جہلم کندوال کے سیلاب زدگان

جمعرات 17 ستمبر 2020

Naeem Kandwal

نعیم کندوال

جہلم کے گاؤں کندوال میں بارشوں اور سیلابی ریلے نے تباہی مچادی ہے۔150سے زائد خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ملحقہ سڑکیں اور گلیاں کھنڈرات کے مناظر پیش کر رہی ہیں۔بارشوں اور برساتی نالے کے پانی سے کئی مکان منہدم ہو چکے ہیں۔ ایک مکان کی چھت گرنے سے محمد وقاص نامی نوجوان کی قیمتی جان ضائع ہوچکی ہے۔حکومتی اراکین نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا اور امداد کا وعدہ بھی کیا لیکن تا حال یہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔

علاقے کے متاثرہ گھرانے تا حال حکومت کی طرف سے امداد کے منتظر ہیں۔جہلم کی مشہور سماجی اور سیاسی شخصیت چوہدری عابد اشرف جوتانہ نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا اور کچھ متاثرہ گھرانوں کو امداد دی۔عابد اشرف جوتانہ غریب پروری میں اپنے مثال آپ ہیں۔عابد اشرف جوتانہ تحصیل ناظم بھی رہ چکے ہیں ۔

(جاری ہے)

وہ ایک سنہری دور تھا۔اُس دور میں ضلع جہلم میں کافی ترقیاتی کام ہوئے۔

اُس دور میں فنڈز کی تقسیم کا عمل بہت شفاف تھا ۔یہاں تک کہ کندوال کے ایک لیبر ممبر تک فنڈز منتقل ہوئے۔
سابق وائس چیئر مین ملک غضنفر اعوان بھی خدمت خلق میں پیش پیش ہیں۔ملک غضنفر اعوان کی کوششوں سے 400سے زائدمتاثرہ اور ضرورت مند گھرانوں میں 10لاکھ کی مالیت کا راشن تقسیم کیا گیا۔ملک غضنفر صاحب کا یہ اقدام انتہائی قابل تعریف ہے۔کندوال کی تاریخ میں پہلی بار 10لاکھ کی مالیت کا راشن ضرورت مندوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

یہ راشن ملک غضنفر اعوان کی زیرِ نگرانی تقسیم کیاگیا۔اِس راشن کی تقسیم میں Transparency کی مثال قائم کی گئی۔ملک غضنفر اعوان کا یہ اقدام انتہائی قابلِ تعریف ہے۔اہلِ علاقہ خصوصاََ متاثرہ گھرانے ملک غضنفر اعوان کی اِس کاوش پر اُن کے شکر گزار ہیں ۔
حقیقت میں عوام کی دیکھ بھال کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔فلاحی ریاستیں عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔

سب سے بڑی ذمہ داری اُن منتخب افراد پر عائد ہوتی ہے جو ابھی حکومت میں ہیں لیکن بد قسمتی سے حکومتی نمائندوں کی طرف سے متاثرہ گھرانوں کی تا حال کسی قسم کی امداد نہیں کی گئی۔ہم ریاستِ مدینہ کے دعوے تو ہر وقت سن رہے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ۔یونین کونسل کندوال میں سٹرکچر با لکل تباہ ہو چکا ہے۔واٹر سپلائی کا نظام درہم برہم ہے۔

گلیاں اور سڑکیں ویرانی کا منظر پیش کر رہی ہیں ۔متاثرہ خاندان اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر نو کے لیے ممکنہ اقدامات اٹھا رہے ہیں ۔سیلاب سے پہلے بھی یہ علاقہ تنزلی کا شکار ہے۔پچھلے ادوار میں ہمیشہ اِس علاقے کو محروم رکھا گیا۔ کندوال کی آبادی تقریباََ 30ہزار سے زائد ہے لیکن یہاں کالج تو دور کی بات ہائیر سیکنڈری کلاسز کی سہولت بھی موجود نہیں ۔

تعلیم ہر امیر غریب کا بنیادی حق ہے۔امیروں کے بچے تو شہروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن غریب طلبا اور طالبات اِس بنیادی ضرورت سے محروم ہو رہے ہیں ۔کندوال کا واحدپل کھنڈرات کے مناظر پیش کر رہا ہے۔پل گرنے کے قریب ہے لیکن کوئی حکومتی نمائندہ ٹس سے مس نہیں ۔جب تک کوئی حادثہ نہیں ہو گا تب تک پل کی تعمیر کا کام شروع نہیں ہو گا۔یہ ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔


حکومتِ وقت کو چاہیے کہ علاقے میں ہونے والے نقصانات کا جائزہ لے۔سیلاب زدگان کا پر زور مطالبہ ہے کہ اِس کے لیے با قاعدہ ایک کمیٹی بنائی جائے جو شفافیت کے ساتھ نقصانات کا تخمینہ لگائے اور متاثرہ خاندانوں کے نقصانات کا ازالہ کرے ۔حکومت کو چاہیے کہ کندوال کو آفت زدہ علاقہ قرار دے اور علاقے کی تعمیرِ نو کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :