قائد اعظم، جمہوریت اور آزادی رائے

جمعرات 24 دسمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

 پاکستان میں جمہوریت کے نام پر حکومت وجود میں آئی یا آمریت کے پرچم تلے حکومت بنی ہو، بدقسمتی سے جمہوری کلچر پیدا نہیں ہو سکا، ہمارے مزاج میں جمہوریت نہیں ہے یا معاشرے کے موثر طبقات نے درس ہی یہ دیا، لیکن 73 سال گزرنے کے باوجود ھم نظام کو رو رہے ہیں، سیاست تجارت، منافقت، دولت اور خاندانی مفادات کا  محور بن گئی، کوئی یہ منطق پیش کرتا ہے کہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیا گیا، کوئی کہے گا اسٹبلشمنٹ نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا، کسی نے نظام کو برا بھلا کہا، کوئی صوبائی خودمختاری کے لیے روتا رہا اور جن سیاسی جماعتوں نے ہر جائز وناجائز طریقے سے سیاست میں جگہ بنائی وہ آپس میں لڑتے رہے، جمہور اور مملکت بہرحال خسارے میں رہے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو صاحب جب منظر عام پر آئے تو تربیت اور پرورش آمریت کی آغوش میں ہی ہوئی تھی بلوچستان کے نو منتخب سیاسی رہنماؤں کو بھٹو صاحب کے ھاتھوں ہی پس منظر میں جانا پڑا، وزیر اعلیٰ عطا اللہ مینگل کو ھٹا کر نئی حکومت لے آئے، اس کے باوجود یہ بات درست ہے کہ بھٹو صاحب نے اپنی ایک عوامی قوت پیدا کی، اس کے بعد آنے والے جتنے بھی حکمران گزرے وہ کسی کے کندھوں پر ہی بیٹھ کر، یا بنی بنائی سیاسی پلیٹ سے چاول کھا کر  آئے، میاں نواز شریف اور آن کی پوری ٹیم اسٹبلشمنٹ یا آمریت کی چھتری تلے یہاں تک پہنچی، بھٹو صاحب کے بعد عمران خان واحد سیاسی رہنما ہیں جو اپنا ووٹ بینک بنانے میں کامیاب ہوئے اگرچہ اتحادی حکومت بنانے کے لیے بہت محنت کی گئی مگر چالیس فیصد سے زائد نوجوان ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تو کسی نے ان کو اہم سمجھا  جس کو سیاسی جماعتیں جعلی کہہ رہی ہیں اس کا درست تجزیہ 2013ء اور پھر 2018ء کے انتخابات سے کیا جا سکتا ہے ، بات جمہوریت کی ہو رہی تھی میرے مشاہدے اور مطالعے کے مطابق سب سے بڑی وجہ جہالت، سیاسی جماعتوں میں غیر جمہوری انداز، اور دولت کی ھوس نے جمہوریت کو پامال کر دیا، جس کی وجہ سے ناانصافی، تعصب اور عدم برداشت نے جنم لیا اور آج کوئی کسی کو تسلیم نہیں کرتا، نہ اپوزیشن اپنا جمہوری کردار ادا کرتی ہے اور نہ حکومت عوام کو انصاف دے پاتی ہے، جب جمہوریت ڈیلور نہیں کرے گی تو عوام مایوس ھوں گے وہ سیاست دانوں کی مشکلات میں ساتھ  کھڑے  نہیں ھوں گے، ھمارے ھاں کہنے کو تو برطانوی پارلیمانی نظام رائج ہے ، مگر عملاً اس کے قریب بھی نہیں  ہیں، 73 کا آئین مقدس تو ہے، مگر جدت اپنے تقاضے مانگ رہی ہے، ترامیم ہوئیں ، این ایف سی ھوا مگر وفاق ایسے کنگال ہوا کہ اہم معاملات میں بے معنی ہو کر رہ گیا،ایک رونا یہ بھی رویا جا رہا ہے کہ آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے، حالانکہ اب کوئی بات بھی چھپی نہیں رہی، صحافت کے لیے مشکلات ہر دور حکومت میں رہی ہیں، یہ آج کا مسئلہ نہیں،  تربیت کی کمی، اچھے اور برے کی تقسیم نے معاملہ اور الجھا دیا، ایک طبقہ تاریخ، آئین اور قانون کے نام پر بالکل تکنیکی بحث میں پس پردہ چلا گیا اور دوسری طرف نوجوان صحافی  تاریخی غلطیوں سے ہی اس طبقے کو متوازن کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس کو برداشت نہیں کیا جاتا، صحافت میں بھی ارتقاء کا عمل چل رہا ہے، اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے، تاریخ سے سبق نہ سیاست دانوں نے سیکھا اور نہ صحافت کے اداروں نے، جس کی وجہ سے ایک وسیع خلیج پیدا ہوئی، اب جمہوریت کو قائد اعظم محمد علی جناح کے مشاہدات اور اقوال سے ہی پرکھ لیں،  لندن میں 1946 ء میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ"جمہوریت مسلمانوں کے خون میں شامل ہے، جو کل انسانیت کی برابری پر یقین رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

۔۔۔اور برادری، برابری اور آزادی کے حق کو مانتے ہیں" یہی بات ریاست مدینہ میں موجود تھی، اقلیتوں کے ساتھ سلوک ہو یہ حقوق کا تحفظ سب کو قانون کی نظر میں برابری حاصل تھی، اسی کو قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے آئین اور قانون میں دیکھنا چا رہے تھے، بد قسمتی سے ھماری مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس تصور کو ہی روند ڈالا اور عدم برداشت اور انتہا پسندی کو ہوا دی، 18 اپریل 1948ء پشاور ایڈورڈ کالج میں خطاب کرتے ہوئے  قائد نےکہا کہ"میں چاہتا ہوں کہ ایک آزاد خود مختار ریاست کے شہری کے طور پر آپ چوکنے رہیں جب حکومت داد کی مستحق ہو اسے داد دیں، جب تنقید کی مستحق ہو تو بے خوف ہو کر تنقید کریں لیکن ہر وقت جارحانہ اور تباہ کن تنقید کر کے وزارت یا اہلکاروں کو روند ڈالنے پر خوش نہ ہوتے رہیں" کیا آج ہماری سیاست اور صحافت اس اصول پر پوری اترتی ہے، ھم تنقید کرنے آتے ہیں تو حکومت ختم کر دیتے ہیں یا ذاتی مفادات کے لیے کئی حدیں پھلانگ لیتے ہیں، اس میں کون توازن پیدا کرے گا؟ بائیس مئی 1948ء ڈھاکہ ریڈیو خطاب میں کہا کہ اب عوام اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ان کو پوری آزادی حاصل ہے کہ وہ آئینی طریقے سے کسی بھی حکومت کو منتخب کریں لیکن اس کا ہرگز بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی گروہ غیر قانونی طریقے استعمال کرکے یہ کوشش کرے کہ وہ منتخب حکومت پر اپنی مرضی تھوپ دے" اس وقت  دیکھ لیں سیاسی جماعتوں نے آئینی طریقے سے حکومت ھٹانے کی بجائے ایک پریشر گروپ بنا لیا ھے، یا کوئی بھی گروہ اٹھ کر استعفیٰ کا مطالبہ لے کر اجاتا ھے، کئی لکھنے والے بسم اللّٰہ ہی تعصب اور تنگ نظری سے کرتے ہیں،  تعلیم کی کمی کی وجہ سے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی جڑیں سیاست، حکومت اور جماعتوں میں اتنی پختہ ھوئیں کہ بھائی، بیٹا، بیٹی، چچا، بھتیجا اور داماد سے سیاسی جماعتیں باہر نہیں نکلتیں ، قانون سازی پر کسی کی گریپ نہیں، قائد اعظم محمد علی جناح تو برطانوی پارلیمانی جمہوریت پر بھی تحفظات رکھتے تھے اور کہتے تھے یہ نظام جمہوریت تعلیم یافتہ معاشروں میں کامیاب ہو سکتا ہے، مگر تعلیم سے تو ھمارے جاگیر دار اور سرمایہ دار کو نفرت ھے، جمہوری حکومتوں نے صرف جہالت کو ختم کیا ھوتا تو آج حالات یہ نہ ھوتے، ماضی میں جمہوری حکومت نے عوام کو انصاف دیا ھوتا تو اب پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہوتی، اب بھی وقت ہے کہ ھم 1971ء سے ہی اپنا تجزیہ کر کے جمہوری کلچر پیدا کریں ، کامیابی دور نہیں رہے گی۔

بلاشبہ جمہوریت چلتی رہے تو تبدیلیاں آتی ہیں کیا وجوہات ہیں کہ ھم بنیادی مسائل حل کرنے سے کتراتے ہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :