ہدایت!!

جمعرات 15 جولائی 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ھدایت دراصل علم و فکر کی ایسی روشنی ہے جو قلب و ذہن کو منور کرتی ہے، اور اس پر عمل ظاہر وباطن کو اجالوں سے نوازتا ہے،تمام انبیاء کرام علیہم السلام، یہی پیغام لے کر آئے تھے، تاکہ اس راستے پر چلنے والے فلاح پا سکیں،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم  ھدایت کے مشن خداوندی کے آخری پیامبر ہیں، اور آپ نے ھدایت کے دو بڑے ذرائع انسانوں کو واضح طریقے سے بتائے،پہلا بڑا ذریعہ قرآن مجید ھے، جس کو ھم سب نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ ہدایت کی کتاب ھے، آج اگر نوجوان اس سے رہنمائی حاصل کریں تو گمراہی سے بچ جائیں گے، دوسرا بڑا ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ھے، جس پر عمل پیرا ھو کر ھم اختلافات، انتشار اور بند ذھین کی جہالت اور عدم برداشت سے بچ سکتے ہیں، البتہ صحابہ کرام کی زندگی، کسی استاد کی رہنمائی بھی ھمیں ہدایت کی طرف لا سکتی ہے، قرآن مجید کے بیان اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کو مکمل نظم کے ساتھ دیکھنا ھماری کوشش ھونی چاہیے،
ھدایت سب کے لیے اتری ہے قدم بڑھانا ھمارا فرض ہے، جستجو ، اور تلاش حق کے لیے ضروری ہے کہ سیدھے راستے پر چلا جائے، جب آپ تک پیغام پہنچ گیا ہے تو آپ کا فرض ہے کہ ھدایت پائیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی سمیٹیں!
ھم سب نے بطور مسلم اس کتاب ہدایت کو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھنا اور سمجھنا چھوڑ دیا ہے، میں سمجھتا ہوں علماء و مشائخ اور اہل حل و عقد جو اس پر غور کرنا چاہیے، کیا ھم سوچ سکتے ہیں کہ ھم اپنے ساتھ کتنا بڑا ظلم کر رہے ہیں کہ قرآن مجید کی فہم جو چھوڑ دیا ہے اور اس کی تلاوت میں آگے نکل گئے ہیں، ایک خاندان میں حافظ بنانے اور جنت کے خواب دیکھنے سے، کیا ھم بری الزمہ قرار پائیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنہیں اپنے آپ سے کر کے دیکھیں، تو اندازہ ہوگا، ھم دین کو ریاست میں ڈھونڈتے ہیں کہ جناب کوئی حکمران  آئے ڈنڈا اٹھائے اور بس شریعت نافذ کر دے، اس کو سیاسی ایشو کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، کیا ایسا ممکن ھے؟ دین کا کام، اصلاح کا کام اور عبادات و معاملات فرد سے افراد اور معاشرے کی طرف منتقل ہوتا ہے، معاشرے کا بنیادی یونٹ فرد ہے، صرف چند اجتماعی احکامات ایسے ہیں جنہیں نافذ العمل کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، جن میں اجتماعی زندگی کا کوئی پہلو موجود ہو، وہ تمام ادارے جو فرد کی تربیت کے لیے ضروری تھے انہیں خود اپنے اعمال سے، رویے سے اور کردار سے کمزور کر دیا ہے، والدین، پھر مساجد، اساتذہ یہ سب سے اہم ادارے ہیں ، یہ ادارے اگر اپنا فرض پورا نہ کریں تو معاشرہ تباہی کے سفر پر چل پڑتا ہے، یہی یونٹس پختہ بنانے کی ضرورت ہے، مثلآ والدین بنیادی تربیت کا فرض ادا کریں تو نسل نو کا ایک دعوت و عمل دور مکمل ہوگا، پھر مساجد میں اسے علمی، سماجی اور فلاحی کاموں کی تربیت ملے گی،اساتذہ اس کی علمی صلاحیتوں کو جِلا بخشیں گے جو ایک مضبوط فرد اور پائیدار معاشرے کی بنیاد ھوگا، گھر ایک انسٹیٹیوٹ ھے، اسی طرح باقی بھی ادارے ہیں، تمام ادارے اپنا اپنا کردار ادا کریں گے تو معاشرہ امن و ترقی کا باعث ہوگا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :