خونِ صدہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

پیر 27 جولائی 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

آقا ْﷺ نے قسطنطنیہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ”تم قسطنطنیہ ضرور فتح کرو گے اس کا امیر بہترین امیر اور اس کو فتح کرنے والا لشکر بہترین لشکر ہوگا“ایک اور روائت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ ”جس کسی نے میری امت میں سے مدینہ قیصرہ(قسطنطنیہ) پر پہلے چڑھائی کی اس کے لئے بخشش ہے“۔جب سے اس حدیث پاک کے الفاظ کو ترکیوں یعنی خلافت عثمانیہ کے آباؤاجداد نے سنا ان کا ایک ہی مشن تھا وہ یہ کہ ایک ایسی فوج تیار کرنا جو قسطنطنیہ کو فتح کر کے اس پر اسلام کا جھنڈا لہرا ئے۔

اسلامی علم کیسے لہرایا گیا اس سے قبل ہم دیکھتے ہیں کہ قسطنطنیہ کی کیا تاریخ رہی ہے اور رومیوں کا اتنا بڑا چرچ کیسے ایک مسجد میں تبدیل ہوا جس کے بارے میں 10مئی کو ترکی عدالت عالیہ کی طرف سے فیصلہ ہوا کہ اسے مسجد کے سٹیٹس پر بحال کردیا جائے۔

(جاری ہے)


قسطنطنیہ کا سب سے پرانا نام بازنطین تھا جو کہ 668 قبل از مسیح یونانیوں کے اپنے بادشاہ کے نام کی نسبت سے اسے آباد کیا اس کا شروع میں نام بازنظیم تھا جو تلفظ کے بگاڑ کی وجہ سے بازنطین بنا۔

330عیسوی میں قسطنطین نے ایک خواب دیکھا جس میں اسے قسطنطینن کو دوبارہ آباد کرنے کا اشارہ دیا گیا۔قسطنطین اعظم نے اپنا خواب پورا کیا اور اس شہر کو اپنا نام دیا۔بعد ازاں اس شہر کو نو روما،مدینہ قیصرہ یا اہل یورپ کے نام بھی دئے گئے جو کہ شہرت نہ پاسکے۔یہ شہر رومن سلطنت کا ایک حصہ تھا۔دنیا کی بڑی بڑی قوموں میں سے ایک رومن سلطنت بھی تھی جس کا دارالحکومت روم (اٹلی) تھا۔

27قبل از مسیح اس کی بنیاد آگسٹس سیزر نے رکھی تھی۔اس سلطنت سے دنیا کے بہت کے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے اپنی دھاک دنیا میں بٹھائی لیکن پانچ صدی عیسوی میں رومن سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ایک مشرق میں جس کا پایہ تخت قسطنطنیہ تھا اور اس میں یونان،ایشیائے کوچک،شام ،مصر اور حبشہ جیسے مشہور ممالک شامل تھے جبکہ دوسرا حصہ مغرب میں تھا جس کا مرکز روم تھا۔

یورپ کے بیشتر علاقے اس حصہ میں شامل تھے۔مشرقی حصہ جس کا دارلحکومت قسطنطنیہ تھا اس کا مذہبی پیشوا پٹریارکPatriarch کہلاتا تھا۔یہ آرتھوڈکس فرقہ کہلاتے تھے جبکہ روم میں مسند نشین عیسائیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کو پوپ یا پاپا کہتے تھے۔پوپ روم میں مسند نشین تھا اور اس کے ماننے والے کیتھولک فرقہ کہلاتے تھے۔بادشاہ قسطنطین نے اصل میں جب عیسائیت قبول کی تو اس کے ساتھ اس کی قوم بھی عیسائی مذہب کے پیروکار بن گئے۔

اس نے قسطنطین میں ایک بڑے چرچ کی بنیاد رکھی جسے مکمل کرنے کئے کئی سال لگے۔پوری دنیا سے آرتھوڈکس خیالات کے عیسائی اس چرچ میں عبادت کونے کو اپنے لئے ایک اعزاز خایل کرتے تھے۔تاریخ اس چرچ کو ایاصوفیہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔اس عالمی مرکز میں عیسائی عباد کرنے کو سب سے افضل سمجھتے تھے۔اسی لئے دنیا کے کونے کونے سے عیسائی یہاں ضرور جمع ہوتے تھے۔


1299 میں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والے سردار عثمان نے اس علاقہ کو فتح کرنے کا خواب دیکھنا شروع کردیا کیونکہ اس نسل کو قسطنطنیہ فتح کرنے کو خواب نسل در نسل سینہ سینہ بتایا جاتا تھا۔بلکہ ان قبائل کا تو کوڈ ورڈ ہی یہی تھا ۔کہ یہ راستہ کہاں کو جاتا ہے تو اس کا جواب ہوتا ،کزل ایلما یعنی سرخ سیب۔اس سرخ سیب سے مراد اصل میں قسطنطنہ کو ہی لیا جاتا تھا۔

جو کہ ترکوں کی اصل منزل تھی۔اس منزل کو سلطان مراد کے بیٹے سلطان محمد فاتح نے مراد تک پہچایا۔سلطان محمد فاتح نے اس علاقہ کو چودہ دن کے محاصرہ کے بعد 1453 میں فتح کیا۔یعنی ترکوں کے اس خواب کو کہ جو لشکر فتح کرے گا بہترین ہوگا اور امیر بہترین امیر ہوگا،شرمندہ تعبیر کیا۔سلطان محمد فاتح نے اس شہر کا نام تبدیل کر کے اسلام بول رکھا جو کہ تلفظ میں مشکل ادائیگی کی بنا پر استنبول کہلایا۔

1453سے لے کر1924تک یہ مسجد ہی رہی۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد جب عثمانیہ خلافت کا خاتمہ ہوا تومصطفی کمال اتا ترک نے جدید اور سیکولر ترکی کی بنیاد رکھی۔اس نے فرانس،انگلینڈ،اٹلی اور یونان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے معاہدہ لوزان کہا جاتا ہے۔بالآخر1935 میں اتاترک نے سے مسجد سے میوزیم میں تبدیل کردیا۔اور دارالحکومت بھی استنبول سے انقرہ تبدیل کردیا۔

31مئی2014 میں نوجوانانِ اناطولیہ ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں کھلے عام نماز ادا کی جس کا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ ایاصوفیہ ایک میوزیم نہیں بلکہ ایک مسجد ہے۔اور مسلمانوں کے پانچ سو سالہ حکومت کے شاندار ماضی کا ایک ورثہ ہے۔یعنی اس دن یہ آغاز ہو گیا کہ اس میوزیم کو مسجد مں تبدیل کردیا جائے۔موجودہ صدر ترکی طیب اردوان نے اپنی انتخابی منشور میں عوام سے وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ ایاصوفیہ کو پھر سے مسجد بنائیں گے۔

طیب حکومت نے اپنے اس وعدہ کو10مئی2020 میں پایہ تکمیل کو اس وقت پہنچا دیا جب ترکی کی عدالت عالیہ نے ایا صوفیہ کے مسجد کے سٹیٹس کو بحال کرنے کے احکامات صادر فرمائے۔
ایاصوفیہ کو مسجد کا پھر سے درجہ دینے کے اس فیصلہ پر پوری دنیا میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے خاص کر ان ممالک میں جن کا خیال یہ ہے کہ خلافت کو پھر سے بحال کیا جائے۔گذشتہ روز جمعہ کے خاص دن کے موقع پر طیب اردگان کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ نمازِ جمعہ مسجد ایاصوفیہ میں ادا کی جائے گی۔

اس سرکاری اعلان کے نشر ہوتے ہی مسلمانوں کے جذبہ ایمان میں ایسی حرکت پیدا ہوئی کہ جمعہ کے دن کے آغاز سے ہی لوگ جوق در جوق اکٹھے ہونا شروع ہو گئے اور نماز کے وقت ایک اندازے کے مطابق کوئی ساڑھے تین لاکھ لوگوں کے ایک جم غفیر نے صلوٰة جمع ادا کر کے ثابت کردیا کہ نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں۔اس جمع کی ایک بات خطیب صاحب کا خطبہ جمع میں اپنے ہاتھ میں اس تلوار کو تھام کر لوگوں میں جذبہ شوق جہاد پیدا کرنا تھا جس تلوار اور زور بازو سے سلطان عثمان نے اس کلیسا کو فتح کر کے مسجد میں تبدیل کیا تھا۔

طیب اردگان کے علاوہ اس کی کابینہ اور خلافت عثمانیہ کے آخری سلطان کی پوتی کو بھی اس خاص موقع پہ مدعو کیا گیا تھا۔اس عظیم موقع پہ اور قحط الرجال کے اس دور میں طیب اردگان جیسے عظیم سربراہ کو سلام کرنا یقینا بنتا ہے۔شائد علامہ اقبال نے ایسے ہی موقعوں کے لئے صدائے ضمیر کو اپنی سخنوری میں پیش کر رکھا ہے۔
اگر عثمانیوں پہ کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
لیکن حقیقت کے دوسرے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اب اصل مسائل پیدا ہوں گے جس کے لئے امت مسلمہ کو امت واحدہ میں مجتمع ہونا پڑے گا،کیونکہ ترکی کے اس عمل سے اندرونی وبیرونی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ملحدانہ قوتوں میں اضطراب پیدا ہو جائے گا۔یورپ شانِ گمشدہ کو بحال کرنے کے لئے گراوٹ کی آخری حد وں کو چھو سکتا ہے۔اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بین الاقوامی مخالفت کے ساتھ ساتھ وہ ممالک بھی میدان میں آسکتے ہیں جو کبھی خلافت عثمانیہ کی تلواروں کے سائے تلے زندگی گزار رہے تھے۔اگر خدانخواستہ ایسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو اپنے آباؤاجداد کی طرح صدائے تکبیر کے ساتھ ساتھ نوائے جہاد کو نہیں بھولنا ہوگا۔کیونکہ کبھی کبھار مزاحمت ہی مسائل کا اصل حل ہوتا ہے۔اور علامہ اقبال نے تو ایسے مسائل کا حل بھی اپنی شاعری میں پیش کر رکھا ہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :