ڈاکٹرشوکت سبزواری۔جدید لسانی تناظر

پیر 10 مئی 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

قیامِ پاکستان کے بعد اُردومیں لسانی موضوعات پر لکھنے والوں میں ڈاکٹر شوکت سبزواری کا نام نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ وہ اُردو کے معروف محقق، نقاد اور ماہرِ لسانیات تھے جن کا اصل نام سید شوکت علی تھا۔وہ13 اکتوبر1908ء کو میرٹھ ، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔اُنھوں نے اُردو اور فارسی میں ایم اے کے امتحانات پاس کر رکھے تھے۔ اُردو لسانیات سے گہری دل چسپی رکھنے کے سبب اُنھوں نے لسانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

اُن کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ”اُردو زبان کا ارتقا“ تھا۔قیامِ پاکستان کے بعد وہ ڈھاکہ منتقل ہو گئے جہاں اُنھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں بطور صدر شعبہٴ اُردو اور فارسی تدریسی و انتظامی خدمات سرانجام دیں۔بعدازاں اُنھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی جہاں وہ ترقی اُردو بورڈ (اُردو لغت بورڈ) کے مدیرِ اعلیٰ رہے۔

(جاری ہے)

اُن کی نمایاں تصانیف میں ”فلسفہ کلامِ غالب“ (1946ء)، ”اُردو زبان کا ارتقا“ (1956ء)، ”داستانِ زبانِ اُردو“ (1960ء)، ”غالب۔

فکر و فن“ (1961ء)، ”معیارِ ادب“ (1961ء)، ”نئی پرانی قدریں“ (1961ء)، ”لسانی مسائل“ (1962ء)، ”اُردو لسانیات“ (1966ء)، اور ”اُردو قواعد“ (1982ء) شامل ہیں۔ 19 مارچ 1973ء کو اُنھوں نے کراچی میں وفات پائی۔
اُن کے تحقیقی مقالے ”اُردو زبان کا ارتقا “ کے نمایاں مباحث میں زبانوں کی صوری اور نسلی تقسیم، ہند و پاک کی قدیم و جدید زبانیں ، ہند و پاک کی زبانوں کے رشتے، اُردو زبان کا ماخذ، صوتی تبدیلیاں، اخذ و اشتقاق، اسما مانعہ، اسما متعلقہ اور الفاظ و مشتقات شامل ہیں۔

صوتی تبدیلیوں کے ضمن میں اُنھوں نے حرکات و علل ، حروف صحیح اور حروف مخلوط پر بحث کی ہے۔ اخذ و اشتقاق کے تناظر میں تالیف الفاظ (سابقے، لاحقے اور فارسی لاحقے) اور ترکیب الفاظ پر بحث کی گئی ہے۔ اسما مانعہ کے ذیل میں جنس، عدد، اعرابی حالت (فاعلی، مفعولی، اضافی، آلی یا سببی، مجروری، ظرفی) اور صلات کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ اسما متعلقہ کے حوالے سے اسم ضمیر، اسم اشارہ، اسم موصول، حروف استفہام، کنایات، ظروف، اسم اعداد (اعداد ترتیبی، اعداد توصیفی، عدد مکسور) اور حروف پر بحث کی گئی ہے۔

افعال و مشتقات پر بات کرتے ہوئے اُنھوں نے اصلی یا اولی مادے، وضعی یا ثانوی مادے، مصدر اور حاصل مصدر، تعدید، فعل معاون، مشتقات افعال ،معروف و مجہول، افعال کا استعمال، صورتیں اور افعال کی گردان کو بحث کا موضوع بنایا ہے۔ اُردو زبان کے آغاز و ارتقا سے متعلق قیاسی لسانی نظریات میں معلومات اور حقائق کی عمارت کو جدید لسانی بنیادوں پر کھڑا نہیں کیا گیا جس کا بنیادی سبب جدیدلسانیات کے اُصولوں سے عدم واقفیت تھا۔

اِس حوالے سے ڈاکٹر شوکت سبزواری خیال ظاہر کرتے ہیں کہ اُردو زبان کے آغاز سے متعلق اُردو والوں کی یہ قیاس آرائیاں چنداں معیوب نہ تھیں اگر اِن کی بنیاد علمی نظریوں پر استوار ہوتی۔ اُردو کی ساخت ، نشوونما، تاریخی ارتقا سے اُردو کے حسب و نسب کا کھوج لگا یا جاتا۔ اُردو کی قدیم و جدید ہم رشتہ بولیوں سے اُردو کا مقابلہ کر کے خود اُردو کی عہد بہ عہد تبدیلیوں کو سامنے رکھ کر طے کیا جاتا(اُردو زبان کا ارتقا،1956ء،ص 9)۔

اُردو زبان کے بارے میں اکثر نظریات مسلمانوں کے ہندوستان آنے کو ایک اہم سنگِ میل قرار دیتے ہیں۔ یہ بات اِس اعتبار سے تو بالکل درست ہے کہ مسلمانوں نے اُردو زبان کی نوک پلک سنوارنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا مگر یہ بات قطعاََ درست نہیں کہ مسلمانوں کی ہندوستان آمد سے قبل اُردو زبان کوئی وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔ تقابلی لسانیات کے ضمن میں ڈاکٹر شوکت سبزواری نے حافظ محمود شیرانی کے لسانی تحقیق پر مبنی کام کو سراہا ہے مگر وہ اُردو زبان کو پنجاب کی پیداوارتسلیم نہیں کرتے ۔

شیرانی صاحب نے اُردو اور پنجابی زبان کے موجودہ لسانی اشتراک پر زور دیا تھا مگر تاریخی و ارتقائی اعتبار سے اِن دونوں زبانوں کا مکمل لسانی تجزیہ عہد بہ عہد پیش نہ کر سکے جس کے باعث شوکت سبزواری کی ”پنجاب میں اُردو“ پر تنقید جائز دکھائی دیتی ہے۔ زبانوں کا تقابلی جائزہ پیش کرتے وقت اُن کے نزدیک زبانوں کے قدیم و جدید صرفی، نحوی اور صوتی سرمائے کا تجزیہ کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی کی طرح ڈاکٹر سبزواری بھی اُردو کا رشتہ براہِ راست مغربی اپ بھرنش سے جوڑتے ہیں۔
ڈاکٹر شوکت سبزواری کا کہنا ہے کہ”اُردو زبان کا ارتقا“ میں اُردو زبان کے صرفی، نحوی اور صوتی سرمائے کا تاریخی جائزہ لینے کے بعد اِس کے آغاز اور ماخذ کے متعلق کچھ مختصر سے اشارے کئے گئے تھے۔”داستانِ زبانِ اُردو“ اِن مختصر اشارات کی ترجمان ہے(داستانِ زبانِ اُردو، 1960ء، ص 3)۔

اُن کا یہ تحقیقی مقالہ پہلی دفعہ سہ ماہی ”اُردو“، کراچی کی خصوصی اشاعت 1960ء میں شائع ہوا تھا جسے بعد میں اضافوں کے ساتھ انجمن ترقیِ اُردو، کراچی نے شائع کیا۔اپنے اِس تحقیقی مقالے کو اُنھوں نے دس حصوں میں تقسیم کیا ہے جن میں اُردو، لسانی سرمایہ، مختلف نظریے، اُردو اور پنجابی، مولد و منشا،، اخذ و استفادہ، صرفی نحوی نشوونما، مزاج ومنہاج، ارتقائی مدارج، اور اُردوئے قدیم جیسے مباحث شامل ہیں۔

اپنے پہلے دونوں تحقیقی و لسانی مقالات میں اُنھیں جن لسانی مسائل سے واسطہ پڑا، اور جن پر وہ اپنی پچھلی دونوں تصانیف میں موضوع کے اعتبار سے کھل کر بات نہ کر سکے، اُنھی لسانی مسائل پر اُنھوں نے وقتاً فوقتاً مقالات تحریر کیے جو کتابی شکل میں ”لسانی مسائل “ کے عنوان سے بعدازاں ہمارے سامنے آئے۔ مضامین و مقالات کے موضوع کے اعتبار سے اُنھیں تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں قواعد و لسانیات، زبان اور رسم الخط، اور لفظی تحقیق شامل ہیں۔

قواعد و لسانیات کے تناظر میں لسانی مسائل، اُردو قواعد کی ترتیبِ نو، اُردو الفاظِ عامہ کی آپ بیتی، اُردو کی صرفی نحوی استواری، ”نے“ کی سرگزشت، ”جیسا“ کی سرگزشت، ”کی کی جگہ ”کے“ کیوں، اُردو کی مفعولی ضمیریں، احوال اسم، اور اُردو زبان کا ایک صوتی رجحان جیسے مباحث شامل ہیں۔ زبان اور رسم الخط کے ضمن میں اصلاح زبان اُردو، لکھنوٴ کی زبان، پاکستان کی قومی زبان، اُردو کے پچاس سال، اور اُردو کا رسم الخط نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔

لفظی تحقیق کے زمرے میں ”باورچی“ یعنی چہ، خودی میں خدائی، اور روداد میز و میزبانی جیسے مباحث کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری لسانیات کو زبان کی تنقید قرار دیتے ہیں۔
”اُردو لسانیات“ کے نمایاں مباحث میں اُردو کی اصل اور اُس کی ابتدا، اُردو زبان کا ارتقا، اُردو کی ساخت اور اُس کی سرشت، نظامِ اصوات و علامات، اُردو صوتیے، اعرابی نظام، ہائیہ آوازیں، غنہ آوازیں، روزمرہ اور محاورہ، ترادفی مرکبات، دخیل الفاظ، ہائے نسبت اُردو میں، اورکچھ ”ایسا“ کے بارے میں شامل ہیں۔

اِس کتاب کے پہلے تین ابواب بنیادی طور پر شوکت سبزواری کے و ہ توسیعی لیکچرز ہیں جو اُنھوں نے پشاور یونیورسٹی کے شعبہٴ اُردو میں دیے تھے۔ ”اُردوقواعد“ کے نام سے شوکت سبزواری کی تحریر کردہ آخری کتاب اُن کی وفات کے نو سال بعد شائع ہوئی۔ یہ کتاب وہ اپنی زندگی میں مکمل نہ کر سکے اور نامکمل حالت میں ہی اِسے مشفق خواجہ نے سید قدرت نقوی کی مدد سے شوکت سبزواری کی وصیت کے مطابق چھپوا دیا۔

حصہ نحو تو اِس کتاب میں بالکل شامل نہیں ہو سکا جبکہ حصہ صرف اپنی نامکمل شکل میں موجود ہے۔ یہ سید قدرت نقوی کی نظرِ ثانی اوراُن کے تحریر کردہ حواشی کی بدولت سامنے آئی ۔ اِس کتاب میں اجزائے کلام سے بات کا آغاز کیا گیا ہے اور پھراسم کی ذیل میں اسم بہ اعتبار افراد، اسم بہ اعتبار معنی، اسم بہ اعتبار ساخت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اسمِ ماخوذ کے ضمن میں مصدر، حاصل مصدر، اسم فاعل، اسم حالیہ، استقبالیہ، تصغیر و تکبیر، اسم آلہ، اور اسم ظرف سے بحث کی گئی ہے۔

اسمِ مرکب کے تناظر میں مرکب عطفی، مرکب نحوی، مرکب توصیفی، اور مرکب عددی پر بحث کی گئی ہے۔ جنس کے ضمن میں جنسِ حقیقی اور جنسِ غیر حقیقی (جنسِ قیاسی، جنسِ سماعی) پر بات کی گئی ہے۔ آخر میں عدد، حالت اور اسمائے مطلقہ پر گفتگو ملتی ہے۔ سید قدرت نقوی کے تحریر کردہ حواشی کے ساتھ ”ق“ کا اندراج کیا گیا ہے۔ برصغیر میں اُردو لسانیات پر سب سے زیادہ کام کرنے والوں میں ڈاکٹر شوکت سبزواری کا نام اولین حیثیت رکھتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :