پی ایچ ڈی طالبہ کی خودکشی ،ذمہ دارکون ؟

جمعہ 21 اگست 2020

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

رواں ماہ 9اگست کوجامعہ کراچہ کے شعبہ پنجوانی سینٹرفارمالیکیولزمیڈیسن اینڈڈرگ ریسرچ میں پی ایچ ڈی کی ہونہاروخوبرو طالبہ نادیہ اشرف کی خودکشی کی خبرنے سوشل میڈیاپرٹاپ ٹرینڈکی صورت اختیارکرلی ،پرنٹ وسوشل میڈیاکے علاوہ نجی محافل میں ہرکوئی اپنی فہم کے مطابق اس پررائے قائم کررہاہے ایک بہت بڑی تعداداسے جنسی ہراسگی اوربلیک میلنگ کانتیجہ قراردے رہی ہے ،بہرحال ان ساری باتوں میں خودنادیہ اشرف کے گھروالوں کامئوقف ہی معتبرہے جن کاکہناہے کہ نادیہ کچھ عرصہ سے ذہنی مریضہ بن چکی تھی ان کے والد جوکہ میرین انجینئر تھے 2007میں اچانک لاپتہ ہوگئے تھے جس کے بعداپنی اعلی تعلیم کوجاری رکھنے کے لیے وہ مختلف جگہ ملازمت بھی کرتی رہیں ،نادیہ اشرف کے بھائی شہباز کی اس وضاحت کے بعدمختلف چہ میگوئیاں توبندہوگئیں لیکن اس موت نے ناصرف ہمارے خاندانی و تعلیمی نظام بلکہ معاشرتی نظام پربھی بہت سارے سوالات اٹھادیے ہیں جن کاجائزہ لینے کے بعد اصلاح کرنابھی انتہائی ضروری ہے وگرنہ ایسے دلخراش واقعات تسلسل سے جاری رہیں گے ،ہمیں فکروتدبرسے جائزہ لیناہوگاکہ وہ کون سے عوامل ہیں کہ جوایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان کواس کی زندگی سے اس حدتک مایوس کردیتے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کوختم کرنے پرآمادہ ہوجاتاہے ،
ان میں سب سے پہلے قصورواروہ والدین اوراساتذہ ہیں جواپنی خواہش کواپنے بچوں پرمسلط کرناچاہتے ہیں ان کے ہاں بچے کی کامیابی کامدارامتحانات میں پوزیشن یااچھے نمبرزہوتے ہیں اگرخدا نخواستہ کبھی کوئی بچہ امتحانات میں کم نمبرزحاصل کرے یاچندایک مضامین میں فیل ہوجائے توانہیں اس قدرطعن وتشنیع کاسامناکرناپڑتاہے کہ حسّاس طبیعت کے حامل بچے ہمیشہ کے لیے مایوسی کاشکارہوجاتے ہیں یاپھرانتہائی قدم خودکشی کاراستہ اختیار کرلیتے ہیں ،ایسے والدین اوراساتذہ سے گزارش ہے کہ وہ انگریزی کے اس مقولہ
Better late than Never"یعنی کبھی ناجانے سے تاخیرسے چلے جانابہترہے “کومدنظررکھیں،اعلی نمبرزمیں کامیابی کی کوشش کرنابہت اچھی بات ہے لیکن ذہنی طورپربچوں کواچھے یابرے نتائج کے تحمل کے لیے تیاررکھنابھی اشدضروری ہے ،انہیں یہ بتلانا ضروری ہے کہ زندگی اتارچڑھاؤکانام ہے ایسابھی ممکن ہے کہ آپ سوفیصدایک امتحان کے لئے تیارہوکرجائیں لیکن خدانخواستہ راستہ میں کسی حادثہ کاشکارہوجائیں یاامتحان گاہ میں کسی ایسی ذہنی یاجسمانی تکلیف میں مبتلاہوجائیں کہ آپ مکمل طورپرپیپرحل نہ کرپائیں ۔

(جاری ہے)


کچھ عرسہ قبل مجھے انٹرکے امتحان میں بطورنگران ڈیوٹی کرنے کاموقع ملاتو ایک دن دوران امتحان ایک بچے کی طبیعت اچانک بہت زیادہ خراب ہوگئی ب،بخاراورمسلسل قے سے اسکارنگ زردپڑگیا ،جس پرہم نے فوری طور پراس بچہ کوایک کمرہ میں شفٹ کیااوراس کوفرسٹ ایڈدینے کے بعداس کے والد جوخودپی ایچ ڈی ہونے کے علاوہ محکمہ تعلیم میں آفیسرتھے سے رابطہ کرکے انہیں امتحانی سنٹر میں بلوایا،تشریف لانے کے بعد انہوں نے بچے کی طبیعت دیکھی تو وہ کافی نڈھال تھااوربقیہ پیپرمکمل کرنے کی پوزیشن میں بالکل نہ تھا لیکن اس کا والد اسے پیپرمکمل کرنے کی ترغیب دیے جارہاتھالیکن بچہ معذرت کیے جارہاتھاکہ ابومیری طبیعت بہترنہیں میں پیپرنہیں کرپاؤں گا جس پرہم نے اس کے والدسے درخواست کی کہ بچے کومجبورمت کریں اس کی طبیعت ناسازہے اسے فوری طورپرکسی ڈاکٹرکودکھائیں ہمارے اصرارپروہ بادل نخواستہ بچے کوساتھ لے گئے ،اس بچے کے والد کے پیش نظراس بچے کے نمبرزتھے ناکہ اس کا صحتمند مستقبل ۔

ایسے والدین اپنے ہونہار بچوں کوہمیشہ کے لیے ضائع کردیتے ہیں ۔ایسے موقع پربچوں کوبھرپورحوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ حوصلہ شکنی کی ،ایک اوراہم مسئلہ جس کی جانب توجہ مبذول کرواناانتہائی ضروری ہے جس کاسامنا ہمارے ہاں ایم فل اورپی ایچ ڈی میں تحقیق کے طلباء وطالبات کوکثرت سے ہے کہ ان کے سپروائزرزان کے ساتھ coperateنہیں کرتے ،ریسرچ ورک میں قدم قدم پررہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ،لہذااگرنگران مقالہ کی خصوصی توجہ وشفقت شامل حال ہوتویہ سفرجلدپایہ تکمیل کوپہنچ جاتاہے وگرنہ ایک بڑی تعداددلبرداشتہ ہوکرتحقیق سے کنارہ کش ہوجاتی ہے ،نادیہ اشرف کی خودکشی کی خبرکے بعد سوشل میڈیاپرایم فل اورپی ایچ ڈی کے سپروائزرحضرات کوخوب کوسا گیاجس میں یقیناان حضرات کے غیرمناسب عدم تعاون کے رویوں کودخل ہے ،یونیورسٹیز کے سپروائزرصاحبان کواپنے رویوں کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے ۔


نادیہ اشرف کی خودکشی کی وجوہات میں سے ایک مرکزی سبب39سالہ عمرکے باوجود غیرشادی شدہ ہونا بھی ہوسکتاہے عورت طبعا کمزورہے اسے ایک مضبوط سہارے کی ہرزمانہ میں ضرورت ہوتی ہے والدین اوربھائیوں کے بعد خاوند کاسہارااسے مضبوط بناتاہے ،ہمارے ہاں ایک سوچ یہ بھی ہے کہ ایم فل پی ایچ ڈی کے بعد ہی شادی کی جائے حالانکہ یہ سوچ درست نہیں اس سوچ کے نتائج منفی ثابت ہوئے ہیں پی ایچ ڈی کی تکمیل کا انتظارکرنے والے بہت سارے سٹوڈنٹس overageہوجاتے ہیں ڈاکٹریٹ کے بعداگلامرحلہ سٹینڈرڈکے رشتہ کی تلاش کا ہوتاہے جس میں کچھ بیچارے تو اسی انتظار میں عمر ضائع کر بیٹھتے ہیں اورجنہیں اپنے سٹینڈرزکا ساتھی مل جاتاہے ادھیڑ عمر ہونے کے سبب ازواجی زندگی کی لذت سے ناآشنا رہتے ہیں ،اعلی تعلیم اورازواجی زندگی کوایک طبقہ ایک دوسرے کی ضدسمجھتاہے اگرچہ شادی کے بعد ریسرچ کی تکمیل میں مشکلات پیش آتی ہیں لیکن یہ مستقبل کی بہت ساری ناقابل تلافی مشکلات و مصائب سے چھٹکارے کاسبب ہے ،
اس خودکشی کے واقعہ کو سوشل میڈیاپرجس طرح منفی اندازمیں بغیرکسی تحقیق کے پیش کیاگیایہ ہمارے لیے افسوس وعبرت کامقام ہے خودکشی کرنے والی طالبہ کے سپروائزر ڈاکٹراقبال چودھری کی بغیرکسی ثبوت کے کردارکشی کی گئی جوقابل مذمت ہے ،سوشل میڈیاخاص طور پرفیس بک پرذرابرابرسوچ وبچار کے بغیرہی خبرکوآگے چلتاکیاجاتاہے جس کے نتیجہ میں مختصر وقت میں وہ چھوٹاپروپیگینڈاہزاروں لوگوں کومتاثرکردیتاہے ،ابھی چندروزقبل ہی لاہورمیں ایک سفیدریش بزرگ کی اپنی بیٹی کے نکاح فارم پردستخظ کروانے کے بعدشفقت سے بوسہ دینے کی ویڈیوسوشل میڈیاپروائرل ہوئی تواس پرہمارے مادرپدرآزادسوشل میڈیاپرجوطوفان بدتمیزی برپاہواوہ ڈوب مرنے کامقام ہے باپ بیٹی کی محبت کوہوس پرستی کانام دیاگیا،ٹوپی ڈاڑھی کامذاق اڑایاگیااس بوڑھے باپ اوراس کے خاندان کو اس منفی عمل سے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی اس کا اندازہ نہیں کیاجاسکتاہیں ہمیں اپنے آقاخاتم النبیین ﷺکایہ فرمان یادرکھناچاہیے کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مسلمان نہیں بن سکتاجب تک کہ اس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ ہوں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :