تذکیر و تانیث اور ہمارے سیاستدان

جمعہ 26 اپریل 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

اردو و فارسی زبان و ادب کے معروف شاعر،مصور پاکستان حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری میں کسی بھی قوم کے لیڈر کے تین اوصاف کو شعری پیراہن پہناتے ہوئے فرمایا ہے کہ
 نگاہ بلند ،سخن دلنواز ،جاں پر سوز
 یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے 
اگر فلسفہ اقبال سے ہٹ کر اردو ادب کے دو بڑے دبستان (لکھنو و دہلی) اور ان کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو اردو زبان و ادب کی فنی خامیوں اور موشگافیوں پر انہوں نے اتنا شور بپا نہیں کیا ہوگا جتنا گذشتہ دو یوم سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے بلاول بھٹو کو” صاحبہ“ کہنے کے بعد پورے پاکستان میں ایک طوفان بد تمیزی اٹھا ہوا ہے۔

مجھے اس حیرت اس بات پہ نہیں ہو رہی کہ عمران خان نے یہ حرکت دانستہ کی ،سرزد ہوئی یا پھر واقعی زبان کا پھسل جانا ہی تھا،اس حرکت پہ بلاول پر ترس آرہا ہے کہ جو از خود اور ان کی پوری ٹیم یہ بات ثابت کرنے پہ تلی ہوئی ہے کہ عمران نے بلاول کو صاحبہ کہہ کر گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے۔

(جاری ہے)

عمران خان نے تو بلاول کو محض ایک بار ہی صاحبہ کہا مگر ان کے دفاع میں پرنٹ میڈیا،سوشل میڈیا سے لے کر پارلیمنٹ اور پورے پاکستان میں اب بیس کروڑ عوام کی زبان پر بھی کسی نہ کسی طرح یہی الفاظ گردش کر رہے ہیں کہ یعنی پورا پاکستان دو حصوں میں منقسم ہو گیا ہے ایک گروپ اہل الرائے کا کردار نبھاتے ہوئے بلاول کے کردار کا دفاع کرنے میں مصروف عمل ہے جبکہ دوسرا طبقہ وزیر اعظم کو معصوم وسادہ ثابت کر نے پر تلا ہوا ہے۔

اگر ہم تاریخ زبان اردو ادب کا مطالعہ کریں تو ہم جان جائیں گے کہ تذکیر و تانیث میں نظم و نثر لکھتے ہوئے تو حرف گیری کی جا سکتی ہے تاہم روز مرہ کی بول چال میں اتنی پکڑ نہیں ہوتی جتنا پچھلے دو دن سے اس بیان پر دونوں اطراف سے ہنگامہ سا بپاکر رکھا ہے، سیاستدانوں کے علم میں اضافہ کے لئے عرض ہے کہ اردو ادب میں ایک اصطلاح ہوتی ہے تذکیرِ غیر حقیقی یا تذکیرِ معنوی،جس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اسم جس میں کوئی علامت تانیث نہ ہو مگر اہلِ زبان اس کو مونث بولتے ہوں۔

مگر یہ سب تو اہل زبان کے واسطے ہے یہاں تو آدھی پارلیمنٹ گورنمنٹ سکول تو آدھی بیرون ملک سے فارغ التحصیل ہے کہ جنہیں یا تو علم ہی نہیں یا پھر جنہیں علم تو ہے مگر انگریزی ذریعہ تعلیم کی بنا پہ تذکیرو تانیث کا اتنا ہی پتہ ہے جتنا کہ کسی مولانا کو مے خانہ کا۔
قائد اعظم سے لے کر بلاول تک جتنے بھی بیرون ملک سے پڑھے لکھے سیاستدان ہیں سب ہی مذکر کو مونث اور مونث کو مذکر کہتے چلے آئے ہیں،اور گورنر غلام احمد سے لے کر شیخ رشید تک سبھی ذو معنین باتوں سے عوام کو محظوظ کرتے رہے ہیں ،اس میں اچنبہ و حیرانی والی تو کوئی بات نہیں ہونی چاہئے،کسے نہیں پتہ کہ بی بی ہمیشہ کہتی تھی کہ اذان بج رہا ہے،بلاول صاحب نے از خود عمران کے اس بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ”پاکستان کی عورتوں کے لئے کیا پیغام ہے،عورتیں مرد کے شابہ بشانہ کھڑے تھے،اگر فاطمہ جناح نہ ہوتی تو پاکستان نا بنتی،اسلامی ممالک نے عورت کو وزیر اعظم بنائی“اب اس سارے بیان سے آپ مجھے تذکیر و تانیث کو الگ الگ کر کے بیان کے حقیقی معنی سمجھا دیں کہ اصل میں بلاول کیا کہنے کی کوشش کر رہے ہیں،خدا را ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اس بحث کو یہیں ختم کر دیں وگرنہ اتنی تضحیک شائد عمران نے نہیں کی ہوگی جتنی پیپلز پارٹی کے لوگ از خود اپنے لیڈر کی ہر چینل پہ کر رہے ہیں۔

 
میرے ملک میں سیاست اور معیشت کا جنازہ تو پہلے ہی نکل چکا ہے اب رہی سہی اخلاقیات کا جنازہ نہ اٹھائیں کہ پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو،ویسے کسی نے بھی کسر کوئی نہیں چھوڑی کہ ہمیں بولتے ہوئے کن اخلاقی قدروں کا خیال رکھ کر بولنا چاہئے۔ یاد رکھئے گا کہ جو قومیں اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتی ہیں تباہی انکے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :