زمین کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داری

ہفتہ 24 اپریل 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

ماحولیاتی تحفظ کے لیے ہر سال 22 اپریل کوزمین کا عالمی دن (World Earth Day)منایا جاتا ہے۔جہاں تک اِس کی ابتدا کی بات ہے تو 1969ء میں سان فرانسسکو میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں امن فعالیت پسند،جان مک کونل (John McConnell)نے زمین کو امن اور عزت دینے کے خیال سے ایک یوم،21مارچ 1970ء کو منانے کی تجویز پیش کی۔ بعد میں اُس تجویز کو مک کونل نے ایک اعلان نامے کی شکل میں پیش کیا جس پر اقوامِ متحدہ کے اُس وقت کے سیکریٹری جنرل، اوتھاں (U Thant)نے دستخط کیے۔

اُسی سال امریکا کے ایک سینیٹر گیلارڈ نیلسن (Gaylard Nelson) نے ملک بھر میں ماحولیاتی تعلیم سے آگاہی دینے کی غرض سے 22 اپریل 1970ء کو زمین کا دن منانے کی تجویز پیش کی۔گیلارڈ نیلسن کی اُسی کاوش کے باعث اُسے حکومتِ امریکا نے صدارتی تمغا براے آزادی اعزاز سے نوازا۔

(جاری ہے)

اُس نے زمین کے دن کوامریکا میں قومی سطح پر منانے کے لیے ڈینس ہائیز(Denis Hayes)کو نیشنل کوآرڈی نیٹر مقرر کروایا۔

1990ء میں اِس دن نے عالمی حیثیت اختیار کر لی جب 141ممالک نے زمین کے دن کو منایا۔ تب سے یہ دن دنیا بھر میں زمین کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ اُس کے طویل مدتی ترجیحی شعبوں میں کلائمیٹ ایکشن، سائنس اور تعلیم، لوگ اور کمیونٹیز، تحفظ اور بحالی، اور پلاسٹک اور آلودگی شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی ہر سال زمین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔


کائنات میں معلوم حقائق کی روشنی میں چوں کہ زمین وہ واحد سیارہ ہے جس پر زندگی کے آثار موجود ہیں،اِس لیے ہم سب پر لازم ہے کہ زمین کے تحفظ کے لیے مل کر کوشش کرتے رہیں۔2021ء میں زمین کے عالمی دن کو منانے کے لیے ”اپنی زمین کو بحال کرو“ کا عنوان یا مرکزی خیال اپنایا گیا ہے جو دنیا کے مختلف ایکو سسٹمز کی بحالی کے لیے قدرتی اعمال کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہے۔

زمین کا صحت مند ماحول ہمارے لیے کوئی آپشن نہیں بلکہ یہ ہماری ضرورت ہے۔ پچھلے چند سالوں سے پاکستان سمیت 195مختلف ممالک میں ایک بلین سے زائد لوگ ہر سال زمین کے عالمی دن کی مناسبت سے مختلف سرگرمیوں میں شریک ہورہے ہیں۔ہر سال زمین کے عالمی دن کے حوالے سے دنیا بھر میں زمین کی بحالی کے لیے مختلفکوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ رواں برس عالمی سطح پر ہونے والی زمین کی بقا اور اس کے تحفظ کے لیے ایسی ہی کوششوں میں ہمیں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔


قدرتی وسائل میں سب سے زیادہ اہمیت آبی وسائل کو حاصل ہے۔ سطح زمین کا تقریباً 71%حصہ پانی پر مشتمل ہے اور اُس پانی کا 96.5%حصہ سمندری پانی جبکہ صرف 3%کے قریب حصہ تازہ پانی پر مشتمل ہے۔ بظاہر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اردگرد پانی ہی پانی ہے مگر صاف اور پینے کے قابل پانی انتہائی قیمتی اور محدود وسائل میں شامل شے ہے۔ زمین پر پائے جانے والے پانی کاعموماً صرف 1%حصہ انسانوں کے استعمال میں آتا ہے جب کہ باقی پانی یا تو اِس قدر نمکین یعنی کڑوا ہے یا پھرانسانی رسائی سے باہر ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اِس وقت دنیاکی 785ملین آبادی پینے کے پانی کی سروس سے محروم ہے جن میں 144ملین آبادی زمین کی سطح پر پائے جانے والے پانی کو پینے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ دنیاکی 2بلین آبادی پینے کے لیے فضلے سے آلودہ پانی استعمال کرتی ہے جس سے ڈائریا، کالرا، ٹائیفائڈ، پولیو اورآنتوں کی کئی بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ رہتا ہے۔ تصویر کا دوسرا رُخ کلائمیٹ چینج کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جس سے دنیا پانی کی کمیابی جیسے سنگین مسئلے کی جانب بڑھ رہی ہے۔

اِس صورت حال میں ہم سبپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پانی کو ہر ممکن حد تک ضائع ہونے سے بچایا جائے۔
آج کے دور میں زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں انرجی کا استعمال نہ ہوتا ہو۔ دنیا اِس قدر ترقی یافتہ ہونے کے باوجود ابھی تک انرجی کی زیادہ تر مقدارناقابلِ تجدید ذرائع یعنی فاسل فیولز سے پیدا کررہی ہے۔ اُن فوسل فیولز میں کوئلہ، تیل اور گیس زیادہ تر استعمال ہورہے ہیں جو کلائمیٹ چینج کو بڑھاوا دیتیہیں۔

دوسری جانب انرجی کو قابلِ تجدیدذرائع سے بھی پیدا کیا جاسکتا ہے جن میں ہوا، پانی اور سورج سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ انرجی قابلِ تجدید ذرائع سے پیدا کی جائے تاکہ کلائمیٹ چینج کی صورت میں زمین کو جو خطرات درپیش ہیں اُن سے بچا جاسکے۔ اِس بات سے قطع نظر کہ بجلی کن ذرائع سے پیدا کی جارہی ہے ہمیں اِس طرف توجہ دینے چاہیے کہ انرجی کو صرف ضرورت کے تحت ہی استعمال کیا جائے۔


زمین کے تحفظ اور قدرتی شکل میں اِس کی بحالی کے لیے شجرکاری کو اولین حیثیت حاصل ہے جس سے گلوبل وارمنگ میں کمی، زراعت کو فائدہ، مختلف بیماریوں کے پھیلاوٴ میں کمی اور مقامی معیشتوں کو فائدہ ہوگا۔ پاکستان کی موجودہ حکومت شجرکاری کی طرف خاطرخواہ توجہ دینے کی کوشش کررہی ہے۔ اِس حوالے سے وزاتِ کلائمیٹ چینج کے تحت Ten Billion Tree Tsunami Programme کے نام سے پہلے فیز کا آغاز کیا جاچکا ہے جس کا افتتاح ملک کے موجودہ وزیر اعظم نے 2ستمبر 2018ء کو کیا تھا۔

یہ حکومتِ پاکستان کا چار سالہ (2019-2023)منصوبہ ہے جس پر 125.1843بلین روپے کی لاگت آئے گی۔ اِس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے صوبائی و علاقائی جنگلات و جنگلی حیات کے محکمہ جات سے بھی مدد لی جائے گی۔ مگر محض کاغذ یا میڈیا پر نمبر گیم سے کہیں آگے بڑھتے ہوئے حقیقی معنوں میں اِس جانب حکومتی اور عوامی سطح پربھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا تناسب کل رقبے کا صرف 5.1%ہے جبکہ دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم کے مطابق پاکستان میں یہ تناسب محض2.2%ہے۔


اِس سلسلے میں دوسری کوشش خوراک اور ماحول سے متعلق ہے جس کے تحت ہمیں جدید ٹیکنالوجی کا رُخ کرنا ہوگا۔ اِس حوالے سے ہمیں خوراک کے لیے فصلیں اُگانے سے لے کر اُسے پیدا کرنا، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا اور محفوظ کرنا جیسے عوامل کی بہتری کی جانب توجہ دینا ہوگی۔پھر تیسری کوشش صفائی کے حوالے سے ہے جس کے تحت ہمیں اپنے اردگرد پبلک مقامات کو صاف رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ہمارے گردوپیش ماحول میں صفائی کے ناقص انتظامات ہونے کے باعث زمینی آلودگی میں روزافزوں اضافہ ہورہا ہے۔کھلی جگہوں پر فضلے کے ڈھیرسے خطرناک گرین ہاوٴس گیسیں خارج ہو رہی ہیں جو فضائی آلودگی کا باعث بن رہی ہیں۔ ہمیں انفرادی سطح پر اِس شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ پلاسٹک بیگز کے استعمال سے فی الفور چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ اِسی طرح چوتھی کوشش گلوبل وارمنگ اور آب و ہواکی بدولت پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی اور اُس کے اثرات سے متعلق آگاہی کے لیے ماحولیاتی لٹریسی پروگرامز شروع کرنے کی صورت میں ہو سکتی ہے۔

ایک اچھا گلوبل شہری ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سوسائٹی میں ماحولیاتی لٹریسی کی سطح کو بڑھانے میں اپنا انفرادی کردار ادا کریں۔ وزارتِ تعلیم کو چاہیے کہ ماحولیاتی تحفظ اور اُس کی بقا کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری معلومات اور اُن کی پریکٹس کو نصاب کا لازمی حصہ بنائے۔ حکومت کو چاہیے کہ مختلف قومی اور بین الاقوامی فورمز پر آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلیوں پر مباحثے کروائے جس میں وجوہات اور اُن کا حل تجویز کرتے ہوئے اُن پر عمل درآمد کروانے کی جانب حوصلہ افزائی کی جائے۔ ہمیں دوسروں کی جانب بعد میں دیکھنا ہے، پہلے خود عمل کرتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ہیرو بنناہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :