صحافی جو دھماکے میں زخمی ہوا

پیر 25 فروری 2019

 Nasir Alam

ناصرعالم

مردان سے تعلق رکھنے والے سینئرصحافی یوسف خان سے میری ملاقات کچھ عرصہ قبل قومی اخبار کے ہیڈآفس اسلام آباد میں میٹنگ کے دوران ہوئی تھی یہ وہی صحافی ہے جو تین سال پہلے ایک دھماکے میں شدید زخمی ہوئے تھے ،وہ المناک اوردلخراش واقعہ کہاں اور کیسے پیش آیا یہ سب کچھ یوسف خان نے مجھے خودایک تحریری خط کی شکل میں ای میل کر دیا ہے جو من وعن قارئین کی نذرکرتاہوں اس امید کے ساتھ کہ حکومت وقت اور دیگرذمہ دارحکام اس متاثرہ صحافی کے ساتھ زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھنے میں ضرورتعاؤن کریں گے جبکہ ساتھ ساتھ صحافتی تنظیمیں بھی اس ضمن میں ان کی دادرسی اورحوصلہ افزائی کریں گی۔

میں آج سے تقریبا تین سال قبل 19اپریل کو صحافتی ذمہ داری نبھانے کیلئے ایکسائز، ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹیکس آفس مردان کینٹ گیا جہاں میرے پہنچنے کے ساتھ ہی پستول سے مسلح ایک خود کش حملہ آوردفتر میں داخل ہوا اور فائرنگ شروع کی جس پر میں نے ا نہیں روکنے کی بھرپورکوشش کی اور ساتھ ساتھ موقع پر موجود سو کے قریب سائلین اور عملہ کو آوازیں دیتے ہوئے بچانے کی کامیاب کوششیں کیں جس سے موقع پر موجود افراد محفوظ مقامات تک پہنچ گئے اور بم دھماکے سے محفوظ رہے جس پر خود کش حملہ آورنے مجھ پر فائرنگ کی جس سے میرے بازو اور گردن پرشدید زخمی آئے تاہم خود کش حملہ آور کے جب کارتوس ختم ہوگئے تو میں نے دوبارہ اُسے روکنے کی کوشش کی لیکن اس وقت اس نے خود کش حملہ کیاجس سے دیگر لوگ بچ گئے اور مجھے بائیں جانب چہرے اور بدن کے دیگر حصوں پر زخم آگئے جبکہ میری ایک آنکھ، دونوں کان مکمل طور پر ضائع ہوگئے اور بائیں جانب سر، چہرے، ناک، جبڑے،گردن اور گلے کا نیورو سسٹم ختم ہوگیا جبکہ فیس بون کو بھی کافی نقصان پہنچ گیا جس کی وجہ سے آج میں معذوری کی زندگی گزار نے پر مجبورہوں ۔

(جاری ہے)

وہ مزید کہتے ہیں کہ میں گذشتہ 25سال سے صحافت سے وابستہ ہوں ،سب کو پتہ ہے کہ لوکل سطح کے میڈیا نمائندگان کو تنخواہ وغیرہ نہیں ملتی انہیں بمشکل اشتہارات سے معمولی رقم مل رہی ہے جس میں ان کی زندگی کی گاڑی بمشکل چلتی ہے جبکہ موجودہ جسمانی معذوری میں بھی میں اپنی 80سالہ بوڑھی والدہ ،ہاتھ پاؤں سے معذور 40 سالہ معذوربہن اور 7سال سے 13 سال تک کے بچوں کا واحد کفیل ہوں لیکن میں والدہ صاحبہ ،بہن کی طبی ضروریات اور بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتا اس کے ساتھ ساتھ میری بیوی برین ٹیومر کی مریضہ ہے اورلاکھوں روپے آپریشن پر خرچ کرنے کے باوجود ابھی انہیں دوبارہ آپریشن کی ضرورت ہے جبکہ میرے ذاتی علاج پر 35 ہزار ماہانہ اخراجات آتے ہیں اور خود کش دھماکے کے بعدجسم کے مختلف حصوں میں تکلیف کے باعث مزید اضافی ادویات بھی استعمال کررہا ہوں جن کی قیمتیں بھی ہزاروں روپے بنتی ہیں جبکہ مادہ پرستی کے اس دور میں مہنگی ادویات ،ڈاکٹروں کی فیس اور اشیائے خورد و نوش کے اخراجات بھی میری فہرست میں شامل ہیں۔

 خود کش دھماکے کے بعد میں ایک ہفتے تک بے ہوش رہا، پہلے ایمرجنسی میں DHQاسپتال پر ایم ایم سی اسپتال اور بعد میں ایک ہفتہ LRH اسپتال میں رہا ۔اس دوران میرے رشتہ داروں نے سرکاری علاج کی بجائے بھاری اخراجات اٹھائے لیکن تکلیف زیادہ ہونے کے باعث مجھے الشفاء ہسپتال اسلام آباد لیجایا گیا جبکہ مختلف ہسپتالوں سے بھی علاج کرایا ۔LERH میں علاج کے دوران سیکریٹری صحت نے بھی مجھے ہر قسم کے تعاؤن کا یقین دلایا جبکہ اسلام آباد میں اس وقت عمران خان کادھرنا جاری تھا لیکن سابق سینئر وزیر شہرام خان ترکئی نے مجھے بتایا کہ پرویز خٹک اس وقت اسلام آباد دھرنا میں مصروف ہے اور مجھے ہر قسم کے تعاؤن ،علاج مالی امداد کی یقین دہانی کی جبکہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بحیثیت جرنلسٹ اور مردان پریس کلب کے جائنٹ سیکرٹری میرے علاج اور اخراجات اور خصوصی پیکیج کیلئے خصوصی میڈیکل بورڈ کمشنر مردان اور ایم ایس ڈی ایچ کیو ہسپتال مردان کے ذریعے بنایا اور ایک درخواست کے ذریعے خصوصی پیکیج دینے کا بھی اعلان کیا ۔

 متاثرین کوحکومت نے ڈپٹی کمشنر مردان کے ذریعے جہاں معمولی زخمیوں کو دو دو لاکھ روپے دئے وہاں مجھے بھی دو لاکھ روپے کا چیک مردان پریس کلب میں دیا گیا پریس کلب اور ضلعی حکومت نے بھی میری مالی مدد کی لیکن وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر تھی جبکہ اب تک میرے علاج پر13 لاکھ روپے سے زائد خرچ ہوئے ہیں لیکن شہرام خان ترکئی، سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے میڈیکل بورڈ بنانے اور دوسال تک سیکریٹ کا طواف کرنے کے باوجود میرے لئے اور میرے بچوں کی مزیدتعلیم جاری رکھنے کیلئے کسی قسم کا قدم نہیں اٹھایا اب مجھ میں مزید مالی سکت باقی نہیں ہے کہ اپنا مزید علاج کر سکوں اور بوڑھی والدہ صاحبہ ، ہاتھ پاؤں سے معذور بہن اور بیوی کے برین ٹیومر کاعلاج کر سکوں اور نہ میں مزید بچوں کاتعلیم جاری رکھ سکتا موجودہ ناخوشگواراور مالی بد تر حالات کے باعث میں خود کشی تک تیار ہو گیا ہوں ، لہٰذا صدر پاکستان، وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر اطلاعات و خزانہ موجودہ وزیر دفاع اور سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک ،گورنر خیبر پختونخوا،وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا،وزیر اطلاعات، چیف سیکریٹری فوری نوٹس لے کر میری حالت پر رحم کریں اور میری زندگی بچانے ،ادویات تک رسائی،ضعیف والدہ، معذور بہن ،برین ٹیومر کی مریض اہلیہ کا علاج اور بچوں کی تعلیم جاری رکھنے میں اپنا کردار ادا کر یں دعا گو رہوں گا،والسلام ،یوسف خان ،محلہ بوکیان،گاؤں وڈاکخانہ مایار،تحصیل وضلع مردان خیبر پختونخوا ۔

 یوسف خان کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ واقعی بہت افسوسناک اوردل کو دکھادینے والا واقعہ ہے ،اس مجاہد صحافی کی اپنی زندگی بڑی مشکل سے گزررہی ہے مگروہ اس حالت میں بھی ماں سمیت پورے خاندان کے علاج معالجہ سمیت ان کی کفالت بھی کررہاہے ،انہیں روزانہ بلکہ لمحہ بہ لمحہ کن کن کربناک حالات سے گزرناہوگا یہ اندازہ ان کی تحریرکردہ درجہ بالا خط سے بخوبی لگایا اور ان کا درد محسوس کیا جاسکتاہے ،یہاں پر حکومت اوردیگر ارباب اختیار سے اپیل کرتاہوں کہ وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے اور کسی مسیحاکی راہ تکنے والے اس صحافی کی طرف توجہ دے کران کا سرکاری سطح پر علاج معالجہ کرانے کیلئے اقدامات اٹھائیں جبکہ جن ذمہ داروں نے یوسف خان سے تعاؤن کے وعدے کئے ہیں کہ وہ بھی اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں تاکہ ان کی مشکلات اورپریشانیوں میں کمی آسکے ۔

 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :