سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ اور انکے جراٸم ‎‎

پیر 21 جون 2021

Nafeesa Ch

نفیسہ چوہدری

کوٸی بھی عمل بذاتِ خود چھوٹا یا بڑا ہونے کا متحمل نہیں ہوتا۔اسکے نتاٸج،اخلاص،مقاصد عمل کے پیچھے کا وجہ اسے مقام و مرتبہ دیتی ہے۔
بہت مشہور واقعہ ہم سب کی سماعتوں سے گزرا ہوگا یا ہم نے اپنے مطالعے کے دوران اسکی چاشنی کو محسوس کیا ہوگا اور وہ یہ کہ جب حضرتِ ابراہیم کو نارِ نمرود میں پھینکا جانے لگا تو ایک چڑیا اس آگ کو بجھانے کے لیے اپنی چونچ میں پانی بھر کے لاٸی تاکہ آگ کے شعلوں اور اسکی حدت کو کم کرسکے۔

آپ اور میں یہ فیصلہ تو بہت جلد کرسکتے ہیں کہ بھلا آگ کے اتنے بڑے الاٶ کو ایک نھنی جان کے چونچ بھر پانی سے کیا فرق پڑسکتا؟
مگر ہمارے شعور کی پرندے کی پرواز اس خلوص،نیت اور نتاٸج کو چھونے سے قاصر ہے جو اس چڑیا کے عمل سے پہلے یا بعد میں کار فرما تھے۔

(جاری ہے)


سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ ایک ایسی تنظیم جو آج تک اس ایک مقصد کو لیکر اپنا کام کرتی رہی ہے کہ
شکوہ شبِ ظلمت سے کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوٸی شمع جلاتے جاتے۔


اس تنظیم کا منشور ہی اس تنظیم کے حق پرست اور حقیقت پسند ہونے کی بیّن دلیل ہے۔
منشور یہ ہے کہ۔
تحفظِ عقیدہ ختمِ نبوت
تحفظِ ناموسِ رسالت
کشمیر،فلسطین،برما میں سسکتی انسانیت کے لیے آواز اٹھانا اور انکی آزادی کے لیے علمِ جہاد بلند کرنے کی ترغیب دینا۔
تمام امتِ مسملہ کو ایک پلیٹ فارم میں جمع کرنا۔
ظلم کے خلاف آواز اٹھانا۔


امن اور اخوت کا پیغام دینا۔
یہ منشور ثابت کرتا ہے کہ اس تنظیم کی بنیاد رکھنے والے نے حالات اور وقت کی نبض پہ ہاتھ رکھ کر ضرورت کو سمجھا اور پھر اس نے اس ملک و ملت کے لیے ایک ایسا قدم اٹھایا۔جس نے ایک طرف ہمیں بتایا کہ ہم مسلمان ہیں۔
دوسری طرف یہ احساس دلایا کہ پاکستان ہمارا گھر ہے۔
پچھلے آٹھ سالوں سے سفر کرنیوالے اس کارواں نے کبھی عقیدہ ختمِ نبوت کے مجاہدین بنکر ملک کی سڑکوں کا رخ کیا تو کبھی ناموسِ رسالت کے پروانے بنکر تمام ممالک کو یہ پیغام دیا۔


نہ کٹ مروں جبتک شہہِ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
اس تنظیم کا صدر ایک ایسی شخصیت جس نے بغیر کسی پاور کے اپنے ہاتھ سے جا کر اس شخص کو بے نقاب کیا جو اسلام آباد میں کٸی دنوں تک اپنے خیمے پہ اسراٸیل کا پرچم لگاٸے اس مقدس سرزمین کی آکسیجن کے مزے لوٹ رہا تھا۔
اس عظیم ٢٦ سالہ نوجوان کو آج ہم شہیر حیدر سیالوی کے نام سے جانتے ہیں۔


وہ جس نے اپنے زمانہ طالبعلمی میں سکولز،کالجز کے باہر بیٹھ کر طالب علموں کو بتایا کہ ہماری تاریخ بنجر نہیں بلکہ اسکی کوکھ میں وہ عظیم شخصیات پاٸی جاتی ہیں جنہوں نے ہمیں غیرت کا پیغام دیا اور وہ شخصیات صلاح الدین ایوبی،نورالدین زنگی،محمد بن قاسم،طارق بن زیاد کے نام سے تاریخ کے سینے میں زندہ و جاوید پاٸی جاتی ہیں۔
یہ وہ شخص ہے کہ جب ہالینڈ پہ گستاخی ہوتی ہے تو یہاں باہر نکل کر اپنے ملک کے صاحبِ اقتدار لوگوں کو چیخ چیخ کر بتاتا ہے کہ ہم نے تم لوگوں کو اسلام اور پاکستان کی حفاظت کے لیے منتحب کیا تھا۔


اب فرض نبھانے کا وقت ہے۔
ایسا شخص کہ جب کوٸی ملک و ملت کے خلاف ایک لفظ بھی بولے سب سے پہلے سامنے سینہ تانے کھڑا نظر آتا ہے۔
اس ساری گفتگو کا مقصد یہاں اس تنظیم یا اسکے بنانے والے کی تعریف میں رطب اللساں رہنا نہیں ہے۔
بلکہ یہ بتانا ہے کہ یہی وہ کاوشیں ہیں جسکے لیے انسان کو خلیفة اللہ کی خلعتِ فاخرہ پہنا کر بھیجا گیا۔
اب مسٸلہ یہ ہے کہ جس ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے یعنی آپکو freedom of speech دی جاتی ہے۔

آپ اپنے اظہار راٸے می آزاد ہوتے ہیں۔
وہاں اگر کوٸی اسلام اور پاکستان کے دفاع کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
وہ دہشت گرد، انتہا پسند اور نجانے کیا کچھ قرار دے دیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
یہاں پر اسلام کے دامن میں پلنے والی خواتین بے لباس ہوکر سڑکوں پہ نکل آتی ہیں اور عورت مارچ کے نام پر رقص و سرور کی محفل جما لیتی ہیں انہیں باقاعدہ سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔

اس کے برعکس ایک نوجوان ہمارے ملک میں شریعت اور قانون دونوں کے باغی قادیانی کو قتل کر دیتا ہے جو کہ اسکی شرعاً سزا ہے تو اس پر وہ نوجوان سلاخوں کے پیچھے نظر آتا ہے۔
پھر ستم یہ کہ اس کھلے تضاد اور ناانصافی پہ جو سوال کرتا ہے وہ دہشت گرد قرار دیکر سلاخوں کے پیچھے کر دیا جاتا ہے۔
میری قارٸین سے صرف یہ گزارش ہے کہ اس ایک پیغام کر ظاہری اور باطنی کونوں کے ساتھ سننے کے بعد فیصلہ کیجیے کہ ہم کون ہیں اور کس جگہ کھڑے ہیں؟جبکہ ہماری اصلی جگہ اور اصل مقصد کیا ہونا چاہیے؟
اور وہ پیغام یہ ہے کہ۔
جب کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو
ڈٹ جاٶ حسین کے انکار کی طرح ۔۔۔۔۔۔!!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :