
کورونا۔۔۔۔کب تک رونا؟
جمعرات 4 جون 2020

پروفیسرخورشید اختر
پاکستان میں اب بھی لوگ کورونا کی شدت کے باوجود تشکیک کا شکار ہیں، ایک طبقہ اس کو بالکل سازش سمجھتا ہے اور کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو فضول گردانتا ہے، انہیں پتہ نہیں کیوں دنیا بھر میں پھیلے اس خطرناک وائرس اور اس کے نتیجے میں تین لاکھ سے زیادہ ھلاکتیں نظر نہیں آتیں، انہیں اور کونسا ثبوت یا دلیل چاہئیے پاکستان میں دو ھزار تک لوگ زندگی کی بازی ھار بیٹھے جن میں ڈاکٹرز اور ان کے بچے، سیاستدان، عوام اور ھر طبقے کے لوگ موجود ہیں، اس کے باوجود وہ اس کو امریکہ یا چین کی سازش سمجھتے ہیں، ایک طبقہ تو مصر ھے کہ لاشیں امریکہ کو ڈالرز کے عوض بیچی جا رہی ہیں،اپنی لاکھوں لاشوں کی موجودگی میں وہ ھماری لاشوں کو کیا کرے گا؟اگرچہ اس پر امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ جاری ہے مگر وائرس بنایا گیا یا قدرتی ھے اس بحث میں پڑنے کی بجائے یہ مان لینا چاہیے کہ وائرس ایک حقیقت ہے اور احتیاط ضروری ہے، اب روز کیس چار ھزار سے اوپر جا رہے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق صرف لاھور میں سات لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس میں مبتلا ہیں، ایس او پیز سب دھرے کے دھرے رہ گئے اور عوام جیسے جیل سے لوگ نکل کر خوشی محسوس کرتے ہیں اس طرح رمضان کے آخری عشرے کو بازاروں میں لطف اندوز کیا گیا، جس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے، صرف امریکہ۔
(جاری ہے)
اس کورونا کے ساتھ طویل عرصہ رہنا ہے تو اس کے لیے جدید تحقیق اور حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا، تاکہ وبا پر قابو پایا جا سکے، باقی علمی، سانئسی اور سازش کی بحث کا بہت وقت ھے ، کورونا ایک کرئیر وائرس ھے جو اڑ کر نہیں بلکہ کسی ذرائع سے دوسرے تک پہنچتا ہے، اس ذرائع کو محدود کر دیں یہ میتھ بھی دفن ھو چکی ھے کہ یہ پہلے سے بیمار افراد کو ھوتا ھے آپ کے سندھ میں اب تک تیرہ سو بچے اس کا شکار ہو چکے ہیں جن کو خواتین اٹھا کر، یا انگلی پکڑ کر عید کی شاپنگ کے لیے نکلتی تھیں، پاکستان میں ابھی رینڈم ٹیسٹ بھی نہیں ھوئے اس کے باوجود شک کی بنیاد پر ھونے والے ٹیسٹ کے نتائج آپ کے سامنے ھیں خدا را اپنی نئی نسل پر رحم کریں اور اس مرتبہ جہالت،نا سمجھی اور فرسودگی سے نکل آئیں تاکہ مستقبل کی کوئی امید باندھی جا سکے۔حکومتی سطح پر جدید تحقیق اور عوامی سطح پر شعور اس آفت کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے ضروری ہے،بے روزگاری اور بھوک سے بچنے کے لیے حکومتی اسکیموں سے فائدہ اٹھایا جائے تاکہ اس دیر پا جنگ کے خلاف اڈئیل ماحول بن سکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسرخورشید اختر کے کالمز
-
مہنگائی کس کا ، کیا قصور ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
تحریک عدم اعتماد۔۔۔سیاست یا مزاحمت!
منگل 15 فروری 2022
-
لتا۔۔۔سات دہائیوں اور سات سروں کا سفر!!
منگل 8 فروری 2022
-
نیٹو ، نان نیٹو اتحادی اور اب قطر!!!
بدھ 2 فروری 2022
-
نظام بدلنے والے کہاں ہیں؟
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
یوکرین، یورپ میں بڑھتی سرد اور گرم جنگ!!
جمعہ 28 جنوری 2022
-
بھارت کی مسلم دشمنی اور نسل پرستی
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
کیا عثمان بزدار نے حیران نہیں کیا؟
جمعہ 21 جنوری 2022
پروفیسرخورشید اختر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.