
چین کا معاشی گھیراؤ
جمعہ 20 مارچ 2020

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
آپ ذرا اندازہ کریں کہ جنوری میں ایک دم سے پھیلنے والی وبائی مرض مارچ کے شروع میں مکمل کنٹرول میں کرنے کے بعد چینی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اٹلی کے لوگوں کی مدد کے لئے پہنچ چکی ہے۔دو ماہ میں جس طرح سے چینی حکومت اور قوم نے مل کر کرونا کا سدباب کیا اسی طرح سے انہوں نے دنیا کی معیشت کو بھی اپنے مکمل کنٹرول میں کیا ہوا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے چین معاشی ریچھ بن گیا،ظاہر ہے کہ مخالفین کو کسی طور بھی یہ گوارا نہ ہوگا کہ ان کے مقابل میں کوئی اور ملک آن گھڑا ہو یا کوئی مقابل میں آجائے۔قیاس یہ ہے کہ چین کا معاشی اثر ورسوخ توڑنے کے لئے ضروری تھا کہ یا تو اس سے بہتر اور سستی اشیائے ضروریہ مارکیٹ میں فراہم کی جائے یا پھر اس کی معاشی ساکھ کو کسی طرح نقصان پہنچایا جائے،معاشی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے ضروری تھا کہ چین کی معیشت سے دنیا کے اعتبار کو ختم کیا جائے۔ہو سکتا ہے کہ اس اجارہ داری کو ختم کرنے کے لئے مخالفین سپر پاورز نے مل کر کرونا وائرس کا کوئی منصوبہ بنایا ہو کہ جس کی چین کی معیشت اور اعتبار دونوں کو زمین بوس کردیا جائے۔کیونکہ اگر اس سارے معاملات کے تانے بانے ملائے جائیں تو ووہان شہر میں کرونا اس وقت پھیلنا شروع ہوا جب امریکہ چین کی فوجی مشقوں کے خاتمہ کے بعد امریکی فوجیوں کا چین سے انخلا ہوا تھا۔دوسری بات یہ کہ یورپ میں اٹلی،فرانس اور پھر ایران اس موذی مرض کا شکار ہوئے۔اب اگر غور کیا جائے تو آپ دیکھیں کہ ایران کے پڑوس میں ترکی،افغانستان،سنٹرل ایشیا اور روس کی تمام ریاستیں اس مرض سے محفوظ ہیں جبکہ پاکستان میں بذریعہ ایران کرونا مریضوں کی تعداد میں اب تک روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ایران چونکہ شروع سے ہی امریکہ اور اسرائیل کو کھٹکتا ہے تو قیاس یہ کیا جا رہا ہے کہ ایران اسرائیل دشمنی کی بنا پر جبکہ پاکستان میں چونکہ سی پیک اور دیگر پراجیکٹس چین کے تعاون سے کام کر رہے ہیں تو ایک لحاظ سے مستقبل میں اکنامک ہب کا دنیا میں وقار اور اعتماد خراب کرنے لئے ایسا کیا گیا۔
چونکہ امریکہ کی معاشی حالت اور پوزیشن ایسی نہیں تھی کہ وہ معاشی محاذ پر چین سے ٹکر لیتا کیونکہ حال ہی میں ایک معاہدہ کے تحت افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ہوا ہے اور پھر چین کی معاشیات اور کاروباری تعلقات دنیا کے124 ممالک کے ساتھ ہیں جبکہ امریکہ باوجودیکہ سپر پاور صرف 56 ممالک کے ساتھ تجارتی رابطہ میں کامیاب ہوا ہے۔امریکہ بلیک فرائیڈے اور سائبر منڈے کے نام پر ایک دن میں 5.8 بلین ڈالر کما رہا تھا جبکہ چین صرف ایک دن میں 14.3 بلین ڈالر مالیت کی اشیا فروخت کر دیتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ چین کا معاشی گھیراؤ کرنے اور خود کو معاشی سپر پاور بنانے کے لئے امریکہ ،اسرائیل اور برطانیہ کوئی نیا منصوبہ بنا رہے ہوں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس نے یورپ میں ایسا کیوں کیا؟تو کبھی کبھار جنگی حکمت عملی اور چالوں میں اپنے پیادوں کو مروا دیا جاتا ہے تاکہ دنیا کی ہمدردیاں سمیٹی جا سکیں۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ امریکہ نے چین کو دنیا کے سامنے بے بس دکھانے اور ننگا کرنے کئے میڈیا کا بھی سہارا لیا حالانکہ چین کے اپنے میڈیا ہاؤسز خاموش تھے۔ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس اس قدر خطرناک نہ ہو،جیسا کہ ڈاکٹرز بتاتے ہیں کہ اس بیماری سے صرف دو فیصد مرنے کا چانسز ہوتے ہیں وہ بھی ایسے افراد میں جن میں مدافعاتی قوت کا فقدان ہوتا ہے جیسے بچے اور بوڑھے لوگ۔لیکن اس کا خوف پوری دنیا میں اس قدر پھیلا دیا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے آئندہ کئی دہائیاں ممالک متاثرہ ملکوں سے معاشی ومعاشرتی روابط نہ رکھیں۔ماہرِ معاشیات اور بین الاقوامی مبصرین کا ایک قیاس یہ بھی ہے کہ یہ سب چین کو معاشی طور پر کمزور اور ان کا معاشی گھیراؤ کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔تاکہ ان کی پیداوار اور تعلقات سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے۔کیا ایسا ممکن ہو سکے گا؟یہ ایک الگ سوال ہے جس کا جواب ابھی ممکن نہیں ہے۔
اگرچہ ترقی پزیر ممالک میں بھوک،افلاس،قحط اور وبائی امراض سے آئے روز ہلاکتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن کرونا جس ملک میں بھی تشخیص ہوا وہاں کی فضا میں ایک عجب طرح کا خوف پیدا ہوجاتا ہے کہ جیسے دنیا ابھی ختم ہو جائے گی۔ملک پاکستان میں بعض حلقے اسے اتنا سنجیدہ نہیں لے رہے کہ یہ ایک بیماری ہے کوئی بات نہیں،چونکہ یہ ایک وبائی مرض ہے تو اس لئے ہمیں اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کا پاس رکھتے ہوئے ارد گرد کے ماحول کو اتنا صاف ستھرا رکھنا چاہئے کہ ایسی کوئی وبا مستقبل میں بھی نہ پھیل سکے۔مذاق کی بجائے لوگوں کو تحریک دینی چاہئے کہ وہ جس قدر ہو سکے بحثیت مسلمان اپنے خدا کے حضور آہ وفغاں کے ساتھ سجدہ ریز ہو کر دعا و استغفار کریں کہ اللہ میرے ملک پاکستان اور پوری انسانیت پر آقاﷺ کے صدقے سے رحم فرمائے اور ہم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔آمین
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.