
ہیلو ہیلو
ہفتہ 18 ستمبر 2021

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
ہو سکتا ہے امریکی صدر نے بھی فون پٹختے ہوئے یہی کہا ہو کہ تیرا ککھ نہ رہوے،کیونکہ یہ کال کوئی عام کال نہیں تھی اور مابین گفتگو بھی کسی عام موضوع پر نہیں تھی۔کال دو بڑی عالمی طاقتوں جبکہ زیر بحث ایک ایسا ملک جو اپنی ٹیکنالوجی،تعلقات اور معاشی استحکام کی بدولت اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے جا رہا ہے۔یعنی چین خود۔صدر شی کا جواب اس بات کا بھی عندیہ ہے کہ امریکہ اب کسی اور بڑی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس افغانستان سے قبل اس نے جتنی بھی جنگیں لڑیں ان سب میں اسے شکست کا ہی سامنا کرنا پڑا۔وہ ویت نام ہو ،کوریا یا خلیجی جنگ،تاریخ شاہد ہے کہ امریکہ کو کبھی کامیابی نہیں ملی۔اور اب تو دنیا کی عسکری و معاشی صورت حال یکسر تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔وہ اس لئے کہ اب جنگ اسلحہ،ہاتھی گھوڑوں اور پیادوں کی نہیں بلکہ ففتھ جنریشن سے بھی کہیں آگے نکل کر معاشی کنٹرول کی ہو گئی ہے۔اسی معاشی برتری کے سبب ہی کہا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں دنیا کی معیشت امریکہ سے نکل کر چین کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔اور چین جس طرح معاشی طاقت بنتا جا رہا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ وہ عالمی معیشت کو ایسے کنٹرول میں لے گا کہ جب جس ملک کو چاہے اپنے مطابق چلنے پر مجبور کر دے گا۔
اگر حالیہ BRTI منصوبے سے اندازہ لگائی تو ایسے دکھائی بھی دے رہا ہے کہ عنقریب جب چین کا یہ پراجیکٹ مکمل فعال ہو جائے گا تو ایشیا،یورپ،وسطی ایشیا اور روس وغیرہ سب کے سب اس کے ساتھ معاشی تعاون میں ساتھ کھڑے ہوں گے۔گویا ایک لحاظ سے یہ تمام ممالک چین کے معاشی اتحادی بھی ہوں گے۔اب دیکھتے ہیں کہ چین ان ممالک کو کیسے معاشی طور پر کنٹرول میں لائے گا۔اس کے دو طریقے ہیں،ایک ان ممالک کو قرض دے کر اورپھر اسے معاف کر کے۔اس عمل کو debt trap policy کہا جاتا ہے جیسا کہ چین نے سری لنکا میں کیا کہ اس کو پہلے قرض دیا پھر اسے ان کی بندرگاہ استعمال کرنے کے عوض معاف کردیا۔دوسرا طریقہ معاشی اتحادی بنا کر جیسا کہ جن ممالک سے بھی سی پیک اور ریلوے ٹریک گزرتا ہے ان ممالک سے معاشی معاہدات کے ذریعے سے۔گویا دونوں صورتوں میں چین دنیا کی معاشی پالیسیوں پر بالواسطہ یا بلا واسطہ اثر انداز ہوگا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ دنیا ہمیشہ طاقتور کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔کمزور اور بزدل کا کوئی ساتھ نہیں دیتا۔یہ سیاسی فلسفہ آج سے سینکڑوں سال قبل کوتلیہ چانکیہ نے اپنی کتاب ارتھ شاستر نے بیان کردیا تھا کہ معاشی طور پر کمزور ممالک کو طاقتور ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر رکھنے میں ہی ان کی بقا اورعافیت ہے۔اس لئے کمزور ممالک کو ہمیشہ نزدیکی سپر پاور سے تعلقات اچھے بنا کر رکھنے چاہئے۔تاکہ وہ اپنی بقا کی جنگ اچھے طریقے سے ممکن بنا پائیں۔اب موجودہ صورت حال میں اگر سپر پاور کا ٹیکہ امریکہ کے ماتھے سے اتر چین کے ماتھے کا جھومر بن جاتا ہے تو دنیا خود بخود ہی چین کے بلاک میں داخل ہو جائے گی کیونکہ کمزور اور غریب ممالک کو اپنی بقا سپر پاورز کے ساتھ بنا کر رکھنے میں ہی مضمر ہے۔چین اور امریکہ کی کال کی اس ہیلو ہیلو کے بعد دیکھتے ہیں دنیا کی معیشت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.