صدائے کشمیر، نورین اکرم

پیر 6 جولائی 2020

Naeem Kandwal

نعیم کندوال

73سالوں سے کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے لیکن عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔دنیا کا ہر مذہب اور معاشرہ ظلم و جبر کی پر زور مخالفت اور مذمت کرتا ہے، بلکہ تمام مذاہب کی تعلیمات میں ظلم ایک عظیم گناہ اور قابلِ مذمت فعل ہے۔
ایڈووکیٹ نورین اکرم راٹھور نے کشمیر میں ہونے والے مظالم کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی ہے ۔

نورین اکرم نے مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھا کر تمام انسانی حقوق کی تنظیموں ، عالمی اداروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔نورین اکر م راٹھور جرمنی میں رہ کر انسانی حقوق اور مساوات کے لیے بھر پور آواز اٹھار ہی ہیں۔اُن کا یہ جرات مندانہ فعل انتہائی قابلِ تعریف ہے۔

(جاری ہے)


کشمیر میں ظلم کی ایک طویل داستان رقم کی جا چکی ہے۔

73سالوں سے مظلوم کشمیری عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔بھارتی حکومت اور افواج کے مظالم کی ایک طویل داستان ہے۔ہزاروں معصوم کشمیری بے دردی سے شہید کیے جا چکے ہیں۔ہزاروں ماؤں کی گودیں اجڑ چکی ہیں،ہزاروں عورتوں کے سہاگ اجڑ چکے ہیں ،ہزاروں معصوم بچے یتیم ہو چکے ہیں، ہزاروں عورتوں کی بے حرمتی کی جا چکی ہے۔چھینتے ہیں ہونٹوں سے دعائیں اور سروں سے ردائیں دشمن نے جن بھیڑیوں کوجنگلی وردی پہنا دی لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل خاموش ہیں۔

انسانی حقوق کے علمبراداروں کی خاموشی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
غاصب بھارتی فوج نے 5اگست 2019ء سے کشمیر میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔لوگ اپنے گھروں میں قید کر دیئے جا چکے ہیں۔خوراک اور ادویات کی کمی کے باعث لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔تقریباََ گیارہ مہینوں سے کرفیو کی وجہ سے لو گ قیدیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کوادویات اور غذائی قلت کا سامنا ہے ۔

عالمی برادری کو اِس ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے ۔اقوامِ متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کو مظلوں کشمیریوں کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیئں ۔عالمی برادری کی خاموشی پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کا ظلم و ستم تمام حدیں پار کر چکا ہے۔معصوم نواسے کی آنکھوں کے سامنے بزرگ نانا کو گاڑی سے اتار کر گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔

لاش کے پاس تین سالہ بچے کے رونے کی تصویر نے پوری دنیا کو نہ صرف رلا دیا ہے بلکہ اُن کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔
سوئے ہوئے ضمیر نے اب تک دروازہ نہیں کھولا ہم نے تو ظلم کے پہلے دن زنجیرِ عدل ہلا دی۔اِس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر میں نورین اکرم راٹھور کو دادِ شجاعت دیتا ہوں ۔انسانی حقوق کی تنطیمیں اور کارکنان کو اِس سے سبق سیکھنا چاہیے ۔وہ دن دور نہیں جب نورین اکرم راٹھور جیسے عظیم لوگوں کی محنت رنگ لائے گی اور کشمیر آزاد ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :