سانحہ ساہیوال اورعوامی ردعمل

ہفتہ 26 جنوری 2019

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

وطن عزیزکاہردرددل رکھنے والاشہری سانحہ ساہیوال کے غم میں متاثرہ خاندان کیساتھ شریک ہے اورمصیبت کی اس گھڑی میں انکی ڈھارس بندھارہاہے معصوم بچے مادری وپدری شفقت سے محروم ہوگئے اللہ تعالی انہیں اورانکے اہل خانہ کوصبرجمیل عطافرمائے اس ساری صورتحال میں عوامی طورپرمثبت ومنفی ملا جلاردعمل پایاجارہاہے لیکن منفی ردعمل ہمارے ملک کے امن کوسبوتاژکرسکتاہے جوکہ متاثرہ خاندان سمیت پاکستان کے کسی بھی شہری کے لئے حوصلہ افزانہیں۔

اس واقعہ میں ملوث ہونیوالے سیکورٹی اہلکارزیرحراست ہیں اورانکے ساتھ قانون کے تقاضوں کے مطابق چارہ جوئی کاآغازکردیاگیاہے جرم کی سنگینی کے پیش نظرایک جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی گئی جواس واقعہ کے تمام پہلووٴں کاباریک بینی سے جائزہ لے کروزیراعظم کوحتمی رپورٹ پیش کرے گی۔

(جاری ہے)

اس واقعہ کی آڑلے کرکچھ ناعاقبت اندیش وطن عزیزکے محافظ سیکورٹی اداروں کی ساکھ کونقصان پہنچانے میں سرگرم ہیں اورسوشل میڈیاپرانکے خلاف مختلف قسم اپروپگینڈا کیا جارہا ہے ۔

مجرم کوئی بھی ہوقانون سب کے لئے ایک جیساہوتاہے۔ سیکورٹی ادارے یافورسزسے منسلک افرادبھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوتے اگروہ اپنے اختیارات سے تجاوزکرتے ہیں توانہیں بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑاہوناپڑتاہے اوراپنے خلاف دائرہونے والے کیس کاجواب دہ ہوناپڑتاہے۔کسی بھی شعبہ میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں لیکن چندکالی بھیڑوں کی وجہ سے اس شعبہ سے منسلک سبھی لوگوں کوقصوروارٹھہراکرملامت کرنا کسی طورپردرست عمل نہیں۔

سکیورٹی اداروں سے منسلک ہمارے جوان ہمارے دست وبازواورمحافظ ہیں انہی کی بدولت معاشرے میں امن وامان کی فضاقائم ودائم ہے وہ جرائم کی سرکوبی اورپاک وطن کی اندرونی وبیرونی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت تیاررہتے ہیں جس کے نتیجہ میں انہیں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ تک پیش کرناپڑتاہے اس لئے وہ یقینا ہمارے لئے قابل احترام ہیں اورایک محب وطن شہری کی حیثیت سے ہمارایہ اخلاقی قومی فریضہ بنتا ہے کہ ہم ملکی امن وسلامتی کی خاطرمختلف قوانین کا تہہ دل سے احترام کریں اورجرائم پیشہ ملک وملت کے دشمن عناصرکی سرکوبی کے لئے ان کا بھرپورساتھ دیں۔

پولیس ایک مقدس محکمہ ہے جوصبح سے لیکررات گئے تک عوامی جان ومال کی حفاظت کے لئے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتاہے۔ پولیس اوردیگرسیکورٹی اداروں سے وابستہ ایسے بیسیوں آفیسرزاورسپاہی ہیں کہ جن کا کردارواخلاق مثالی ہے وہ انتہائی جانفشانی اورحب الوطنی سے سرشارہوکراپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔اوراس دوران وہ اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے۔

میں ایک ایسے انویسٹی گیشن پولیس آفیسر کوجانتا ہوں کہ جومجرم سے تفتیش کے لئے ہرقسم کا حربہ استعمال کرتاہے اس دوران وہ اس کاجسمانی ریمانڈبھی لیتاہے لیکن اس سارے عمل سے گذرنے اوراپنافرض منصبی اداکرنے کے بعدوہ رات کی تاریکی میں اس کی بیرک میں جاکراس سے دست بستہ ہوکریہ کہتے ہوئے معافی مانگتا ہے کہ دیکھوتمہارے جرم کی پاداش میں تمہیں میں نے جوسزادی میں محکمانہ طورپراس کا پابندتھاشایداس دوران مجھ سے کوئی زیادتی سرزدہوگئی ہولہذامجھے خداکے لئے معاف کردینامیں دنیا ہی میں تم سے اپنامعاملہ صاف کرنا چاہتا ہوں اس سارے عمل کے دوران میری کوئی ذاتی رنجش تم سے نہ تھی۔

وہ رات کی تنہائی میں اپنی جیب سے ان قیدیوں کے لئے کبھی کبھارکھانا خریدکرلاتا ہے اورخود ان میں تقسیم کرکے آتاہے۔وہ سردی وگرمی میں حتی المقدوران کوتن ڈھانپنے کے لئے کپڑے بھی مہیاکرتاہے۔وہ اختیارات وذاتی وجاہت کے باوجودکسی سے زیادتی نہیں کرتاایک روزجب کہ وہ اپنی نئی گاڑی پردفتر سے گھرواپس لوٹ رہاتھاتوراستے میں ایک بوڑھے کمزورآدمی کی ریڑھی اسکی خوبصورت نئی گاڑی سے ٹکراگئی فطری طور پراُسے غصہ آیا اوراس نے اس کوایک تھپڑرسیدکردیالیکن اسی دوران اس نے دیکھاکہ وہ لاچارآدمی آسمان کی طرف منہ اٹھاتاہے اورابھی بارگاہ الہی میں ہاتھ بلندہی کرنے لگتاہے تویہ اس کے پاوٴں پکڑلیتاہے کہ خدارامجھے معاف کردواگرچہ اس آدمی کی غلطی تھی لیکن وہ کمزورتھااس کااورتوشایدکوئی ہمسرنہ تھاتواس نے اپنے مولی کی طرف فورارجوع کرناچاہالیکن یہ آفیسرجانتا تھاکہ ایک مظلوم کی بددعامیں کیا تاثیرہے اس کے معافی مانگنے پربوڑھابھی شرمندہوااورکہنے لگا یقیناغلطی میری ہی تھی لیکن اس خداترس پولیس آفیسر نے خوداس سے معذرت کرتے ہوئے اپنی راہ لی۔

میں یقین سے یہ بات کہہ سکتاہوں کہ اس شعبہ سے وابستہ دیگرلوگ بھی اس سوچ اوراخلاق کے حامل ہوجائیں توہمارے معاشرے سے جرم خودبخودختم ہوجائے گا۔یقینا آج بھی اس طرح کے فرشتہ صفت پولیس آفیسرزموجودہیں جوانسانیت کے لئے سرمایہ افتخارہیں۔اورملک عزیزکی سا لمیت کے لئے انکی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں لہذاکسی ایک کی غلطی کوسب پرتھوپ دینااورانکی کردارکشی کرنایہ اخلاقی گراوٹ کامظہرہے جس سے ہمیں احترازکرناچاہیے۔

سچ کوسچ اورجھوٹ کوجھوٹ کہنااگرچہ مشکل ہے لیکن یہی ایک تعلیم یافتہ خداترس اخلاقی اقداروروایت کے حامل معاشرہ کے افرادکا وطیرہ ہوناچاہئے۔
لہذاہم سب کوکسی بھی ناگہانی صورتحال میں جذباتی نہیں ہوناچاہئے اورتمام پہلووٴں کومدنظررکھناچاہئے۔کسی ایک جانب جھکاوٴجس میں اقرباپروری اوراپنے ساتھی کاناجائزدفاع ایک سنگین جرم ہے جس سے احترازلازم ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس صورتحال میں ہم اپنامثبت کرداراداکریں اورجلاوٴگیراوٴکی بجائے پرامن شہری بن کراپنے محافظوں کے شانہ بشانہ اس ملک خدادادکوامن وآشتی کاگہوارابنانے میں اپنابھرپورکرداراداکریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :