ظلم کرنے والوں کی وردیاں جلا دینا

بدھ 11 ستمبر 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

آئے روز ملک میں بڑھتے ہوئے پولیس مظالم خصوصاً پنجاب پولیس حکومت پاکستان کی کارکردگی پر ایسا سوالیہ نشان ہے مجھے ڈر ہے کہ اگر اس کا جواب بر وقت نہ دیا گیا تو پنجاب میں بڑھتی ہوئی طوائف الملوکی اور پولیس گردی کہیں پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ایک کے بعد ایک پولیس پولیس کے ظلم و ستم،ناروا سلوک،صرف پولیس کے ادارے کی کارکردگی کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ حکومت کی ناکامی کا بھی منہ چڑھا تا ہے۔

رحیم یار خان واقعہ کی صدائیں ابھی مدھم بھی نہ ہو پائی تھیں کہ لاہور ڈی پی او آفس کے احاطہ میں ایک بوڑھی ماں کے ساتھ جارحانہ رویہ کی وڈیو نے سوشل میڈیا اور پورے ملک میں گویا آگ لگا دی۔ابھی اس واقعہ کی حدت سرد بھی نہ ہوئی تھی کہ پاکپتن میں ایک پولیس اہلکار نے ایک بزرگ شہری کو زدوکوب کرنے کا ریکارڈ توڑ ڈالا۔

(جاری ہے)

سوچنے کی بات یہ ہے کہ پولیس گردی کے بڑھتے مظالم ملک کو کس سمت لے کر جا رہے ہیں،کیا ان کا ملک نہیں ہے۔

مجھے قطر میں ملازمت کرتے ہوئے بیس سال کا عرصہ ہوچلا ہے اس دوران خلیج کے دیگر ممالک میں بھی جانے کا اتفاق ہوا،ظاہر سی بات ہے کہ مختلف مسائل اور معاملات کے سلسلہ میں پولیس اور پولیس اسٹیشن سے بھی واسطہ رہا لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی پولیس والے کو ناجائز کسی سے بدتمیزی یا بد تہذیبی کرتے دیکھا ہو۔پولیس کو ہمیشہ عوام دوست،مخلص اور عوامی مسائل کے حل کا ذریعہ ہی پایا ہے۔

لوگ ان ممالک میں پولیس سے معاملہ کرتے ہوئے،انفارمیشن لیتے ہوئے یا گفتگو کرتے ہوئے ذرہ بھر جھجک محسوس نہیں کرتے کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ پولیس عوام دوست اور ان کی حفاظت کے لئے ہے۔مجھے یاد ہے ایک بار ایک دوست کے ساتھ سفر میں تھا کہ پتہ چلا آگے پولیس لائسنس چیک کر رہی ہے خیال فوراً پاکستان کی طرف گیا کہ یہاں بھی ایک انسپکٹر ایک درخت کے نیچے کرسی میز سجائے بیٹھا ہوگا اور پولیس اہلکار ڈرائیورز کو پکڑ پکڑ لارہے ہونگے،اور صاحب کے سامنے یوں پیش کر رہے ہونگے جیسے ساہوکار کے سامنے مزارع کو پیش کیا جاتا ہے مگر ایسا ہرگز نہیں ہوا بلکہ میری حیرت کی انتہا ہوگئی کہ جب ہماری باری آنے پر کڑی دھوپ میں کھڑے آفیسر نے ہاتھ کے اشارے سے گاڑی سے نکلنے کو منع کرتے ہوئے صرف لائسنس کا تقاضا کیا اور لائسنس چیک کرنے کے بعد اس دعا کے ساتھ شکریہ ادا کیا کہ سفر بخیر ہو۔

یقین جانئے اس آفیسر کے لئے دل سے دعا اور ہاتھ سے سلیوٹ کیا کہ خدا تمہیں بھی سلامت رکھے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے ملک کی پولیس کے لئے دست دعا نہیں ہوتے،کیوں انہیں دیکھتے ہی تبرہ بازی پر اتر آتے ہیں۔پولیس کے کپڑوں کو دیکھتے ہی اپنے کپڑے اترتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔پولیس کے ہاتھوں میں جاتے ہی اپنے ہاتھوں کے طوطے اڑنا شروع ہو جاتے ہیں،پولیس کی زبان چلتے ہی اپنی زبان بندی کیوں ہو جاتی ہے؟کیا ہماری پولیس کا کام لوگوں سے بدکلامی،زٹل بازی،غلو اور بدزبانی ہی رہ گیا ہے،خلیج اور یورپ کو طرح پولیس کو دیکھتے ہی ہم کب اپنے آپ کو محفوظ خیال کریں گے۔

کیا پولیس اصلاحات کی ضرورت ہے یا اخلاقی تربیت کی کمی ہے۔ویسے مقابلہ کا امتحان پاس کرکے،پولیس ٹریننگ سنٹر سے فنی تربیت حاصل کر کے بھی ایسے غیر اخلاقی واقعات کی مرتکب ہو تو پھر کون سے تربیت باقی رہ جاتی ہے۔لگتا ہے کہ اس ادارے میں تبدیلی کی اشد اور ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے اگر پولیس نظام کا جائزہ لیا جائے تو نو آبادیاتی نظام ہی بالواسطہ یا بلا واسطہ ملک میں لاگو ہے یعنی وہی انداز حکمرانی جو انگریز حکومت کا خاصہ تھا آج بھی من و عن چل رہا ہے۔

گویا فرعون چلا گیا لیکن فرعونیت نہیں گئی۔علاقہ کا ایس ایچ او آج بھی اپنے آپ کو علاقہ کا باپ ہی خیال کرتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان بارہا اس بات کی طرف اشارہ دے چکے ہیں کہ پولیس کے نظام کو درست کرونگا۔لیکن کب؟ ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب مستقبل قریب میں ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔میرے خیال میں تو پولیس کا سارا نظام ہی بدعنوانی اور فرسودگی کے قبضے میں ہے ایمانداری کا کہیں دور دور نشان نہیں ملتا ۔

کیونکہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پولیس کو سابق ادوار میں اتنا عوامی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا گیا جتنا کہ سیاسی شخصیات کے پروٹوکول اور رہائشی حفاظت کے لئے کیا جاتا رہا ہے۔اگرچہ ہر حکومت اپنی بساط کے مطابق پولیس اصلاحات کرتی رہی پھر بھی محکمہ کا کرپٹ ہونا اور عوام میں عدم تحفظ کا احساس اس بات کا ثبوت ہے کہ ابھی بھی ادارہ میں بہتری کی ضرورت ہے جو کہ دو طرح سے ہی ممکن ہو سکتی ہے،اخلاقی تربیت سے اور دوسرا منظر بھوپالی کے اس شعر کی عملی تفسیر بن کر کہ
اونچے اونچے ناموں کی تختیاں جلا دینا
ظلم کرنے والوں کی وردیاں جلا دینا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :