کیا حامد میر ملک چھوڑرہے ہیں؟

جمعرات 23 اپریل 2015

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

شیکسپئر کی ٹریجیڈی کنگ لیئر ہو یا سفوکلز کی یونانی ٹریجیڈی اِڈپس ریکس ، ہر ایک میں ہیرو کے ڈاون فال کا نتیجہ Hamartiaیعنی Error of Judgementرہا ہے۔ ہیرو غلط فیصلے کرتا رہا، غلطیوں پر غلطیاں کرتا گیا اور بعض مشیروں اور دور اندیش لوگوں کے سمجھانے کے باوجود وہ کسی غلطی کو غلطی نہیں بلکہ اپنی بہادری اور جرات مندی سمجھتا رہا۔ اُس کے سامنے علامات ظاہر ہوتی رہیں کہ بادشاہ سلامت ایسے تاریک راستے پر گامزن ہے جس پر چلتے ہوئے وہ ایک ایسے دلدل میں پھنس جائے گا جہاں اس کوکوئی بچانے والانہیں ہوگا۔

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس حقیقت کا ادراک ہوجاتا ہے کہ جب بھی کوئی ہیرو پسپا ہوا وہ اپنی کوتاہیوں اور حماقتوں کی وجہ سے ہوا۔ دشمنوں نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ وہ خود اپنا دشمن بنا۔

(جاری ہے)


اگر ہم دور حاضر میں دیکھیں تو آج کل کے ہیروز بھی Error of Judgementکا ہی شکار رہے ہیں جو انکی پسپائی کا نتیجہ بنا۔ صدام حسین سے لیکر جنرل ریٹائرڈپرویز مشرف تک پسپائی کا شکار ہونے والے ہیروز خود کو دنیا کا ذہین اور فطین ترین انسان سمجھتے رہے اور تجزیہ کاروں اور پڑھے لکھے لوگ جب ان کے فیصلوں پر تنقید کرتے تھے اور ہیرو کو اُسکی غلطی کا احساس دلانے کی کوشش کرتے تو یہ اس تنقید سے سبق سیکھنے کے بجائے اسے اپنی بے توقیری اور حقارت سمجھتے رہے ۔

لیکن میراموضوع ایک ایساشیر ہے جو کبھی Hamartiaکا شکار نہیں رہا، جو کبھی تاریک راستوں پر نہیں چلا، جس نے کبھی جان بوجھ کر غلطیاں نہیں کیں بلکہ اندھیروں میں سے بھی اُجالا تلاش کیا اور نہ صرف خود بلکہ ملک وقوم اور حکمرانوں کو بھی تاریکی سے نکالنے اور روشن راستہ دکھانے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہا، جو بھی کام کیا سوچ سمجھ کر کیا، جو بھی بات کی ہوش و حواس میں کی اور نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے کی۔

اسی لئے وہ ہیرو سے ولن نہیں بنا۔ اُس کے دشمن ایک سال قبل اُسے زخمی کرنے میں تو کامیاب تو رہے لیکن مٹانے یا پستی میں گرانے میں مکمل ناکام رہے۔
شیر اگر زخمی بھی ہوجائے وہ تب بھی شیر ہی ہوتا ہے اور زخمی حالت میں بھی جنگل کا بادشاہ ہی کہلاتا ہے۔ یہ شیر جب گزشتہ سال زخمی ہوا تو بہت سارے گیدڑ جھاڑیوں سے نکلے ، نزدیک سے حملہ کرنے کی جرات تو نہیں کرسکے لیکن دور دور سے ہی حسد اور بغض کی آگ میں جلتے ہوئے زخمی شیر کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی، ایسے الزامات جن کا کوئی سر پیر نہ تھا۔

یہ نام نہاد پڑھے لکھے لیکن عقل سے عاری لوگ یہ تک بھی کہتے رہے چھ کی چھ گولیاں جسم کے نچلے حصوں پر کیوں لگیں اوپر کیوں نہیں؟ ایسے لوگوں کی تعداد اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر تھی لیکن وہ اپنے غلط رویوں اور )پاگل پن کی وجہ سے بے نقاب ہوگئے۔ یہ لوگ زخمی شیر کا کچھ نہیں بگاڑ سکے بلکہ انہوں نے خود کو بے نقاب ضرور کیا ۔یہ لوگ آج کل اپنی ساکھ کی نہیں بلکہ بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہیں اِس لئے کہ جھوٹ کے کبھی پاؤں نہیں ہوتے اور جھوٹ کو ثابت کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔


یہ شیر19اپریل 2014کو کراچی میں چھ گولیاں لگنے کے بعد پہلے کراچی کے آغاخان ہسپتال میں زیر علاج رہابعد ازاں اسلام آباد میں اپنے گھر میں کئی ہفتوں تک بستر میں پڑارہا۔ ایسا صحافی جس کا اڑنا بچھونا صحافت ہے، جو اپنے ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے حالات و واقعات سے ہر لمحہ با خبر رہتے ہیں، اس دوران اخبار پڑھتے تھے نہ ہی ٹیلی وژن دیکھتے تھے۔

حتیٰ کہ ڈاکٹروں نے لوگوں سے زیادہ ملنے سے بھی منع کیا تھا۔ اُسے اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا مکمل ادراک تھا، اُسے جسم میں لگی گولیوں کے زخموں کادرد شدت سے تھا، لیکن اس کے باوجود بالکل مطمین تھا، وہ درد سے اکثر اوقات چیختا تھا وہ بھی کسی کے سامنے نہیں۔ اُسے کوئی پچھتاوا یا دُکھ نہیں تھا۔ ملک کے چند نام نہاد دانشوروں کے جھوٹے اور زہریلے تبصروں سے مجھ سمیت کروڑوں لوگوں کا دل دکھ سے دہل جاتا تھا۔

ایک روز میں اِس زخمی شیرکے بیڈ پر پاؤں کی جانب بیٹھا تھا اور میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک اینکر پرسن کی لغو تبصروں کا اظہار کیا، زخمی شیر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے لوگ کم ظرف ہوتے ہیں، اُنہیں اور اُنکی باتوں کو نظر انداز کرنا چاہئے۔ اِس زخمی شیر نے کبھی کسی کو بُرابھلا نہیں کہا، کسی پر نکتہ چینی نہیں کی، کسی کے الزامات کا جواب تک نہیں دیا،کیونکہ انسان خودسچا اونیت کا صاف ہو تو اس کا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ ضرور سرخرو ہو کر بحران سے نکل آئے گا اور اللہ کی مدد اس کے ساتھ ہے۔


یہ زخمی شیر جب طبی معائنہ کرانے چند روز کیلئے برطانیہ روانہ ہوا تو بعض اخبارات نے اس قسم کی سرخیاں شائع کیں کہ وہ فیملی سیمت ملک سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے اس پروپیگنڈے کا بھی جواب نہیں دیا لیکن جب چند ہی روز میں یہ زخمی شیر نہ صرف وطن واپس آیا بلکہ اُسی جوش و جذبے سے دوبارہ کام شروع کیا تو جھوٹی افواہیں پھیلانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔


آج کل پھر ایک بار کہا جاتا ہے کہ یہ زخمی شیر ملک سے باہر جانے کیلئے تیار ہورہا ہے۔ شائد اس قیاس آرائی نے زخمی شیر کے بی بی سی کو دئے جانے والے ایک حالیہ انٹرویوکی وجہ سے جنم دیا جو بی بی سی کی نمائندہ ارم عباسی نے لیا۔ میرے خیال میں اس انٹرویو کی بنیاد پر زخمی شیر کے ملک سے چلے جانے کی باتیں کرنے والے زخمی شیر کے الفاظ کو نہیں سمجھ سکے ہیں جو انہوں نے سوال کے جواب میں ادا کئے۔

ان کے الفاظ یہ تھے کہ "جتنی کوشش میں نے کی میں پاکستان نہ چھوڑوں اتنی ہی کوشش کی جارہی ہے کہ میں پاکستان چھوڑوں۔ ابھی تک میں کوشش کررہا ہوں کہ میں ملک نہ چھوڑوں لیکن اگر مجھ پر پریشرز کم نہ ہوئے تو ہوسکتا ہے کچھ عرصہ کیلئے مجھے پاکستان سے باہر جانا پڑے" ۔
اس بیان کو ہر انسان اپنے اپنے انداز میں تشریح کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن میں جس حامد میر کو جانتا ہوں وہ بہت بہادر، نڈر، بے باک اور جرات مند ہیں۔

وہ بھٹی سے نکلا ہوا سونا ہے۔ اکثر لوگ اس ملک میں رہنے اور اس کو خیر باد کہنے کا فیصلہ اپنے ذاتی مفادات اور ترجیحات کی بنیاد پر کرتے ہیں لیکن حامد میرجو اقدام کرتے ہیں وہ ملک اور قوم کی مفاد کیلئے کرتے ہیں چاہئے انہیں اس کی کوئی بھی قیمت ادا کیوں نہ کرنی پڑے۔
حامد میر اس ملک کو کسی صورت چھوڑ کر نہیں جائیں گے، انہیں اس مٹی سے پیار ہے، انہیں اس ملک اور قوم کا درد ہے، ان پر پریشر ضرور ہے، انکی زبان عارضی طور پر بند کی جاسکتی ہے ، اگر انہیں اندھیرے میں پھینک دیا جائے تو جتنا زیادہ اندھیرا ہو اتنا ہی وہ زیادہ چمکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :