ جنرل سیکٹریری کے دستخظ موجو دہیں ۔

اِس 11نکاتی یاد داشت میں بھی100دن کے اندر جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 22اکتوبر 2018کو سردار عثمان خان بزدار وزیر اعلی پنجاب کے آفس سے ایک لیٹر جاری ہوتا ہے جس میں نئے صوبے کے قیام کے لیے 13ممبران پرمشتمل ایک ایگزیکٹو کونسل کی تشکیل کی خوشخبری قوم کو دی جاتی ہے اور اُس لیٹر میں چھ بنیادی TORsبھی تحریر ہوتے ہیں۔

بعد ازاں کونسل کے اجلاس کی نوید بھی دی جاتی ہے۔ مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ صوبہ جنوبی پنجاب کا قیام حسب سابق سیاسی روایات ایک الیکشن کا سیاسی نعرہ تھا۔ جو ایک بار پھر سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ موجودہ سیاسی تناظر اور سیاست دانوں کی دلی خواہشوں کے مد نظر ایک دفعہ پھرجنوبی پنجاب کی عوام کے ساتھ سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔صوبہ پنجاب کی تقسیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نہیں ہے بلکہ جنوبی پنجاب کے سیاست دانوں ، جاگیرداروں اور سرداروں کی وڈیرہ شاہی اور سرداری سوچ ہے۔

عشروں سے مقروض ، غربت و افلاس زدہ، معاشرتی نا انصافی ، معاشی ناہمواری ، زوال پذیر سماجی اقدار کی حامل اور فکر معاش میں گرفتا ر جنوبی پنجاب کی عوام کو جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن اور اُن کے 11اضلاع کے بااثر سیاست دان کوئی راحت دینا نہیں چاہتے۔ اگر صوبہ پنجاب تقسیم ہوتا ہے تو اِن لوگوں کو لاہور شہر کی رونقیں چھوڑ کر ملتان شفٹ ہونا پڑے گا۔

اِن کے بچوں کی تعلیم، اِن کی بیگمات کی شاپنگ ، اِن کا لاہوری شاہانہ طرز زندگی اورلاہوری حسین محفلیں وغیرہ وغیرہ ملتان جیسے پسماندہ شہر میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتیں۔اِ س کے علاوہ تخت لاہور کی بادشاہی کا نشہ طاقت پورے پنجاب کی حکمرانی میں ہے وہ خمار تقسیم پنجاب میں ادھورا رہ جائے گا۔جنوبی پنجاب کے منتخب نمائندگان جب اپنے حلقوں میں عوام کے سامنے جاتے ہیں تو اُن کا قول و فعل کچھ اور ہوتا ہے۔

اُن کے سب بھاشن فقط ووٹ کے لیے ہوتے ہیں۔ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہی منتخب نمائندے کسی عام ووٹر یا سائل کی فریاد لاہور میں سننا تک پسند نہیں کرتے۔ اپنے اپنے حلقہ میں سردار ، ملک اور چوہدری کہلوانے والے شرفاء ایک چائے کا کپ اپنے علاقہ کے شہری کو لاہور میں پلانا پسند نہیں کرتے۔ اِن کی اول کوشش ہوتی ہے کہ سائل کو ایک رات بھی لاہور میں قیام نہ کرنے دیا جائے ۔

چند جھوٹی تسلیوں کے ساتھ اُس غریب سائل کو واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ بابا تمہار ا کام ہو جائے گا بہت جلد تم کو آڈر ملے جائے گا۔ تم گھر جاؤ۔ سیاست کی تاریخ کے اوراق الٹائیں تو ایک حقیقت کڑوا سچ بن کر سامنے آجاتی ہے کہ جنوبی پنجاب سے قد آور شخصیات صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری مرحوم، گورنر پنجاب ملک مصطفی کھر، گور نر پنجاب سردار ذولفقار علی کھوسہ، وزیر اعلی پنجاب سردار دوست محمد کھوسہ، گورنر پنجاب سردار عبد الطیف خان کھوسہ، نگران وزیر اعظم سردار میر بلخ شیر مزاری، وزیر اعظم و سپیکر پاکستان یوسف رضا گیلانی اور درجنو ں وفاقی وزرا مختلف اوقات میں صاحب اقتدار رہے ہیں مگر اِن سب نے اپنی اپنی سیاسی بیان بازی اور سیاسی شعبدہ بازی کے علاوہ کبھی بھی قیام جنوبی پنجاب کے لیے کوئی عملی کوشش نہیں کی۔

کیونکہ یہ لوگ دلی طور پر پسماندہ علاقہ ملتان میں رہنا ہی نہیں چاہتے ۔ یہ لوگ فقط اپنے حلقوں میں ووٹ لینے آتے ہیں ورنہ اِ ن کاگزر بسر تو لاہور اور اسلام آباد میں ہوتا ہے۔ محرومیوں کے شکار جنوبی پنجاب کی عوام کے مصائب سے انہیں کوئی نہیں سرو کار نہیں۔ سردار عثمان خان بزدار ایک شریف قبیلہ کے شر یف النفس سردار فتح محمدخان بزدارکے قابل فکر فرزند ہیں۔

خدا نے ا نہیں آج عزت و حکومت دی ہے۔وہ خو دبھی غریب عوام کے مسائل و مصائب سے بخوبی آگاہ ہیں انہیں اب اِن تمام قبائلی سرداروں کی سابقہ روایت کو ختم کرتے ہوئے نئے صوبہ کا قیام عمل میں لانا ہوگا۔ بے شک صو بہ جنوبی پنجاب کا قیام قانون سازی اور دیگر سیاستی جماعتوں کی معاونت کا محتاج ہے۔ مگر اِس کی جانب ایک پہلا قدم ملتان میں سب سیکٹریریٹ وزیر اعلیٰ پنجاب اور سول سیکٹریریٹ کا قیام ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے قانون سازی نہیں بلکہ حکومت کے ایک ایگزیکٹو آڈر کی ضرور ت ہے۔

اِس ایک ایگزیکٹو آڈر سے جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن اور اُن کے 11اضلاع کے باشندوں کے انتظامی مسائل فوری طور پر حل ہو سکتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف اپنے منشور میں تسلیم کر رہی ہے کہ مالی وسائل کو وسطی پنجاب میں خر چ کر دیا جاتا تھا۔ ہر فر د باخبر ہے کہ مالی وسائل کی گذشتہ ادوار میں غیر منصفانہ تقسیم پہلے تحت لاہور کے وزیر اعلیٰ سیکٹریریٹ اور پھر سول سیکٹریریٹ میں بیٹھے طاقتور بیور و کریٹ کس طرح کرتے تھے۔

تقریباً 34.74ملین لوگ بشمول 141منتخب نمائندگان جب اپنے ہمہ قسمی ترقیاتی اور غیر ترقیاتی کاموں کے لیے سب سیکٹریریٹ وزیر اعلیٰ پنجاب اور سول سیکٹریریٹ ملتان سے رجوع کریں گے تو اُن کی عملی طور پر تحت لاہور سے جان بخشی ہو جائے گی۔ وہ بیورو کریٹ جو لاہور میں بیٹھ کر جنوبی پنجاب کے سائلین اور ملازمین کو شودر سمجھتے ہیں اُن کا براہمن پن بھی ختم ہو جائے گا۔

ورنہ لاہو رمیں ایک چٹراسی سے لے کر سیکٹریری تک سب جنوبی پنجاب کی عوام کا یکساں خون چوستے ہیں۔ ترقیاتی فنڈز کی جو بندر بانٹ لاہو رمیں بیٹھ کر لی جاتی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ تین ڈویژن کے ہمہ قسمی معاملات کی انجام دہی ملتان میں کم مسافت کی دوری کی بناپر بہت آسان ہو جائے گی۔ اور یہ پہلا قدم صوبہ جنوبی پنجاب کے قیا م کے لیے بارش کا پہلا قطرہ بھی ثابت ہوگا۔

جنوبی پنجاب کے 141نئے منتخب نمائندگان بالخصوص پی ٹی آئی کے 68نو منتخب نمائندگان کا اب فرض بنتا ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار سے یہ ایگزیکٹو آڈر جاری کروائیں اور فوری طورپر ملتان میں سب سیکٹریریٹ وزیر اعلیٰ پنجاب اور سول سیکٹریریٹ کے قیام کو عملی شکل دیں ورنہ نیا پاکستان کا خواب ادھورا رہ جائے گا اور ایک دن پانچ سال مدت کی یہ حکومت بھی ختم ہو جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :