عورت مارچ اور میری مرضی۔۔!!!

جمعہ 6 مارچ 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

   آج کل ملک میں عورت مارچ اور خلیل الرحمٰن قمر اور ماروی سرمد کی گفتگو بہت زیر بحث ھے"۔میرا جسم میری مرضی" وہ تزکرہ ھے کہ الامان الحفیظ، لگتا ہے اس سے بڑا مسئلہ پاکستان میں کوئی نہیں ہے ،کیا مذھبی،لبرل ،بڑے چھوٹے سب میڈیا اور سوشل میڈیا پر فکر و دانش کی گھتیاں سلجھا رہے ہیں۔ حالانکہ نظر انداز کرنا سب سے بڑی سزا ھوتی ھے اور دوسرا یہ پاکستان کی زیرو فیصد خواتین یا معاشرے کا مسئلہ بھی نہیں ھے۔

علمی انداز میں  آزادی کی تعریف اور وضاحت ھونی چاہیے عورت پاکستان میں شدید مسائل کا شکار ضرور ہے اس کی وجہ معاشرے کا رویہ جہالت، دین سے ناواقفیت اور فرسودہ روایات کی پاسداری ھے۔مگر بد قسمتی سے عورت مارچ کے کسی ایجنڈے میں عورت کے مسائل اور معاشرتی المیے پر کوئی بات نہیں کی جاتی اور نہ ھی ان لوگوں کا خواتین حقوق سے کوئی تعلق ھے اور نہ ان مردوں کا خواتین کا تحفظ نسواں سے کوئی واسطہ ھے جو راک ٹپکتے ان کے ساتھ میرا جسم میری مرضی کا راگ الاپتے ہیں۔

(جاری ہے)

بنیادی طور پر آزادی کا مفہوم بدل دیا گیا ہے کیا اس سلوگن سے کون سی آزادی مراد ہے۔یہ تو بنیاد پرستی یا انتہا پسندی کی ایک اور شکل ھے دونوں انتہائیں معاشرے میں شدت پیدا کرتی ہیں جس سے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ازادی سلب ہو جاتی اور عورت کے اصل حقوق دبا جاتے ہیں۔ میرے خیال میں اس پر مردوں کو بولنے کی ضرورت نہیں ہے خود ھماری عورتیں ایسے زیرو فیصد طبقے کا مقابلہ کر لیں گی۔

انہی لوگوں سے کہا جائے کہ وہ اپنی ماؤں بہنوں،بیویوں جو کے کر نکلیں پھر انصاف ھوگا مزدور خواتین کو پیسے دے کر لانا اور چند واہیات مناظر دیکھنا کون سا انصاف ھے ۔ایک زمانہ تھا جب سیکولر ازم کے نشے میں چند لوگ بار کرتے احتجاج کرتے تھے مگر اپنی علاقائی اور قومی تہزیب کے دائرے میں رہ کر بات کرتے تھے اب جو بات کی جا۔ رہی ہے اس کا تہذیب بلکہ کسی تہذیب وتمدن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

میری مرضی تو صرف جنگلی جانوروں میں ھی چل سکتی ھے معاشرے کی بنیادی اکائی اعتدال اور حقوق کی پاسداری سے جڑی ھوئی ھے۔کشور ناھید جیسی مرد گریز قوت بھی اس حد تک نہیں گئی۔خلیل الرحمن قمر میں دانش۔ مار دیا جبکہ ماروی سرمد تو عورت ھی مار رہی ہیں اور عامر لیاقت حسین اور منصور علی خان عورت کا جنازہ پڑھانے کا انتظام کر رہے ہیں۔جو آزادی عورت مارچ کا رہا اس کا دنیا کی کسی تہذیب سے تعلق نہیں ہے۔

میرے خیال میں مذھبی طبقات کو بالکل نظر انداز کر دینا چاہیے میڈیا نوٹس نہ لے یہ آپ اپنے خنجر سے خود کشی کر لیں گے۔ سرکش لوگوں اور باغیوں کے لیے اللہ نے خوب بندوبست کیا ھوا ھے۔دوسرے کے ناک سے پہلے آپ کی آزادی ختم ہو جاتی ہے۔پھر یہ کون سی دنیا یا معاشرے کی علامت ہے۔اپنی بدصورتی کا فطرت ٹ بدلہ ھے یا کوئی غیر ملکی ایجنڈا۔ایک اور ذھنی خلفشار پایا جاتا ھے جس میں خدا کے قانون کی خلاف ورزی،فوج جو گالیاں دینا ایک فیشن بنا لیا گیا ہے۔

اس کو دانشوری کہا جاتا ہے۔اللہ نے تو دو راستے بتا کر انسان کو آزادی دے رکھی ہے اور عورت بھی انسان ھے برائی اور اچھائی کا راستہ موجود ہے جو چاھیے انتخاب کر لے۔ان دو راستوں کا اختیار بھی سونپ دیا گیا ہے۔ عقل کو چیلنج کرنا ہے تو وہاں کر لیں۔ھو جسم آپ کا ھے ھی نہیں اس کی مرضی کیا۔کبھی بیمار ہو کر ڈاکٹر کے پاس نہ جائیں مرضی کا پتہ لگ جائے گا۔علماء کرام نے عورت کے حقوق پر کھل کر اور خاوند نے ھتک جان کر کبھی بات نہیں کی یہی وجہ ہے کہ آج اعتدال پسند مغلوب اور انتہا پسند غالب ھیں۔میرس جسم میری مرضی بھی تو ایک انتہا ھے جو نظر انداز کرنے سے ختم ہو گی اس کی مخالفت کی ضرورت نہیں پڑھے گی۔عورت مقدس ھے تو مقدس ھی رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :